کیا عائشہ نے امام حسن مجتبی (ع) کے جنازے کو رسول خدا (ص) گھر میں دفن ہونے سے روکا اور منع کیا تھا ؟

 

سوال:

جواب:

کتب شیعہ اور اہل سنت میں بہت سی روایات موجود ہیں کہ جو ثابت کرتی ہیں کہ عائشہ نے امام حسن (ع) کے جنازے کو رسول خدا (ص) کے پہلو میں دفن ہونے سے منع کیا تھا اور اجازت نہیں دی تھی کہ وہ امام اپنے نانا کے ساتھ دفن ہو سکیں۔

شیعہ کتب میں اس بارے میں بہت سی روایات موجود ہیں لیکن کتاب اصول کافی سے صرف ایک روایت کو ذکر کرنے پر اکتفاء کیا جاتا ہے:

وَبِهَذَا الْإِسْنَادِ عَنْ سَهْلٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سُلَيْمَانَ عَنْ هَارُونَ بْنِ الْجَهْمِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا جَعْفَرٍ عليه السلام يَقُولُ لَمَّا احْتُضِرَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ عليهما السلام قَالَ لِلْحُسَيْنِ يَا أَخِي إِنِّي أُوصِيكَ بِوَصِيَّةٍ فَاحْفَظْهَا فَإِذَا أَنَا مِتُّ فَهَيِّئْنِي ثُمَّ وَجِّهْنِي إِلَي رَسُولِ اللَّهِ صلي الله عليه وآله لِأُحْدِثَ بِهِ عَهْداً ثُمَّ اصْرِفْنِي إِلَي أُمِّي فَاطِمَةَ عليها السلام ثُمَّ رُدَّنِي فَادْفِنِّي بِالْبَقِيعِ وَاعْلَمْ أَنَّهُ سَيُصِيبُنِي مِنَ الْحُمَيْرَاءِ مَا يَعْلَمُ النَّاسُ مِنْ صَنِيعِهَا وَعَدَاوَتِهَا لِلَّهِ وَلِرَسُولِهِ صلي الله عليه وآله وَعَدَاوَتِهَا لَنَا أَهْلَ الْبَيْتِ.

فَلَمَّا قُبِضَ الْحَسَنُ عليه السلام وَوُضِعَ عَلَي سَرِيرِهِ فَانْطَلَقُوا بِهِ إِلَي مُصَلَّي رَسُولِ اللَّهِ صلي الله عليه وآله الَّذِي كَانَ يُصَلِّي فِيهِ عَلَي الْجَنَائِزِ فَصَلَّي عَلَي الْحَسَنِ عليه السلام فَلَمَّا أَنْ صَلَّي عَلَيْهِ حُمِلَ فَأُدْخِلَ الْمَسْجِدَ.

فَلَمَّا أُوقِفَ عَلَي قَبْرِ رَسُولِ اللَّهِ صلي الله عليه وآله بَلَغَ عَائِشَةَ الْخَبَرُ وَقِيلَ لَهَا إِنَّهُمْ قَدْ أَقْبَلُوا بِالْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ لِيُدْفَنَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ فَخَرَجَتْ مُبَادِرَةً عَلَي بَغْلٍ بِسَرْجٍ فَكَانَتْ أَوَّلَ امْرَأَةٍ رَكِبَتْ فِي الْإِسْلَامِ سَرْجاً فَوَقَفَتْ وَقَالَتْ نَحُّوا ابْنَكُمْ عَنْ بَيْتِي فَإِنَّهُ لَا يُدْفَنُ فِيهِ شَيْ ءٌ وَلَا يُهْتَكُ عَلَي رَسُولِ اللَّهِ حِجَابُهُ.

فَقَالَ لَهَا الْحُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ صَلَوَاتُ اللَّهِ عَلَيْهِمَا قَدِيماً هَتَكْتِ أَنْتِ وَأَبُوكِ حِجَابَ رَسُولِ اللَّهِ وَأَدْخَلْتِ بَيْتَهُ مَنْ لَا يُحِبُّ رَسُولُ اللَّهِ قُرْبَهُ وَإِنَّ اللَّهَ سَائِلُكِ عَنْ ذَلِكِ يَا عَائِشَةُ إِنَّ أَخِي أَمَرَنِي أَنْ أُقَرِّبَهُ مِنْ أَبِيهِ رَسُولِ اللَّهِ صلي الله عليه وآله لِيُحْدِثَ بِهِ عَهْداً وَاعْلَمِي أَنَّ أَخِي أَعْلَمُ النَّاسِ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَأَعْلَمُ بِتَأْوِيلِ كِتَابِهِ مِنْ أَنْ يَهْتِكَ عَلَي رَسُولِ اللَّهِ سِتْرَهُ لِأَنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَي يَقُولُ: «يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَدْخُلُوا بُيُوتَ النَّبِيِّ إِلَّا أَنْ يُؤْذَنَ لَكُمْ» وَقَدْ أَدْخَلْتِ أَنْتِ بَيْتَ رَسُولِ اللَّهِ صلي الله عليه وآله الرِّجَالَ بِغَيْرِ إِذْنِهِ وَقَدْ قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ «يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَرْفَعُوا أَصْواتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ» وَلَعَمْرِي لَقَدْ ضَرَبْتِ أَنْتِ لِأَبِيكِ وَفَارُوقِهِ عِنْدَ أُذُنِ رَسُولِ اللَّهِ صلي الله عليه وآله الْمَعَاوِلَ وَقَالَ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ «إِنَّ الَّذِينَ يَغُضُّونَ أَصْواتَهُمْ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ أُولئِكَ الَّذِينَ امْتَحَنَ اللَّهُ قُلُوبَهُمْ لِلتَّقْوي» وَلَعَمْرِي لَقَدْ أَدْخَلَ أَبُوكِ وَفَارُوقُهُ عَلَي رَسُولِ اللَّهِ صلي الله عليه وآله بِقُرْبِهِمَا مِنْهُ الْأَذَي وَمَا رَعَيَا مِنْ حَقِّهِ مَا أَمَرَهُمَا اللَّهُ بِهِ عَلَي لِسَانِ رَسُولِ اللَّهِ صلي الله عليه وآله إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَمْوَاتاً مَا حَرَّمَ مِنْهُمْ أَحْيَاءً وَتَاللَّهِ يَا عَائِشَةُ لَوْ كَانَ هَذَا الَّذِي كَرِهْتِيهِ مِنْ دَفْنِ الْحَسَنِ عِنْدَ أَبِيهِ رَسُولِ اللَّهِ صلي الله عليه وآله جَائِزاً فِيمَا بَيْنَنَا وَبَيْنَ اللَّهِ لَعَلِمْتِ أَنَّهُ سَيُدْفَنُ وَإِنْ رَغِمَ مَعْطِسُكِ.

