شہید مرتضیٰ مطہری کی نظر میں حق اور باطل

شہید مرتضیٰ مطہری کی نظر میں حق اور باطل

شگفتہ زہرا عابد شگری
ایم فل اسکالر

وَقُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا (اسراء، ۸۱)
اور کہہ دو کہ حق آیا اور باطل مٹ گیابےشک باطل کو مٹنا ہی ہے۔

تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ خلقت کائنات کے ٓغاز سے لیکر اب تک حق اور باطل کے درمیان جنگ و نبرد کا سلسلہ جاری ہے کیونکہ ہر دور میں فتنہ و فساد رہا ہے اسی وجہ سے بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں سب سے پہلا جو سوال ابھرتا ہے وہ یہ ہے کہ ان میں سے کون حق پر ہے اور کون باطل؟؟ حق اور باطل ایک دوسرے کی ضد ہے جس کا ایک ہی وقت میں ایک موضوع یا گروہ میں جمع ہونا محال ہے۔ اس کی شناخت درحقیقت واقعیت کو جعلی باتوں سے الگ کرنے کا نام ہے اکثر اوقات بعض مسائل میں انسان کے لئے بہت دشوار ہوتا جاتاہے کہ کسی حتمی فیصلے پر پہنچے یا کوئی ایسی یقینی علامت تلاش کرے جس کے ذریعہ واقعیت کو وہم و جعل (حق کو باطل) سے جدا کر سکے اگرچہ یہ بات مسلم ہے کہ حق ہمیشہ سے درست، سودمند تکیہ گاہ ہوتاہے لیکن یہ اس صورت میں ہے جب اسے باطل کے ساتھ اسے ملا نہ دیا جائے۔
جیسا کہ اسی بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضرت علی ؑ فرماتے ہیں:
فَلَوْ أَنَّ الْبَاطِلَ خَلَصَ مِنْ مِزَاجِ الْحَقِّ لَمْ يَخْفَ عَلَى الْمُرْتَادِينَ وَ لَوْ أَنَّ الْحَقَّ خَلَصَ مِنْ لَبْسِ الْبَاطِلِ انْقَطَعَتْ عَنْهُ أَلْسُنُ الْمُعَانِدِينَ (نہج البلاغہ، خطبہ ۵۰)
«اگر باطل حق سے نہ مل جائے تو حق متلاشیوں کے لئے مخفی نہ رہے اور اگر حق، باطل سے جدا ہوجائے تو برے لوگوں کی زبان اس سے منقطع ہو جائے گی » اسی طرح باطل کے لئے بھی یہ بات مسلم ہے کہ وہ ہمیشہ سے نادرست، بےفائدہ،سرگرداں ہوتا ہےکیونکہ اس کا صرف ایک لبادہ نہیں ہوتا بلکہ اپنی بقاء کے لئے وہ خود کو حق کے سایہ میں چھپاتا ہے جبکہ اندر سے کھوکھلا ہوتا ہے۔

