عمل اور اخلاق

خلاصہ: اگر کوئی شخص شروع میں ایک جھوٹ کہتا ہے تو وہ جھوٹ اس کے دوسرے جھوٹ کے لئے مقدمہ ہوتی ہے اسی طرح یہ جھوٹ اپنی انتھاء پر پہنونچ جاتی ہے اور آخر میں اس شخص کے اندر وہ جھوٹ ایک ملکہ کی صورت اختیار کرلیتی ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ جھوٹ کو ایک بری صفت نہیں سمجھتا۔

عمل اور اخلاق

بسم اللہ الرحمن الرحیم
     انسانی معاشرہ ہمیشہ تعلیم و تربیت اور اخلاق حسنہ سے عروج اور استحکام حاصل کرتا ہے۔ معاشرے کے امن، خوشحالی اور استحکام کا راز عمل اور اخلاق میں پوشیدہ ہے۔ اخلاق حسنہ کی اہمیت کے پیش نظر ہی خداوند متعال  نے رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کو خلق عظیم کے اعلیٰ درجہ پر فائز کیا اور فرمایا: «اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِيْمٍ[سورۂ قلم، آیت:۴] اور آپ بلند ترین اخلاق کے درجہ پر ہیں».
     اپنے نفس کی تربیت کرنے کا ایک بہت مؤثر طریقہ اپنے عمل اور کردار کی طرف متوجہ ہونا ہے اس لئے کہ عمل اور کردار کی تکرار کی وجہ سے انسان کی روح پر اثر ہوتا ہے، اب چاہے وہ عمل اچھا ہو یا برا اگر عمل اچھا ہوگا تا روح اچھائی کی طرف مائل ہوگی اور خدانخواستہ اگر عمل برا ہوگا تو روح برائی کی طرف اپنا جھکاؤ پیدا کرنے لگے گی، اسی لئے روایتوں میں اس بات کا حکم دیا گیا ہے کہ اگر کسی سے کوئی گناہ سرزد ہوگیا ہے تو وہ فورا توبہ کرلے تاکہ اس گناہ کا اثر باقی نہ رہے لیکن اگر کوئی گناہ کے بعد گناہ کرتا چلاجائے تو وہ عمل اسے کے لئے ایک ملکہ بن جائیگا اور اس کے بر عکس اگر کوئی اچھے کام کے بعد اچھا کام کرتا چلا جائیگا تو وہ اچھا عمل اسکے لئے ملکہ بن جائیگا، اسی لئے کہا جاتا ہے  ہر وقت اپنی فکر کو اچھے کاموں کی طرف مرکوز رکھو اور برے  فکروں سے اسے دور رکھوں کیونکہ بری فکر برے کام کا مقدمہ ہوا کرتی ہے۔
     مثال کے طورپر اگر کوئی شخص شروع میں ایک جھوٹ کہتا ہے تو وہ جھوٹ اس کے دوسرے جھوٹ کے لئے مقدمہ ہوتی ہے اسی طرح یہ جھوٹ اپنی انتھاء پر پہنونچ جاتی ہے اور آخر میں اس شخص کے اندر وہ جھوٹ ایک ملکہ کی صورت اختیار کرلیتی ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ جھوٹ کو ایک بری صفت نہیں سمجھتا۔ اسی طرح تمام صفات ہیں چاہے وہ اچھی ہوں یا بری۔
     خداوند متعال اس کے بارے میں قرآن مجید میں اس طرح ارشاد فرمارہا ہے: «وَمَنْ یَّاْتِہٖ مُؤْمِنًا قَدْ عَمِلَ الصّٰلِحٰتِ فَاُولٰٓءِکَ لَھُمُ الدَّرَجٰتُ الْعُلٰی جَنّٰتُ عَدْنٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْھَا وَذٰلِکَ جَزٰٓؤُا مَنْ تَزَکّٰی[سورۂ طہ، آیت:۷۵۔۷۶] اور جو اس کے حضور صاحب ایمان بن کر حاضر ہوگا اور اس نے نیک اعمال کئے ہوں گے اس کے لئے بلند ترین درجات ہیں ہمیشہ رہنے والی جنت جس کے نیچے نہریں جاری ہوں گی اور وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے کہ یہی پاکیزہ کردار لوگوں کی جزا ہے»۔
     انسان کے رفتار اور اس  کے اخلاق میں بہت گھرا رابطہ پایا جاتا ہے جسے علماء نے قرآن کی آیتوں اور معصومین(علیہم السلام) کی حدیثوں کو بیان کیا ہے۔
     خداوند متعال قرآن مجید میں انسان کے عمل اور اس کے اخلاق کے رابطہ کے بارے میں اس طرح فرمارہا ہے: «قُلْ کُلٌّ يَعْمَلُ عَلي شاکِلَتِهِ فَرَبُّکُمْ أَعْلَمُ بِمَنْ هُوَ أَهْدي سَبيلاً[ سورۂ اسراء، آیت:۸۴] آپ کہہ دیجئے کہ ہر ایک اپنے طریقہ پر عمل کرتا ہے تو تمہارا پروردگار بھی خوب جانتا ہے کہ کون سب سے زیادہ سیدھے راستہ پر ہے»
     اور اس کے عمل کا اثر اس کے اخلاق پر کس طرح ہوتا ہے اس کے بارے میں اس طرح فرمارہا ہے: «بل ران علی قلوبهم ما کانوا یکسبون[سورۂ  مطففین، آیت:۱۴] نہیں نہیں بلکہ ان کے دلوں پر ان کے اعمال کا زنگ لگ گیا ہے».
     انسان کے برے اعمال کے وجہ سے دل اپنی اصلی حالت سے نکل جاتا ہے اور حقائق کو سمجھنے سےمحروم ہوجاتاہے اور اس کے بعد وہ اچھائی اور برائی کی تمیز کرنے کے لائق نہیں رہاتا۔
نتیجہ:
     زرارہ نے امام محمد باقر(علیہ السلام) سے ایک روایت کو اس طرح نقل کیا ہے: کوئی بھی بندہ نہیں جس کے دل میں ایک سفید نکتہ موجود نہ ہو، جب وہ کسی گناہ کا مرتکب ہوتا ہے تو وہ نکتہ کا ایک حصہ کالا ہوجاتا ہے اور اگر اس کے بعد وہ توبہ کرلییتا ہے تو نکتہ دوبارہ سفید ہوجاتا ہے لیکن اگر وہ اپنے گناہ کے بعد گناہ کو انجام دیتا ہے تو وہ پورا نکہ کالا ہوجاتاہے جس کے بعد اس کی اصلاح کی کوئی بھی امید باقی نہیں رہتی[۱]۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
[۱]  کافی، محمد ابن یعوقوب کلینی، ج۲،ص ۲۷۳، دارالکتب الاسلامیہ، تھران، ۱۴۱۷ق

