دنیاوی زندگی کو کس نظر سے دیکھا جائے؟

خلاصہ: انسان اگر دنیا کو صحیح نظر سے نہ دیکھے اور غلط فہمی کا شکار رہے تو اس کا تلخ نتیجہ اور نقصان انسان کو ہی ہوگا۔

دنیاوی زندگی کو کس نظر سے دیکھا جائے؟

انبیاء (علیہم السلام) ہمیں یہ سمجھانے آئے ہیں کہ ہم اِس دنیا کے لئے پیدا نہیں ہوئے۔ یہاں امتحان کا ایک جلسہ ہے۔ یہ ہماری ۱۰۰ سال کی ساری زندگی امتحان کا ایک جلسہ ہے۔ امتحان کا یہ ایک جلسہ جس پر ۱۰۰ سال وقت لگتا ہے، بے انتہاء آخرت کے سامنے کتنا سا وقت ہے؟
جو طالبعلم مدرسہ کے امتحان میں تین گھنٹے بیٹھتا ہے تاکہ آئندہ تیس سال سے فائدہ حاصل کرسکے، تین گھنٹوں کی تیس سال سے کچھ نسبت ہے، لیکن جب ۱۰۰ سال کو بے انتہاء کے ساتھ موازنہ کیا جائے تو کیا نسبت نکالی جاسکتی ہے؟ آخرت کی زندگی، دنیا کی زندگی سے کتنے گنا زیادہ بنتی ہے؟ایک لاکھ گنا، ایک کروڑ گنا، سو کروڑ گنا؟ حقیقت یہ ہے کہ ان دونوں کی آپس میں کوئی نسبت نہیں ہے، کیونکہ دنیا کی زندگی جتنی بھی ہو اس کی نسبت کو جتنے گنا بھی بڑھا دیا جائے پھر بھی اس کی ریاضی کے حساب سے ابدیت اور ہمیشگی نہیں بنتی۔
لہذا پہلے ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ ہم کیا ہیں، کہاں کے لئے خلق ہوئے ہیں اور ہماری زندگی کتنی ہے۔ ہمیں دنیا میں رہتے ہوئے صرف اپنی ذمہ داری کو ادا کرنے کے بارے میں سوچنا چاہیے کہ کون سے کام کریں جو آخرت میں ہمارے لیے فائدہ مند ہوں، وہ کام کریں جو اللہ اور اس کے اولیاء کو پسند ہوں۔
ہم دنیا میں سکون کے ساتھ رہنے کے لئے خلق نہیں ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں جو نعمتیں دنیا میں دی ہیں اوزار کے طور پر یا اس سفر کے سامان کے طور پر ہیں جو سفر ہمیں کرنا ہے۔ دنیا کی یہ سب نعمتیں اِس لیے ہیں کہ ہماری ۱۰۰ سال کی دنیاوی زندگی فراہم ہوسکے، ورنہ مقصد کچھ اور ہے۔
دنیا کی ساری زندگی اوزار کے طور پر ہے، یہ زندگی ایسی چیز نہیں ہے جسے آدمی مقصد کی نظر سے دیکھے۔ انسان کو چاہیے کہ ساری دنیاوی زندگی کو ابتدا سے انتہاء تک، اوزار کی نظر سے دیکھے، اگر آدمی اس نظر سے دیکھے اور اس کے مطابق عمل کرے تو آدمی کو راستے دکھا دیا جائے گا اور خوش نصیبی تک پہنچ جائے گا: وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِینَ” اور (نیک) انجام تو تقوی والوں کے لئے ہے”۔
لیکن اگر آدمی غلط فہمی کا شکار ہوگیا اور ابتدا سے ہی یہ سمجھ لیا کہ دنیا کی انہی نعمتوں، خوشیوں اور مقام و منصب کے لئے پیدا ہوا ہے تو کسی دن پشیمانی اور ندامت اٹھائے گا۔ اگر دنیا کو اوزار کی نظر سے دیکھا جائے تو آدمی کے پاس حکومت سلیمان (علیہ السلام) بھی ہو تو اس حکومت کی اہمیت ہے، کیونکہ اس کے ذریعے دنیا میں توحید قائم ہوتی ہے۔
* ماخوذ از: بیانات آیت اللہ مصباح یزدی، عوامل ترقی و انحطاط انسان، جلسه چهارم۔

تبصرے
Loading...