چودہویں صدی کے فلسفی اور مفکر استاد شہید مرتضیٰ مطہری کہ جنہوں نے ۱۳۲۵ ہجری شمسی میں قلم کاری کا کام شروع کیا اور پھر اسے اپنی زندگی کے آخر تک جاری رکھا ان کی کتابیں عام فہم، موضوعات میں تنوع ، وسعت اور معاشرے کی ضرورت کے عین مطابق ہونے کی وجہ سے مختلف زبانوں میں مقبول واقع ہوئی ہیں۔ امام خمینی نے بغیر استثناء شہید کے تمام آثار کو مفید قرار دیا ہے۔ استاد مطہری جنہوں نے اپنی پوری زندگی اسلام کی بقا اور ترویج کے لئے تلاش و کوشش کی، اسلام کی حقیقت کو دنیا کے سامنے آشکار کیا ، دین کی طرف بڑھنے والے تحریفات کا ڈٹ کے مقابلہ کیا اور حق و باطل کی وضاحت کی۔ آپ کے مختلف عناوین پر بہترین کتابیں موجود ہیں ان میں سے ایک کتاب « نبرد حق و باطل» ہے جس میں آپ کائنات میں حق اور باطل کے وجود کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
اس جہاں کے مسائل میں ایک اہم ترین مسئلہ حق اور باطل کا مسئلہ ہے جسے کائنات، معاشرہ اور تاریخ سب میں مورد تحقیق قرار دیا گیا ہے اسی وجہ سے چند بنیادی سوالات حق اور باطل کے حوالے سےہمارے ذہن میں ابھرتے ہیں مثلا آیا کائنات کا نظام حق ہے یا باطل؟ آیا یہ نظام ایسا ہے جس میں ہر چیز اپنے صحیح مقام پر رکھی گئی ہو؟ اس جہاں میں موجود ہر شے بامقصد خلق کئے گئے ہیں یا بے مقصد؟؟؟ ان سوالات کے جوابات کے لئے سب سے پہلے یہ دیکھنا ہوگا کہ دین مبین اسلام کا اس بارے میں کیا نظریہ ہے۔ اسلام، اور خاص طور پر ماہرینِ الہٰیات صراحت کے ساتھ کائنات کی تخلیق کو برحق اور خیر و بھلائی کا باعث سمجھتے ہیں اور اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ نظامِ ہستی میں کوئی کمی یا زیادتی نہیں، کوئی باطل یا نابودی نہیں ہے۔