kotah_neveshte: 

بسم اللہ الرحمن الرحیم
    انسان کے رفتار اور اس  کے اخلاق میں بہت گھرا رابطہ پایا جاتا ہے جسے علماء نے قرآن کی آیتوں اور معصومین(علیہم السلام) کی حدیثوں کو بیان کیا ہے۔
     خداوند متعال قرآن مجید میں انسان کے عمل اور اس کے اخلاق کے رابطہ کے بارے میں اس طرح فرمارہا ہے: «قُلْ کُلٌّ يَعْمَلُ عَلي شاکِلَتِهِ فَرَبُّکُمْ أَعْلَمُ بِمَنْ هُوَ أَهْدي سَبيلاً[ سورۂ اسراء، آیت:۸۴] آپ کہہ دیجئے کہ ہر ایک اپنے طریقہ پر عمل کرتا ہے تو تمہارا پروردگار بھی خوب جانتا ہے کہ کون سب سے زیادہ سیدھے راستہ پر ہے»
     اور اس کے عمل کا اثر اس کے اخلاق پر کس طرح ہوتا ہے اس کے بارے میں اس طرح فرمارہا ہے: «بل ران علی قلوبهم ما کانوا یکسبون[سورۂ  مطففین، آیت:۱۴] نہیں نہیں بلکہ ان کے دلوں پر ان کے اعمال کا زنگ لگ گیا ہے».
     انسان کے برے اعمال کے وجہ سے دل اپنی اصلی حالت سے نکل جاتا ہے اور حقائق کو سمجھنے سےمحروم ہوجاتاہے اور اس کے بعد وہ اچھائی اور برائی کی تمیز کرنے کے لائق نہیں رہاتا۔

تبصرے
Loading...