کسی کی مجبوری کا فائدہ نہیں اٹھاتے

خلاصہ: بہت سے لوگ دوسروں کی مجبوری کا فائدہ اٹھاتے ہیں، جبکہ اسلام میں اسکی سختی سے ممانعت ملتی ہے بلکہ ایسے موقع پر اسکی مدد کرنے کے لئے کی تاکید ملتی ہے۔

کسی کی مجبوری کا فائدہ نہیں اٹھاتے

     شیخ صدوقؒ من لایحضرہ الفقیہ  میں علی بن ابراہیم سے روایت کرتے ہیں کہ ابن ابی عمیر دولتمند شخص تھے اور وہ کپڑے کے تاجر تھے اتفاق سے ان کا کاروبار ختم ہوگیا اورہ وہ کوڑی کوڑی کے محتاج ہوگئے۔ ایک دوکاندار نے ان سے دس ہزار درہم قرض لیا تھا۔
مذکورہ دکاندار کسی وجہ سے اپنے کاروبار کو جاری نہ رکھ سکا اور اسے مجبور ہوکر اپنا مکان فروخت کرنا پڑا، مکان کی قیمت کے طور پر اسے دس ہزار درہم ملے اس نے وہ رقم اٹھائی اور ابن ابی عمیر کے پاس آئے اور کہا: ’’ یہ آپ کی رقم ہے آپ مجھ سے وصول کرلیں۔
اب ابی عمیر نے کہا: میں نے تو سنا ہے کہ آج کل تو گردش ایام کا شکار ہے، یہ مال کسی نے تجھے بطور تحفہ دیا یا میراث میں سے تجھے حصہ ملا ہے؟
اس نے کہا: ’’ یہ رقم نہ تو تحفہ میں ملی ہے اور نہ ہی میراث کی مرہون منت ہے میں چونکہ آپ کا مقروض تھا اور قرضہ ادا کرنے کے لئے میرے پاس سرمایہ موجود نہ تھا اسی لئے میں نے اپنا مکان فروخت کیا ہے تاکہ تمہارا قرض ادا ہوسکے۔‘‘
ابن ابی عمیر نے کہا: ’’ میں نے  ذریح محاربی سے سنا ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام کا فرمان ہے:’’ لَا يُخْرَجُ‏ الرَّجُلُ‏ عَنْ‏ مَسْقَطِ رَأْسِهِ‏ بِالدَّيْن‏‘‘ (من لا یحضرہ الفقیہ، ج۳، ص190)قرض کی وجہ سے کسی کو گھر سے بے دخل نہیں کیا جائے گا۔‘‘
اس وقت اگر چہ مجھے ایک ایک درہم کی شدید ضرورت ہے۔ لیکن میں تم سے ایک درہم بھی اس رقم میں سے نہیں لوں گا۔
منبع و ماخذ:
(من لا يحضره الفقيه، ابن بابويه، محمد بن على‏، دفتر انتشارات اسلامى وابسته به جامعه مدرسين حوزه علميه قم‏، قم، 1413 ق‏، چاپ دوم)

تبصرے
Loading...