خوشامد اور چاپلوسی کی مذمت

خلاصہ: انسان کی عقل، خوشامد اور چاپلوسی کی مذمت کرتی ہے اور خوشامد کرنے والا آدمی اخلاقی اقدار کو پامال کرتا ہے۔

 

اخلاقی اقدار کے معنی و مفہوم سے اگر اپنے مقصد کو پورا کرنے کے لئے غلط فائدہ اٹھایا جائے تو نہ معنی بدلیں گے اور نہ ہی اپنا کام صحیح کام شمار ہوگا، بلکہ اس کے معنی وہی ہیں جو اسلامی تعلیمات میں بیان ہوئے ہیں اور اس شخص کا کام بھی غلط ہے، اگرچہ اس نے اپنی عقل کی مخالفت کرتے ہوئے اپنی نفسانی خواہش کی فرمانبرداری کرکے اپنے آپ کو مغالطہ میں ڈالنے کی کوشش کی ہے۔

مثلاً احادیث میں خوش مزاجی اور اچھے سلوک کے بارے میں تاکید ہوئی ہے، اچھے اخلاق کے دنیا اور آخرت میں حاصل ہونے والے فائدے بیان ہوئے ہیں اور خوش مزاجی کے معنی اور مصادیق ذکر کیے گئے ہیں۔

آدمی کی توجہ رہنی چاہیے کہ خوش مزاجی کے بجائے خوشامد اور چاپلوسی نہ کرے۔ یعنی درحقیقت وہ ایک اچھے معنی و مفہوم کے بہانے سے غلط فائدہ اٹھا رہا ہے۔ خوش مزاجی، اچھا سلوک اور انکساری کرنی چاہیے، لیکن اس مقصد سے کہ سامنے والے آدمی کی خوشامد کی جائے اور اپنا مفاد حاصل کرنے کے لئے اس کی چاپلوسی اور تعریف کی جائے یہ بری صفت اور لائق مذمت کام ہے۔ حضرت امیرالمومنین علی (علیہ السلام) فرماتے ہیں: إيّاكَ و المَلَقَ؛ فإنّ المَلَقَ لَيس من خَلائقِ الإيمانِ، “چاپلوسی سے پرہیز کرو، کیونکہ چاپلوسی ایمان کی خصلتوں میں سے نہیں ہے”۔ [غررالحکم، ص۱۷۰، ح۶۶]

ہوسکتا ہے کہ دیکھنے والوں کو بعض کام بظاہر اخلاقی اقدار محسوس ہوں، لیکن کیونکہ عمل کرنے والے شخص کی نیت اور مقصد میں فرق ہے تو اس کا وہ کام اخلاقی اقدار میں سے شمار نہیں ہوگا، بلکہ اس میں بری صفات پائی جاتی ہیں جیسے لالچ، طمع، حرص، چاپلوسی اور خوشامدگوئی، وہ ان جیسی بری صفات کی بنیاد پر ظاہری طور پر اپنے سامنے والے آدمی سے خوش مزاجی اور خاکساری کے ساتھ برتاؤ کررہا ہے۔

اس کی نشانی یہ ہے کہ وہ اس آدمی کے علاوہ دوسرے لوگوں کے ساتھ خوش مزاجی کے ساتھ سلوک نہیں کرتا اور ان کے سامنے انکساری اختیار نہیں کرتا، کیونکہ وہ صرف اس آدمی سے بظاہر اچھا سلوک کرتا ہے جس سے اس کا اپنا مفاد اور مطلب ہو، مثلاً  پیسے، مال اور مقام کی لالچ ہو، ، لیکن جس سے اسے کوئی فائدہ مطلوب نہ ہو تو وہاں نہ انکساری کرتا ہے اور نہ اخلاقی اقدار کا خیال رکھتا ہے، بلکہ وہاں پر وہ بدسلوک اور بدمزاج بن جاتا ہے۔

 

غررالحکم و دررالکلم، آمدی، ص۱۷۰، ح۶۶۔

تبصرے
Loading...