جنگ جمل میں حضرت علی (علیہ السلام) کی دشمن کو نصیحتیں

خلاصہ: حضرت امیرالمومنین علیہ السلام نے جنگ جمل سے پہلے کئی افراد کو نصیحت کی جیسے کلیب جرمی، طلحہ، زبیر اور جناب عائشہ، بعض نے نصیحت کا اثر لیا اور بعض نے اثر نہ لیا، اس مضمون میں ان نصیحتوں میں سے بعض کو بیان کیا جارہا ہے

جنگ جمل میں حضرت علی (علیہ السلام) کی دشمن کو نصیحتیں

بسم اللہ الرحمن الرحیم

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد لوگوں کی ہدایت کرنے کا عہدہ اور منصب کیونکہ حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) کے ذمہ تھا تو آپ (علیہ السلام) کو جب بھی موقع ملا، آپ (علیہ السلام) نے لوگوں کی ہدایت کے لئے مکمل طور پر کوشش کی۔ مختلف جنگوں کے بارے میں منقول ہے کہ حضرت علی (علیہ السلام) دشمن سے جنگ کرنے سے پہلے، اسے نصیحت کرتے اور حق کے راستے پر آجانے کی ہدایت کیا کرتے تھے۔ ان جنگوں میں سے ایک جنگ، جنگ جمل ہے۔ اس جنگ کےسلسلہ میں آپ (علیہ السلام) کی چند نصیحتوں کو ہم یہاں پر نقل کرتے ہیں۔
کلیب جرمی: جب امیرالموٴمنین(ع)بصرہ کے قریب پہنچے تو وہاں کی ایک جماعت نے ایک شخص کو اس مقصد سے آپ کی خدمت میں بھیجا کہ وہ ان کے لیے اہل جمل کے متعلق حضرت کے موقف کو دریافت کرے تاکہ ان کے دلوں سے شکوک مٹ جائیں، چنانچہ حضرت نے اس کے سامنے جمل والوں کے ساتھ اپنے رویہ کی وضاحت فرمائی جس سے اسے معلوم ہو گیا کہ حضرت حق پر ہیں تو آپ نے اس سے فرمایا کہ (جب حق تم پر واضح ہو گیا ہے تو اب) بیعت کرو۔ اس نے کہا کہ میں ایک قوم کا قاصد ہوں اور جب تک ان کے پاس پلٹ کر نہ جاؤں کوئی نیا قدم نہیں اٹھا سکتا تو حضرت نے فرمایا کہ (دیکھو) اگر وہی لوگ جو تمہارے پیچھے ہیں اس مقصد سے تمہیں کہیں پیشرو بنا کر بھیجیں کہ تم ان کے لیے ایسی جگہ تلاش کرو، جہاں بارش ہوئی ہو اور تم (تلاش کے بعد) ان کے پاس پلٹ کر جاؤ، اور انہیں خبر دو کہ سبزہ بھی ہے اور پانی بھی ہے اور وہ تمہاری مخالفت کرتے ہوئے خشک اور ویران جگہ کا رخ کریں تو تم اس موقعہ پر کیا کرو گے۔ اس نے کہا کہ میں ان کا ساتھ چھوڑ دوں گا اور ان کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ہریالی اور پانی کی طرف چل دُوں گا، تو حضرت نے فرمایا کہ (جب ایسا ہی کرنا ہے) تو پھر (بیعت کے لیے ہاتھ بڑھاؤ۔ وہ شخص کہتا ہے کہ خدا کی قسم حجت کے قائم ہوجانے کے بعد میرے بس میں نہ تھا کہ میں بیعت سے انکار کر دیتا۔ چنانچہ میں نے بیعت کر لی۔ (یہ شخص کلیب جرمی کے نام سے موسوم ہے)۔[1]
زبیر کو نصیحت: جب جنگ ِ جمل شروع ہونے سے پہلے حضرت نے ابن عباس کو زبیر کے پاس اس مقصد سے بھیجا کہ وہ اسے اطاعت کی طرف پلٹائے، تو اس موقعہ پر اس سے فرمایا: ” اس سے یہ کہنا کہ تمہارے ماموں زاد بھائی نے کہا ہے کہ تم حجاز میں تو مجھ سے جان پہنچان رکھتے تھے اور یہاں عراق میں آکر بالکل اجنبی بن گئے۔ آخر اس تبدیلی کا کیا سبب ہے”۔[2]
حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) بصرہ میں پہنچتے ہوئے، عہد شکن لوگوں کو نصیحت فرمائی تاکہ جنگ کے واقع ہونے کی روک تھام کرلیں، لیکن نصیحت کا ان پر کوئی اثر نہ ہوا اور انہوں نے آپ (علیہ السلام) کے ایک صحابی کو شہید کرنے سے جنگ شروع کردی۔ البتہ زبیر، جنگ کے آغاز سے پہلے، حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جس حدیث کی اسے یاددہانی کی، کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک دن زبیر سے فرمایا تھا: تم علی سے جنگ کے لئے کھڑے ہوجاؤگے، وہ لشکر سے کنارہ کشی اختیار کرگیا اور اسے بصرہ سے باہر عمرو ابن جرموز نے قتل کردیا۔[3]
