شہید مطہری،رہبر انقلاب کی نظر میں

شہید مطہری،رہبر انقلاب کی نظر میں

علی احمد سعیدی

شہید مطہری کی شخصیت،افکار اورخدمات پر مختلف علما ومفکرین نے اظہار خیال کیاہے۔جن میں سے ایک اہم شخصیت خود رہبر انقلاب ہے۔اس تحریر می شہید مطہری کے بارے میں رہبر کے بعض فرامین پیش ہوں گے۔

رہبر معظم انقلاب، شہید مطہری کے بارے میں فرماتے ہیں :

میں مکمل یقین کے ساتھ کہ سکتاہوں کہ انقلاب اسلامی اور نظام اسلامی  کا عمدہ تریں حصہ اس شہید کے  تفکرات سے وابستہ ہے وہ تفکرات،بنیاد اور اساس اسلام ہے۔

 

رہبر انقلاب معتقد ہےکہ: شہید مطہری ان افراد میں سے ایک ہیں۔جس نے  اسلامی فکر کو احیاء کرنے میں زیادہ کردار دااکیا۔اور اس تفکر کوتعارف  کرنےوالے علم برداروں  میں سے ہے۔ شہید مطہری  ایک جامع شخصیت تھی جس کے مختلف پہلوتھے ۔ عالم ہونے کے ناطے ایک عالم مبارز، فقیہ ، فلسفی ، یونیورسٹی  کا استاد، بہترین مولف، خطیب توانا، مصلح اجتماعی ،فکری ،  سیاسی  اور انقلابی لحاظ سے بھی جامع صفات کے حامل تھا۔ اور اسلامی تفکر کو بہترین طریقے سے لوگوں اور نسل جوان کو  زمانے کے  تقاضوں  کے مطابق سمجھانے کی صلاحیت  رکھتے تھے۔

شہیدنے مدارس اور یونیورسٹی کے درمیان جو خلیج تھا اس کو پر کردیا  آپ نے اس نظریہ کہ( سکول اور کالج سے مدرسہ کا کوئی وابستہ نہیں) کو مکمل طور پر رد کیا اور عملی طور پر دونوں کے درمیان رابطہ ایجاد کیا اور نسل جوان کو اس طریقےسے جلب کیا۔ مغرب  نے علما کے بارے میں جو زہر اگلا ہوا تھا کہ یہ لوگ مفت خور ہے کسی چیز کے بارے میں علم نہیں رکھتے ان تمام شبھادت کا ازالہ کیا۔

 

عبادت اور معنویت کے ساتھ اس حد تک محبت تھی ۔اشعار عرفانی اور معنوی دیوان حافظ سے  متاثر ہوئے،اور قرآن کے ساتھ زیادہ مانوس تھے۔ہر رات کو جب تک کچھ مقدار قرآن کی تلاوت نہ کرئے،سوتے نہیں تھے، رات کو اکثر اوقات عبادت کے لئے بیدار رہتےنماز تہجد کو اس حال میں پڑھتے تھے۔ایک رات وہ ہمارے ہاں مہمان ٹھہرے۔ نصف رات کو  بلند بلند گریہ کرنے کی آواز آئی۔ ہمارے بچے خواب سے پیدار ہوئے۔معلوم ہوا کہ شہید مطہری نماز شب میں گریہ کر رہے ہیں۔ امام خمینی کو آپ پر مکمل طور پر اطمنان اور اعتماد تھا چونکہ وہ ملک کےتمام مسائل پر نگاہ رکھتے تھے اور شہید کے برجستہ ترین اوصاف میں سے ایک قاطعیت اور اپنے موقف پر ڈٹے رہناتھا۔

انقلا ب کے اوائل میں جب لیبرلزم عروج پر تھا ان کے مقابلہ میں محکم طریقے سے شہید مطہری اور شہید بہشتی  قائم رہے۔ شہید، امام کے بہترین شاگردوں میں سے تھے۔جس نے امام کو مکمل طور پر پہچانا اور اپ کا ساتھ دیا۔

