افطار

افطار روزہ کھولنا یا ماہ مبارک رمضان میں اذان مغرب کے بعد کھانا کھانے کو کہا جاتا ہے۔ اسلام میں مغرب کی اذان سے پہلے ماہ رمضان یا ایسے نذر کا روزہ توڑنا حرام ہے جس کا دن معین ہے۔ لیکن جس شخص کے لیے روزہ رکھنا مضر ہے یا مشقت اور سختی کا باعث بنتا ہے اس پر افطار کرنا واجب ہے۔

افطار کرتے ہوئے سورہ قدر کی تلاوت اور مخصوص دعائیں پڑھنے کی تاکید ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ گرم پانی اور دودھ سے افطار کرنے کو بھی مستحب قرار دیا گیا ہے۔ دینی منابع کے مطابق روزے داروں کو افطاری دینا بہت زیادہ ثواب رکھتا ہے۔

معنی اور مفہوم

افطار، اذان مغرب کے وقت روزہ کھولنے کو کہا جاتا ہے۔[1]عید الفطر کے دن بھی عید کی نماز سے پہلے کھانے کو افطار کہا گیا ہے اور اسے مستحب قرار دیا ہے۔ [2]
روزے کو توڑنا یا افطار کرنے کے مختلف احکام ہیں

  1. واجب: اگر کوئی شخص دن کو متوجہ ہو کہ روزہ اس کے لئے نقصان دہ ہے، یا روزہ دار ظہر سے پہلے سفر کرے تو ایسی حالت میں روزہ توڑنا اور افطار کرنا واجب ہے۔[3]اسی طرح ایسی حاملہ عورت کا روزہ افطار کرنا واجب ہے جس کا وضع حمل نزدیک ہے یا وہ عورت جو بچے کو دودھ پلاتی ہے جب کہ روزہ اس کے لئے یا اس کے بچے کے لیے مضر ہے۔[4] اور اگر کسی بوڑھے مرد یا عورت جو کہ پیاس کی بیماری میں مبتلا ہیں، اکثر فقہاء کی نگاہ میں ان کا روزہ افطار کرنا واجب ہے. [5]
  2. حرام:واجب روزہ کا افطار کرنا حرام ہے؛ جیسے ماہ رمضان کا روزہ یا نذر کا روزہ اور اسی طرح ماہ رمضان کے قضا روزے کو ظہر کے بعد افطار کرنا اور ماہ رمضان کا وہ روزہ جو سفر میں ہو جب کہ سفر کا آغا ظہر کے بعد کیا ہو اور اسی طرح اعتکاف کا روزہ اس کے واجب ہونے کے بعد باطل کرنا یہ سب حرام ہیں اور کفارے کا باعث بنتے ہیں۔[6]
  3. مکروہ: مستحب روزے کو ظہر کے بعد افطار کرنا مکروہ ہے.[7]
  4. مستحب: جس نے مستحب روزہ رکھا ہو اور کسی مومن کا مہمان بنے، تو مستحب ہے کہ اس سے قبل کہ میزبان اس کے روزہ کے بارے میں متوجہ ہو، روزہ افطار کر دے.[8]
  5. مباح: قول مشہور، اگر کسی نے ماہ رمضان کا قضا روزہ رکھا ہو، ظہر سے پہلے افطار کر سکتا ہے، اس شرط کے ساتھ کہ دوسرے رمضان تک پہلے سال کے روزے کی قضا بجا لانے کا وقت ہو.[9]اسی طرح مستحب روزے کو ظہر سے پہلے افطار کرنا مباح ہے.[10]

ہندوستان میں افطار کی ضیافت

آداب

افطار کے کچھ آداب ذکر ہوئے ہیں من جملہ افطار کے وقت دعا پڑھنا اور سورہ قدر کی تلاوت کرنا، نماز مغرب کے بعد افطار کرنا،[11]نیم گرم پانی، دودھ یا میٹھی چیزیں خاص کر کھجور سے افطار کرنے کو مستحب قرار دیا گیا ہے۔[12]

مفطرات

جو چیزیں جن سے روزہ باطل ہوجاتا ہے ان کو فقہی اصطلاح میں مفطرات (روزہ باطل کرنے والی) کہتے ہیں اور مشہور مفطرات مندرجہ ذیل ہیں:

