وقت کی قیمت سونے چاندی سے زیادہ

خلاصہ: انسان عام طور پر اپنے وقت اور زندگی کی قدر و قیمت کو نہیں سمجھتا، اسی لیے اسے آسانی سے ضائع کرتا رہتا ہے۔

وقت کی قیمت سونے چاندی سے زیادہ

جو چیز انسان کو زیادہ مقدار میں دستیاب ہوجائے انسان اس کی قدر نہیں کرتا، چاہے حقیقت میں زیادہ پائی جاتی ہو یا انسان کی غلط فہمی ہو کہ یہ چیز زیادہ پائی جاتی ہے، کیونکہ جو چیز حقیقت میں کم پائی جاتی ہو اور انسان بھی اسی طرح اسے کم سمجھ رہا ہو، اس کی قدر کرتا ہے، جیسے سونا اور چاندی۔ یہ ایسی چیزیں ہیں جو انسان کو تھوڑی مقدار میں دستیاب ہوتی ہیں، اسی لیے لوگ انہیں بہت قیمتی اور مہنگا جانتے ہوئے پوری توجہ کے ساتھ ان کی خرید و فروخت، ناپ تول اور حفاظت کرتے ہیں۔ لہذا آدمی ان کا معاملہ کرتا ہے تو انتہائی تیزفہمی، باریک بینی اور ان کے مختلف نازک پہلوؤں پر غور کرتا ہے۔ سونے چاندی کے ترازو کی ظرافت اور باریک ترین وزن کا دکھانا، ان کے قیمتی ہونے پر واضح دلیل ہے اور سونے چاندی جیسی چیزوں کے قیمتی ہونے کی وجہ سے ان کے ترازو کے ناپ تول میں اتنی گہری ظرافت کو بھی انسان نے ایجاد کیا ہے، کیونکہ وہ اچھی طرح سے جانتا ہے کہ یہ چیزیں کس قدر قیمتی اور کم ہی دستیاب ہیں۔
اگر سونا چاندی زیادہ مقدار میں ہر آدمی کو دستیاب ہوتا تو پھر ان کی قیمت زیادہ نہ ہوتی۔ یہاں پر ایک غورطلب نکتہ کی طرف توجہ کرنا ضروری ہے کہ انسان بعض قیمتی، عمدہ، نفیس اور کم مقدار میں دستیاب ہونے والی چیزوں کی مقدار کو زیادہ سمجھ کر ان کو اہمیت نہیں دیتا اور ان کی قدردانی نہیں کرتا، جبکہ حقیقت میں وہ چیز زیادہ دستیاب نہیں ہوتی، بلکہ اس کا ترازو سونے چاندی کے ترازو سے زیادہ باریک بیں ہوتا ہے، جیسے انسان کا وقت۔
انسان کی زندگی اور وقت ایسی چیز ہے جس کے بارے میں انسان کو چاہیے کہ اس کے لمحے لمحے کا خیال رکھے اور اسے ضائع نہ ہونے دے۔ رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) نے جناب ابوذر (علیہ الرحمہ) سے ارشاد فرمایا: “یا اَباذَرٍّ، کُنْ عَلَی عُمُرِکَ اَشَحَّ مِنکَ عَلَی دِرْهَمِکَ وَ دِینارِکَ”، “اے اباذر، اپنی عمر پر اپنے درہم و دینار (سونے اور چاندی کے پیسوں) سے زیادہ بخل کرو”۔ [بحارالانوار، ج۷۷، ص۷۸]

* بحار الأنوار، مؤسسة الوفاء، علامہ مجلسی، ج۷۷، ص۷۸۔

تبصرے
Loading...