شھید مطہری گذشتہ زمانے حال اور آئندہ کے لیے ایک بہت بڑا معلم ہے۔ ایک مفکر جو دین کافہم رکھنے والا، بااخلاص اوراب سے محنتی فرد تھے۔ معلم کےتمام معانی خوبصورت ترین شکل میں اس انقلابی شخصیت کے اندر جلوہ گر تھے۔

 

رہبر انقلاب حوزہ علمیہ کے درسی نظام کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

ہمارے عزیز جوان حضرات ،شہید مطہری کے آثار سے آشنا ہوجائیں ،اگر حوزہ علمیہ قم کے دروس کے نصاب بناناچاہے،تو بلاشک ان میں سےنصاب   میں شھید مطہری کی کتابوں کو قرار دیناچاہیے  کہ جس میں ان کو پڑھایا  جائے  ، اس کا خلاصہ لکھیں اور اس سے امتحان لیاجائے۔صرف اس حدتک متوقف نہیں ہونا چاہئے۔ شہید مطہری کے بارے میں اس حدتک گفتگو کرنے کا مقام ہے جتنا لکھیں ، جتنا جمع آوری کریں کم بھی نہیں ہوتا تکرار بھی نہیں ہے اپنے مبنی کو شھید مطہری کے مبنی  پر قرار دے دیں۔ اور اپنے کاموں کی بنیاد اسی پر رکھیں۔

 

شہید مطہری کیوں کامیاب ہوئے اور ان کےآثار علمی اس حد تک کیوں معروف  ہوئے ؟

آپ نے اپنے آپ کو اس حدتک پہنچانے میں کافی زحمت ومحنت  کی، پھر اس علمی ذخیرہ کو خرچ کرنے کےلئےکسی قسم کا دریغ نہیں کیا، کبھی بھی سستی اور کوتاہی نہیں کی، وہ کبھی آرام وسکون سے نہیں بیٹھے ، ہر وقت مطالب کو مرتب کرنے اور منظم کرنےمیں کوشاں رہتے تھے۔اور ہر قسم کے انحرافات سےمقابلہ کیا ۔ شہید مطہری کے اندر سستی نامی کوئی چیز موجود نہیں تھی۔آج ہم اسی شہید کے علمی دسترخوان پر بیٹھے  ہوئے ہیں۔

اس بات میں کسی قسم کا شک وشبہ نہیں ہے ہمارے معاشرہ کی فکری  تربیت اسی شہید کے مرہون منت ہے ۔ چاہے وہ  فلسفی لحاظ سے ہویا اجتماعی دینی  لحاظ سے ہو، سیاسی دینی لحاظ سے ہو ۔ آج ہم شہید مطہری کی طرف محتاج ہیں۔ صرف اسی حد تک محدود نہ رہیں۔

آج جدید شبہات واشکالات بیان ہوتے ہیں۔ کرتے ہیں ان  کے جواب دینے کے لئے آمادہ رہنا چاہئے خصوصا حوزہ علمیہ  کے وظیفہ اس لحاظ سے اور بھی سنگین ہے۔ اگر معارف اسلامی آثار شھید مطہری   کامطالعہ کریں تو اکثر معارف اسلامی  ان پڑھنے والوں کے ذھن میں آجاتاہے، یہ سب چیز سے اہم اور لازم ہے۔

 

مقام معظم رہبری اس بات کی زیادہ تاکید کرتے ہیں :

شہید مطہری  جدید موضوعات کو بیان  کرتے۔اور اس کے اندرجو مطالب و استدلال بیان کرتے وہ بھی جدید تھے۔

شہید مطہری کے  گرانقدر  خدمات میں سے اسلام کا اصل ائیڈیالوجی ہے جو کہ اکثر خطاب میں ملتاہے۔

 

رہبر اسی مطلب کی طر ف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

شہید مطہری نے مارکسیزم کےساتھ مقابلہ کیا اور مغربی تفکرات و لیبرلزم کے ساتھ مقابلہ کرنے  کی خاطر میدان میں حاضر  وارد ہوئے۔۔۔

اس دور میں بھی ہماری جوان نسل شہید کےافکار سےآشنا نہیں۔شہید کے افکار کو پہچاننا وقت کی ضرورت ہے۔