حارث ابن حوط: اس شخص نے حضرت علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) سے کہا: “کیا آپ سمجھتے ہیں کہ طلحہ، زبیر اور عائشہ باطل پر ہیں؟” حضرت (علیہ السلام) نے فرمایا: اعرف الحق تعرف اهله، و اعرف الباطل تعرف اهله[4]، “حق کو پہنچان لو تو حق والوں کو پہنچان لوگے اور باطل کو پہچان لو تو باطل والوں کو بھی پہچان لوگے”۔
صعصعۃ ابن صوحان اور ابن عباس کو نصیحت کرنے کے لئے بھیجا: امام (علیہ السلام) نے صعصعۃ ابن صوحان کو خط دے کر بصرہ بھیجا، انہوں نے طلحہ اور زبیر سے بات چیت کی، جب عائشہ سے بات کی تو محسوس کیا کہ وہ ان دو افراد سے زیادہ جنگ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے، لہذا صعصعۃ واپس پلٹ آئے۔ پھر آپ (علیہ السلام) نے عبداللہ ابن عباس کو بصرہ بھیجا۔ انہوں نے طلحہ سے کہا: کیا تم نے بیعت نہیں کی تھی؟ طلحہ نے کہا: تلوار میرے سر پر تھی۔ ابن عباس نے کہا: میں خود دیکھ رہا تھا کہ تم نے اختیار سے بیعت کی۔ طلحہ نے عثمان کے خون کی بات کی۔ ابن عباس نے کہا: کیا ایسا نہیں تھا کہ عثمان دس دن اپنے گھر کے کنویں سے پانی پیتا رہا اور تم نے اسے میٹھا پانی نہ پینے دیا، تب علی (علیہ السلام) تمہارے پاس آئے اور تم سے فرمایا کہ اسے پانی پینے دو۔ اس کے بعد ابن عباس نے عائشہ سے بات کی۔ عائشہ کو اپنی فتح کا اتنا اطمینان تھا کہ اس نے کسی بات پر نرمی نہ دکھائی۔ ابن عباس نے مضبوط دلیلوں سے کوشش کی کہ ان کو اس خطرہ سے بچائیں جس سے ان کا سامنا ہونے والا ہے، لیکن اس نے نہ مانا۔[5]
عائشہ کو خط: “وأنت يا عائشة فإنّك خرجت من بيتك عاصية للّه ولرسوله تطلبين أمراً كان عنك موضوعا، ثم تزعمين انك تريدين‏الاصلاح بين المسلمين، فخبريني ما للنساء وقود الجيوش والبروز للرجال، والوقوع بين اهل القبلة وسفك‏الدماء المحرمة؟ ثم انك طلبت على زعمك دم عثمان، وما انت وذاك؟ عثمان رجل من بني امية وانت من تيم،ثم بالامس تقولين في ملا من اصحاب رسول اللّه (ص): اقتلوا نعثلا قتله اللّه فقد كفر، ثم تطلبين اليوم‏بدمه؟ فاتقي اللّه وارجعي الى بيتك، واسبلي عليك سترك، والسلام[6] ، “حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) نے عائشہ کو خط تحریر فرمایا: “اور تم اے عائشہ، بیشک تم اپنے گھر سے اس حال میں نکل پڑی کہ اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی۔ تم ایسے کام (عثمان کے خون) کی خواہاں ہو جو تمہاری ذمہ داری نہیں ہے، پھر تو سمجھتی ہے کہ تو مسلمانوں کے درمیان اصلاح کرنا چاہتی ہے، مجھے بتاو کہ عورتوں کا فوجوں کی سربراہی اور مردوں کے سامنے خودنمائی اور اہل قبلہ کے درمیان واقع ہونے اور محترم خونوں کو بہانے سے کیا تعلق؟ پھر تم اپنے گمان کے مطابق عثمان کی خونخواہی کرتی ہو، تمہارا عثمان کے خون سے کیا تعلق؟ عثمان بنی امیہ کا ایک مرد اور تم تیم سے ہو۔ کل تک تم رسول اللہ (ص) کے بڑے اصحاب میں کہتی تھی: نعثل کو قتل کرو، اللہ اسے قتل کرے، بیشک وہ کافر ہے، پھر آج تو اس کا خون طلب کررہی ہے؟ اللہ سے ڈرو اور اپنے گھر پلٹ جاو اور پردہ اپنے اوپر لٹکا دو، والسلام”۔
نتیجہ: حضرت امیرالمومنین علی (علیہ السلام ) نے جیسے جنگ خندق میں عمرو ابن عبدود کو نصیحت کی اور اس کو تین تجویزیں دیں، مگر اس نے بہتر راستہ کو چھوڑ کر اپنے باطل خیال کی بنیاد پر اپنی ہلاکت کا راستہ اختیار کرلیا، حضرت نے اپنے اسی طریقہ کے مطابق جنگ جمل کے سلسلہ میں بھی مختلف افراد کو نصیحت کی مگر بعض نصیحت سے متاثر ہوگئے اور بعض نے مخالفت کی تو انہوں نے امام وقت کی نصیحت قبول نہ کرنے کا نتیجہ پا لیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] نہج البلاغہ، خطبہ 168، ترجمہ علامہ مفتی جعفر حسین (اعلی اللہ مقامہ)۔
[2]  نہج البلاغہ، خطبہ 31، ترجمہ علامہ مفتی جعفر حسین (اعلی اللہ مقامہ)۔
[3]  طبری، ج 4، ص 511؛ شهیدی، علی از زبان علی، ص 104۔
[4] الجمل، ص 330۔
[5] اخبار الطوال، ص 147۔
[6] تذكرة الخواص، سبط بن الجوزي الحنفي، ص‏69،

تبصرے
Loading...