استاد اور معلم کا مرتبہ

اسلام نے معلم کو  معنوی باپ کے طور پر پہچنوایا ہے اور کہتا ہے« أبٌ عَلَّمَكَ »(1)یعنی  وہ شخص جو تمہیں علم سیکھائے وہ تمہارے  باپ کے مانند ہے۔لہذا  ماں باپ کے ساتھ جن آداب کی رعایت کرنا ضروری ہے ، معلم اور استاد کے ساتھ بھی اسی طرح پیش آنا چاہئے۔ عنوان معلم اس قدر اہمیت کا حامل ہے  کہ  ہمارے  اسلامی دستاویز میں اس کی قدردانی ہوئی ہے، یہاں تک کہ خداوند حکیم نے خود کو معلم قرار دیا اور فرمایا: « وَعَلَّمَ آدَمَ الأَسْمَاء کُلَّهَا» ’’ آدم کو تمام اسما, کا علم دیا‘‘(2) یا پھر دوسرے مقام پر نزول وحی کی ابتدا میں خدا نے فرمایا:’’ اس خدا کا نام لے کر پڑھو جس نے پیدا کیا ہے ، اس نے انسان کو جمے ہوئے خون سے پیدا کیا ہے ،پڑھو اور تمہارا پروردگار بڑا کریم ہے،جس نے قلم کے ذریعے تعلیم دی ہے ، اور انسان کو وہ سب کچھ بتادیا ہے جو اسے نہیں معلوم تھا‘‘(3)۔
ان آیات میں خداوند عالم نے خود کو معلم کہا ہے اور قابل غور بات یہ ہے کہ  خدا  نے عالم مخلوقات میں  پیچیدہ ترین اور شاہکار مخلوق یعنی انسان کی خلقت کے بعداس کو قلم کے ذریعہ سے تعلیم دیا یعنی خلقت انسان کے بعد  اپنے معلم ہونے کا اعلان کیا، اس سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ یہ کتنا  اہم اور باعظمت مقام ہے جس کو خدا وند عالم نے انسانوں  کی خلقت کے مراحل کے بعد فورا ذکر کیا اور  اس بات سے  تعلیم کی بھی اہمیت کا بھر پور اندازہ ہوتا ہے۔
اس بارے میں امام خمینی ؒ نے فرمایا ہے:’’ معلم اول(پہلا معلم) خدائے متعال ہے کہ کو لوگوں کو ظلمت سے نکال کر  نور کی جانب لے جاتا ہے،  اور انبیا و آیتوں کے ذریعے  لوگوں کو نورانیت، کمال، محبت اور ان بلند مقامات تک پہونچنے  کی  دعوت دیتا ہے جو انسانوں کے لئے ہے۔(4)

معلم کا مقام اور مرتبہ اس قدر بلند ہے کہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) نے ایک مقام پر  امیر المومنین علی علیہ السلام  کو مخاطب کر کے فرمایا ’’فو اللَّه لان يهدى اللَّه بك رجلا واحدا خير لك من ان يكون لك حمر النعم ‘‘(5) ’’خدا کی قسم اگر آپ کے ذریعہ ایک بھی آدمی ھدایت پاجائے توآپ کے لئے یہ بہتر ہے  اس سے کہ آپ کے پاس سرخ بالوں والے اونٹوں کا گلہ ہو‘‘۔(5)

ان باتوں سے مختصر طور پر استاد اور معلم کے مرتبے کا اندازہ ہو جاتا ہے لیکن اس مقام پر اس نکتے کی طرف توجہ دینا ضروری ہے کہ  معلم کے شرف اور مرتبے میں  اس وقت چار چاند لگ جائیگا جب وہ شان خداوند متعال اور انبیاء کو اپنے اندر ظاہر کرسکے یعنی انسانوں کا رابطہ  اس کی خلقت کے مقصد سے ایجاد کر سکے اور اسے خدا کا مطیع اور عبادت گزار بنا سکے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1۔ رسول الله صلّی الله علیه و آله و سلّم: “الآباءُ ثَلاثَةٌ: أبٌ وَلَّدَكَ، و أبٌ زَوَّجَكَ، و أبٌ عَلَّمَكَ” تحریر المواعظ العددیّه ص247.‏
2۔ سورہ بقره/31۔
3۔ سورہ علق آیات ۱۔۵۔
http://khschool.ir/Articles/ViewArticle.asp?ID=81567
5۔ ترجمہ مجمع البيان في تفسير القرآن، ج‏23، ص: 149 

تبصرے
Loading...