  • کھانا اور پینا؛
  • جماع؛
  • خدا، پیغمبر(ص) اور اماموں کی طرف جھوٹ کی نسبت دینا؛
  • مشہور فقہاء کے مطابق پورا سر پانی میں ڈبونا؛ اگرچہ بعض اسے مبطلات میں سے نہیں سمجھتے ہیں۔[13]
  • مشہور فقہاء کے فتوے کے مطابق غلیظ غبار کا حلق تک پہنچانا؛
  • مشہور فقہاء کے بقول صبح کی اذان تک جنابت، حیض یا نفاس کی حالت میں باقی رہنا؛
  • استمناء[14]
  • مایعات کے ساتھ امالہ کرنا، البتہ اس بارے میں فقہاء کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے.[15] *جامد اشیاء سے امالہ کرنا اکثر فقہاء کے نزدیک مکروہ ہے اور روزے کے باطل ہونے کا سبب بنتا ہے.[16]

افطار کے احکام

  1. سورج غروب ہونے سے پہلے اگر جان بوجھ کر روزہ افطار کیا جائے، تو یہ روزے کے باطل ہونے کا باعث بنتا ہے اور ماہ رمضان کے روزے کی صورت میں قضا بھی ضروری ہے. جان بوجھ کر واجب روزہ ظہر کے بعد افطار کرنا جیسے ماہ رمضان، نذر وغیرہ کا روزہ اس صورت میں کفارہ بھی واجب ہو گا.
  2. اگر کوئی شخص عمدی طور پر اور جانتے ہوئے ماہ رمضان کا روزہ افطار کرے، تو وہ پہلی اور دوسری بار سزا پانے کا حقدار ہے اور تیسری اور چوتھی بار (اقوال میں اختلاف پایا جاتا ہے) افطار کرنے والے کو قتل کیا جائے، اگرچہ شرط یہ ہے کہ پہلی اور دوسری بار سزا دی گئی ہو.[17]
  3. وہ روزے جو اس نے افطار کئے ہیں وہ واجب ہیں کہ بغیر فاصلے کے رکھے جائیں (یعنی ٦٠ دن روزے اور کفارہ) لیکن اگر کوئی شرعی عذر ہو، جیسے حیض، تو اس صورت میں عذر دفع ہونے کے بعد باقی روزے رکھے. لیکن اگر کوئی شرعی عذر نہ ہو تو بغیر فاصلے کے ٦٠ دن روزے رکھنے ہوں گے.[18]
  4. اگر روزہ دار کو زبردستی افطار کریا جائے اور اس کا کوئی اختیار نہ رہے تو اس صورت میں اس کا روزہ باطل نہیں ہے، اور کفارہ بھی نہیں ہے، لیکن اگر اسے ڈرایا جائے اور دھمکی دی جائے اور وہ ڈر کی وجہ سے اپنے اختیار سے روزہ افطار کرے تو، اس کا روزہ باطل ہو گا، لیکن کفارہ نہیں ہے.[19]
  5. اگر روزہ دار تقیہ کی بناء پر روزہ افطار کرے، اس روزے کے صحیح اور باطل ہونے کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے. وہ قول جس کے مطابق روزہ باطل ہے، اس میں روزے کی قضاء واجب ہے لیکن کفارہ نہیں ہے.[20]
  6. مسلمان کی طرف سے ماہ رمضان کا روزہ افطار کرنا اگر حلال ہو تو وہ اس کے مرتد ہونے کا سبب ہو گا.[21]

افطار کا وقت

افطار کرنے اور کھانا کھانے کے لئے ضروری ہے کہ مغرب ہونے کے بعد کچھ امساک کریں تاکہ یقین ہوجائے کہ اب مغرب ہوچکی ہے۔ وقت کے لحاظ افطار کی دو قسمیں ہیں:

الف. روزے دار کا افطار کرنا: افطار کا وقت، سورج غروب ہونا ہے مشہور فقہاء کی نگاہ میں مشرق کی طرف کی جانب سے سرخی کا زائل ہونا ہے.[22]

ب. غیر روزہ دار کا افطار:مستحب ہے کہ عید فطر کے دن نماز عید سے پہلے اور عید قربان کے دن نماز عید کے بعد افطار کیا جائے.[23]