اسلام کائنات کے وجود کو حق پر مبنی سمجھتا ہے یعنی درحقیقت اس جھان کی اصل حق ہے اگرچہ باطل سے بھی انکار نہیں کیا لیکن اسلام باطل کو اصل نہیں مانتا اسی طرح اسلام انسان کو محض آلہ کار نہیں سمجھتا بلکہ انسان کو خودمختار مانتا ہے اور انسان کی خلقت پاکیزہ فطرت پر ہوتی ہے لیکن انسان کے مختار ہونے کی وجہ سےبعض اوقات وہ اپنی فطری راستے سے ہٹ جاتا ہے اوراپنے احساسات کے غلبہ کی وجہ سے شیطانی راہ پر چل پڑتا ہے۔اسلام کی نگاہ میں حق حقیقی جبکہ باطل غیرحقیقی ہے اور دونوں کے درمیان ہمیشہ سےجنگ اور جدال رہاہے ایسا نہیں کہ باطل ہمیشہ غالب رہا ہو بلکہ جو چیز ہمیشہ سےہے وہ حق ہی ہے اگرچہ بعض اوقات باطل بھی ظاہر ہوتا ہے ۔
اس حوالے سے قرآنی شواہد مندرجہ ذیل ہیں:
۱۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم (فاتحہ، ۱) شروع اللہ کے نام سے جو رحمان اور رحیم ہے
قرآن کی سب سے پہلی آیت اس بات پر گواہ ہے کہ اس کائنات میں رحمانیت اور ررحیمیت کے سوا کوئی اور چیز نہیں۔ شر، نقص، عدم اور باطل اعتباری اور تبعی وجود کی حیثیت رکھتے ہیں کائنات میں حق غالب اور مستحکم ہے اور باطل شکست خوردہ اور فنا ہے۔ کل شى‏ء هالک الا وجهه
۲۔ بَلۡ نَقۡذِفُ بِٱلۡحَقِّ عَلَى ٱلۡبَٰطِلِ فَيَدۡمَغُهُۥ فَإِذَا هُوَ زَاهِقٞۚ وَلَكُمُ ٱلۡوَيۡلُ مِمَّا تَصِفُونَ (انبیاء، ۱۸)
بلکہ ہم حق کو باطل پر پھینک مارتے ہیں پس حق، باطل کا سر توڑ دیتا ہے اور وه اسی وقت نابود ہو جاتا ہے، تم جو باتیں بناتے ہو وه تمہاری لئے باعث خرابی ہیں۔
اللہ تعالیٰ زمین و آسمان کی تخلیق کے بارے فرماتا ہے کہ اس کائنات کے نظام کی بنیاد حق پر ہے نہ کہ باطل پر کیونکہ ہم نے حق کو باطل پر مقدم قرار دیا ہے اور حق کے ہوتے ہوئے باطل کی کوئی گنجائش نہیں ہےممکن ہے کبھی ایسا بھی ہو کہ باطل کو وقتی طور پر ظاہری فتح مل جائے لیکن حق اچانک ظاہر ہو کر باطل کو ختم کر دیتا ہے پھریہ واضح ہو جاتا ہے کہ اول سے حق موجود تھا اور باطل کا وجود فنا ہونے والا ہے۔
۳۔ فَاَمَّا الزَّبَدُ فَیَذۡہَبُ جُفَآءً وَ اَمَّا مَا یَنۡفَعُ النَّاسَ فَیَمۡکُثُ فِی الۡاَرۡضِ کَذٰلِکَ یَضۡرِبُ اللّٰہُ الۡاَمۡثَالَ (رعد، ۱۷)
سو جھاگ تو سوکھ کر زائل ہو جاتا ہے اور پانی جو لوگوں کو فائدہ پہنچاتا ہے وہ زمین میں ٹھہرا رہتا ہے۔ اس طرح اللہ صحیح اور غلط کی مثالیں بیان فرماتا ہے تاکہ تم سمجھو۔
استاد شہید مطہری کہتے ہیں:
اللہ تبارک وتعالیٰ حق و باطل کی مثال بیان کرتا ہے کہ ہر وہ چیز جس میں خیر وبرکت ہے وہ باقی اور شر و بدی فانی ہے اس آیت میں جوتمثیل بیان ہوئی ہے اس سے دو نکات اخذ کئے جا سکتے ہیں:
پہلا نکتہ : حق کااصلی اور باطل کا ظاہری ہونا کیونکہ جو شخص اصلیت کی نوعیت کو نہیں جانتا تو وہ صرف ظاہری چیز کو دیکھتا ہے ۔ یہاں باطل حق پر سوار ہوکر اسے ڈھانپ لیتا ہے یعنی معاشرے کی اکثریت ایسے انسانوں پر مشتمل ہے جن کی نیکی پر ان کی بدی غلبہ کرجاتی ہے درحالیکہ یہ بدی جہالت اور غفلت کی وجہ سے ہےپس انہیں برا اور تخریب کار نہیں کہا جا سکتا کیونکہ ان کی فطرت پاکیزہ اور صالح ہے لیکن اگر معاشرے کی ظاہری شکل کودیکھیں تو ہمیں ظلم، جارحیت، فریب اور ناپاکی نظر آتی ہے۔
دوسرا نکتہ: باطل مفلوج جبکہ حق آزاد ہے۔ جھاگ خود پانی پر نہیں چلتی بلکہ پانی کی قوت اسے حرکت دیتی ہے یعنی برائی اپنے مقاصد کے حصول کے لئے حق کی طاقت کو استعمال کرتا ہے بالکل اس طرح جیسے جھوٹ صداقت کو اپنی تلوار سے مارتا ہے یعنی سچائی کی طاقت کو استعمال کرتا ہے۔
شہید مطہری کی نظر میں قرآنی یہ آیات اور ان میں موجود تمثیلات اس بات کو واضح کرتی ہیں کہ اس کائنات کی اصل حق پر مبنی ہے اور باطل کے غلبہ کی وجہ سے حق چھپ جاتا ہے ، درحقیقت باطل اپنے آپ کو ظاہر کرنے کے لئے حق کا سہارا لیتا ہے۔ پس ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ صحیح معنوں میں حق و باطل کو سمجھیں تاکہ دین میں موجود حقائق و واقعیت اور بطلانیت ووہمیات میں فرق کی شناخت حاصل کرسکیں۔
منابع
۱۔ قرآن کریم
۲۔ نہج البلاغہ
۳۔ شہید مرتضیٰ مطہری، نبرد حق و باطل ، انتشارات صدرا، ۱۳۹۶
۴۔ شہید مرتضیٰ مطہری، سیری در زندگانی استاد مطہری، انتشارات صدرا، ۱۳۸۶

تبصرے
Loading...