بیماری کے دوران صحت کی تمنا سے درس لینا

خلاصہ: جب انسان مریض ہوجاتا ہے تو اسے صحت مندی پر حسرت ہوتی ہے، اگر انسان گہری نظر سے سوچے تو بیماری کے دوران، دل کی بیماری سے شفایاب ہوسکتا ہے۔

بیماری کے دوران صحت کی تمنا سے درس لینا

انسان اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی اس قدر لاپرواہی کرتا ہے کہ جب وہ ہر لحاظ سے صحیح و سلامت ہو تو اللہ کی نعمتوں کے بارے میں غور اور توجہ نہیں کرتا، لیکن جونہی کوئی نعمت چھِن جاتی ہے یا چھِن جانے کا اسے خدشہ ہوتا ہے تو اس نعمت کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے اور اس کی کمی اور چھن جانے کی سوچ میں ڈوب جاتا ہے کہ کاش یہ نعمت مجھ سے نہ چھن جاتی اور ابھی میرے پاس ہوتی تو کتنی خوشی کی بات تھی۔ مثلاً آدمی کو بخار ہوجاتا ہے اور کچھ دن بیماری میں مبتلا رہتا ہے، ایک عضو کی بیماری کی وجہ سے کئی دیگر اعضا بھی معطل ہوجاتے ہیں، ایسے موقع پر آدمی صحت کی آرزو کرتا ہے اور صحت مندی کے زمانے پر حسرت کھاتا ہے۔
اس آرزو اور حسرت کو تجزیہ کرتے ہیں:
۱۔ جب آدمی تندرست ہے تو کیا جسم اور روح کی مختلف صحتوں کے بارے میں غور کرتا ہے؟
۲۔ کیا اس صحت مندی کے دوران مختلف نعمتوں کے بارے میں سوچ کر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہے؟
۳۔ کیا صحت مندی کے دوران مختلف نعمتوں کے بارے میں الگ الگ غور کرتا ہے کہ میرے یہ دونوں ہاتھ، دونوں آنکھیں، دونوں کان، زبان، دماغ اور باقی جسم کے اعضا صحیح و سلامت ہیں؟
۴۔ کیا بیماری کے دوران آدمی صرف یہی چاہتا ہے کہ صحت یابی کے بارے میں سوچتا ہے یا اس بیماری سے معنوی درس بھی لیتا ہے؟
۵۔ کیا یہ بھی سوچتا ہے کہ تکلیف سے زیادہ اہم مسئلہ یہ ہے کہ جب صحت یاب ہوجائے گا تو اس صحت کو اللہ کے حکم کو بجالانے میں استعمال کرے گا؟
۶۔ کیا بیماری کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہورہا ہے یا صرف بیماری کی تکلیف اور درد کے بارے میں سوچتا رہے؟
۷۔ کیا بیماری کے دوران اس کا ارادہ یہ ہے کہ جب صحت یاب ہوگیا تو اللہ تعالیٰ کی خاطر نیکیاں زیادہ کرے گا اور گناہوں کو چھوڑ دے گا؟
۸۔ کیا صرف ڈاکٹر کے نسخہ کو شفا کا باعث سمجھتا ہے یا اللہ تعالیٰ کے “ھوالشافی” ہونے کا معتقد ہے؟

تبصرے
Loading...