رہبر انقلاب مزید  فرماتے ہیں :

ہم ہمیشہ مطہری کی طرف محتاج ہیں، شہید مطہری کی شخصیت کے بارے میں رک جانادرست نہیں ہے۔ اس کی فکر کے بنیاد، پیشرفت اورجدید افکار کے ذریعے اسلامی معاشرہ کے بنیادی افکار کو زندہ کیا جائے ۔اور ہر زمانے کے لئے مطہری کے مانند افراد کی ضرورت ہے۔

 

شہیدمطہری کے افکار کی خصوصیات

۱۔ فکری وسعت

استاد مطہری ذاتی طور پر فکری طور پر وسیع استعداد کے مالک تھے  جو کہ کامیابی کاسرچشمہ ہے۔وہی قوت استعداد فکری  سبب بنے باقی چیزوں کے لیے ۔

۲۔ فکر اسلامی کااحیاء

شہید کی خصوصیات میں سے ایک اس کی شناخت   کی طرف پلٹتے  ہیں اس نے احساس کیا کہ معاشرہ اسلامی تعلیمات  اور معارف سے فاصلہ لیا ہوا ہے اسلام اور مسلمین کے درمیان ایک گہرا اشگاف تاریخی طور پر  وجود میں آیاہے اوردوسری طرف سے معاشرہ میں مغرب کی ثقافت حاکم ہے۔اسی وجہ سے شہید نے  فکر اسلامی کی طرف توجہ  دی  اور سیکولر نظریہ کے ساتھ مقابلہ کرتے ہوئے اسلامی چہرے  کو پیش کیا۔واقعا شھید مطہری ایک جامع شخصیت تھی۔  اور وہ ایک مفکر  اور  احیائے فکر اسلامی کے  علم برداروں میں سے ایک ہیں۔

۳۔ زمانے کے فکری ضرورتوں کاادراک

شھید مطہری کی ہر وقت کوشش  اسلامی معاشرہ کے بارے میں تھی، وہ ہمیشہ اسلامی معاشرہ  کی ضروریات اور مسائل  کے بارے میں مطالعہ اور فکر کرتے تھے۔ وہ حقیقی  اسلامی معاشرہ کے خد وخال  کی تلاش میں رہتے ۔کہ  اول معاشرہ کے اندر جو فکر ی مشکل ہے ان  کی  جستجو کرتے۔پھر اس  کے راہ حل کے تلاش  کرتے ۔

رہبر معظم انقلاب نے شہید مطہری کی شھادت کے موقع پر فرمایا: مطہری کاکون مخالف ہے؟ اس عظیم شخصیت کا بزرگ ترین پہلو کیا ہے؟ اس شخصیت کاسب سے اہم مہم پہلو  اسلام حقیقی  پر مکمل طور پر چلناہے۔ ہمارے دشمنوں نے ہمارے لئے ثابت کردیا کہ وہ اسلام کے مخالف ہیں ، وہ بھی  اس طرح کے اسلام کے ،نہ کہ اسلام امریکائی۔

 

منابع:

۔ پایگاہ اصلاع رسانی دفتر حفظ ونشر آثار آیت اللہ امام خامنہ ای ، پایگاہ جامع استاد شھید مرتضی مطھری۔

۔: khamenei.ir بہ گزارش مشرق: گفت وشنود غلام علی حداد عادل با حضرت آیت اللہ سید علی خامنہ ای در تاریخ ۱۰ اردیبھشت ۱۳۶۳ش۔

۔ بیانات در دیدار جمعی از کار گران ومعلمان ۱۲ـ۰۲ـ۱۳۸۳۔

۔ بیانات در دیدار جمعی از روحانیوں استان ھمدان ،۱۵۔۰۴۔۱۳۸۳۔

۔ بیانات در دیدار جمعی از روحانیون استان کرمان، ۱۱۔۰۲۔۱۳۸۴۔

۔کد خبر: ۴۰۶۴۳۷۔ تاریخ انتشار:۱۲ اردیبھشت ۱۳۹۴۔خبر گزاری دانشجو۔

تبصرے
Loading...