اپنے اختیار سے اپنے جسم پر قابو پانے کی قوت

خلاصہ: اختیار ایسی قوت ہے جس سے انسان اپنے جسم کے اعضا پر قابو پا کر گناہ اور غلط کاموں سے اپنے آپ کو روک سکتا ہے اور اسی اختیار کے ذریعے اللہ کی فرمانبرداری کرتا ہوا، اللہ کا نیک بندہ بن سکتا ہے۔

اپنے اختیار سے اپنے جسم پر قابو پانے کی قوت

     انسان کے جسم کے بیرونی اعضا کا استعمال انسان کے اختیار میں ہے۔ اگر انسان چاہے تو اللہ  تعالیٰ کے حکم کے مطابق عمل کرتا ہوا فرمانبردار بندہ بن سکتا ہے اور اگر ان اعضا کو اللہ تعالیٰ کے احکام کے مطابق استعمال نہ کرے تو نافرمان اور گنہگار قرار پائے گا۔ انسان کو جو اختیار کی قوت دی گئی ہے، اس قوت کے ذریعے انسان اپنے اعضا پر قابو پاسکتا ہے۔بق استعمال نہ کرے تو اللہ کا اعضا کو اللہ کی نافرمانی ہ درمیان رعی حکم پر عمل کرسکتا ہے۔یہتیءگیرگت
     اگر کوئی اسے گالی گلوچ دے رہا ہے تو اسے زبان کو اپنے قابو میں رکھنے اور نرم زبان استعمال کرنے پر اختیار ہے۔
     اگر حرام آواز اس کے کان پر پڑتی ہے تو اس آواز کے نہ سننے کو وہ اختیار کرسکتا ہے۔
     اگر نامحرم سے سامنا ہوجائے تو نظروں کو جھکانے کا اس کے پاس اختیار ہے۔
     قرآن کریم سورہ نور کی آیت ۳۰ میں مومن مردوں اور آیت ۳۱ میں مومن عورتوں کو نگاہیں نیچی رکھنے کا حکم دے رہا ہے: «قُل لِّلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ[سورۂ نور، آیت:۳۰]اے رسول(ص)) آپ مؤمن مردوں سے کہہ دیجئے! کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں»۔
“وَقُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ[سورۂ نور، آیت:۳۱]اور (اے رسول(ص)) آپ مؤمن عورتوں سے کہہ دیجئے! کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں»۔
     ایسا نہیں ہے کہ انسان جس راستے کو پسند کرے اس کے مطابق عمل کرے، بلکہ اسے یہ دیکھنا چاہیے کہ جس ذات نے جسم کے یہ اعضا اور اختیار کی یہ قوت اسے عطا فرمائی ہے اس نے ہر مسئلہ میں کیا حکم دیا ہے، اسی حکم کے مطابق عمل کرے۔

*ترجمہ آیات از: مولانا محمد حسین نجفی صاحب.
 

تبصرے
Loading...