حوالہ جات

  1. نجفی، جواہرالکلام، ۱۴۰۴ق، ج۱۶، ص۳۸۴.
  2. نجفی، جواہر الکلام، ۱۴۰۴ق، ج۱۱، ص۳۵۴؛ طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی، ج۲، ص۱۰۲ .
  3. نجفی، جواہر الکلام، ۱۴۰۴ق، ج۱۷، ص۱۳۳ و ج۱۶، ص۳۴۷، ج۱۷، ص۱۵۰-۱۵۴.
  4. نجفی، محمد حسن، جواہر الکلام، ج۱۷،ص۱۵۴-۱۵۱
  5. نجفی، محمد حسن، جواہر الکلام، ج۱۷، ص۱۵۰
  6. نجفی، محمد حسن، جواہرالکلام، ج۱۶، ص۲۶۴ ۲۶۶ و ج۲۹، ص۵۰
  7. یزدی، سید کاظم طباطبایی، العروة الوثقی، ج۲، ص۲۴۲؛ نجفی، محمد حسن، جواہر الکلام، ص۱۷، ص۱۱۵
  8. نجفی، محمد حسن، جواہر الکلام، ج۲۹، ص۵۰-۵۱؛ حر عاملی، وسائل الشیعۃ، ۱۰، ص۱۵۲
  9. نجفی، محمد حسن، جواہر الکلام، ج۱۷،ص۵۱-۵۳
  10. نجفی، محمد حسن، جواہرالکلام، ج۱۷، ص۱۱۵؛ یزدی، سید کاظم طباطبایی، العروۃ الوثقی، ج۲، ص۲۴۲
  11. حر عاملی، وسائل الشیعۃ، ۱۴۱۴ق، ج۱۰، ص۱۴۹-۱۵۱؛ نجفی، جواہر الکلام، ۱۴۰۴ق، ج۱۶، ص۳۸۴ ۳۸۵.
  12. حر عاملی، وسائل الشیعۃ، ۱۴۱۴ق، ج۱۰، ص۱۵۶-۱۶۱.
  13. https://www.sistani.org/urdu/book/61/3644/
  14. نجفی، محمد حسن، جواہرالکلام، ج۱۶، ص۲۱۷-۲۵۳؛ یزدی، سید کاظم طباطبایی، العروة الوثقی، ج۲، ص۱۷۶-۱۹۳
  15. نجفی، محمد حسن، جواہر الکلام، ج۱۶، ص۲۷۴-۲۷۵
  16. نجفی، محمدحسن، جواہر الکلام، ج۱۶، ص۲۷۵
  17. نجفی، محمد حسن، جواہر الکلام، ج۱۶، ص۳۰۷-۳۰۸
  18. نجفی، محمد حسن، جواہر الکلام، ج۱۷، ص۷۱ ۷۷ و ج۳۳، ص۲۵۵-۲۵۶
  19. نجفی، محمد حسن، جواہر الکلام، ج۱۶، ص۲۵۸ ۲۶۷؛ یزدی، سید کاظم طباطبایی، العروۃ الوثقی، ج۲، ص۱۹۸
  20. امام خمینی، تحریر الوسیلۃ، ج۱، ص۲۸۷؛ خویی، ابوالقاسم، منہاج الصالحین، ج۱، ص۲۶۹
  21. نجفی، محمد حسن، جواہرالکلام، ج۱۶، ص۳۰۷
  22. نجفی، محمد حسن، جواہرالکلام، ج۱۶، ص۳۸۴
  23. نجفی، محمد حسن، جواہر الکلام، ج۱۱، ص۳۵۴؛ یزدی، سید کاظم طباطبایی، العروة الوثقی، ج۲، ص۱۰۲

مآخذ

  • منبع مقالہ: فرہنگ فقہ فارسی، ج۱، ص۶۲۶-۶۲۴.
  • حر عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعہ، مؤسسۃ آل البیتِ لإحیاء التُّراثِ، بیروت، ۱۴۱۴ق.
  • امام خمینی، تحریر الوسیلہ (ترجمہ فارسی)، مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، تہران، ۱۳۸۶ش.
  • خویی، ابوالقاسم، منہاج الصالحین، نشر مدینہ العلم، قم، ۱۴۱۰ق.
  • نجفی، محمد حسن، جواہر الکلام فی شرح شرایع الاسلام،‌ دار احیاءالثراث العربی، بیروت، ۱۴۰۴ق.
  • یزدی، سید کاظم طباطبایی، العروہ الوثقی فیما تعم بہ البلوی (محشی)، جامعہ مدرسین، ۱۴۱۹ق.
تبصرے
Loading...