قَالَ ثُمَّ تَكَلَّمَ مُحَمَّدُ بْنُ الْحَنَفِيَّةِ وَقَالَ يَا عَائِشَةُ يَوْماً عَلَي بَغْلٍ وَيَوْماً عَلَي جَمَلٍ فَمَا تَمْلِكِينَ نَفْسَكِ وَلَا تَمْلِكِينَ الْأَرْضَ عَدَاوَةً لِبَنِي هَاشِمٍ.

قَالَ فَأَقْبَلَتْ عَلَيْهِ فَقَالَتْ يَا ابْنَ الْحَنَفِيَّةِ هَؤُلَاءِ الْفَوَاطِمُ يَتَكَلَّمُونَ فَمَا كَلَامُكَ؟

فَقَالَ لَهَا الْحُسَيْنُ عليه السلام وَأَنَّي تُبْعِدِينَ مُحَمَّداً مِنَ الْفَوَاطِمِ فَوَ اللَّهِ لَقَدْ وَلَدَتْهُ ثَلَاثُ فَوَاطِمَ ؛ فَاطِمَةُ بِنْتُ عِمْرَانَ بْنِ عَائِذِ بْنِ عَمْرِو بْنِ مَخْزُومٍ وَفَاطِمَةُ بِنْتُ أَسَدِ بْنِ هَاشِمٍ وَفَاطِمَةُ بِنْتُ زَائِدَةَ بْنِ الْأَصَمِّ ابْنِ رَوَاحَةَ بْنِ حُجْرِ بْنِ عَبْدِ مَعِيصِ بْنِ عَامِرٍ قَالَ فَقَالَتْ عَائِشَةُ لِلْحُسَيْنِ عليه السلام نَحُّوا ابْنَكُمْ وَاذْهَبُوا بِهِ فَإِنَّكُمْ قَوْمٌ خَصِمُونَ قَالَ فَمَضَي الْحُسَيْنُ عليه السلام إِلَي قَبْرِ أُمِّهِ ثُمَّ أَخْرَجَهُ فَدَفَنَهُ بِالْبَقِيع .

محمد ابن مسلم کہتا ہے کہ میں نے امام باقر (ع) کو فرماتے ہوئے سنا کہ: جب حسن ابن علی حالت احتضار میں تھے تو انھوں نے اپنے بھائی حسین (ع) سے فرمایا:

بھیا حسین میں تم کو ایک وصیت کرتا ہوں پس اسکو اچھے طریقے سے یاد کر لو، جب میں دنیا سے چلا جاؤں تو میرے جنازے کو غسل و کفن دے کر دفن کرنے کے لیے تیار کرنا، پھر مجھے رسول خدا (ص) کے پاس لے جانا تا کہ ان سے تجدید عہد و بیعت کر لوں، پھر مجھے میری والدہ گرامی کی طرف لے جانا اور پھر مجھے بقیع میں لا کر دفن کر دینا اور جان لو کہ حمیرا (عائشہ) کی طرف سے مجھ پر مصیبت پڑے گی، وہ عائشہ کہ تمام لوگ اسکی سیاہ کاری ، خدا ، رسول خدا اور ہم خاندان اہل بیت سے اسکی دشمنی و عداوت سے آگاہ ہیں۔

جب امام حسن (ع) وفات پا گئے اور انکو تابوت میں رکھا جا چکا تو انکو اس مقام پر لے گئے کہ جہاں رسول خدا (ص) جنازوں پر نماز پڑھا کرتے تھے، امام حسین (ع) نے جنازے پر نماز پڑھی اور نماز ختم ہونے کے بعد انکو مسجد نبوی کے اندر لے گئے، جب جنازے کو رسول خدا کی قبر کے نزدیک لے گئے تو عائشہ کو خبر دی گئی کہ بنی ہاشم حسن ابن علی کے جنازے کو لائے ہی‍ں تا کہ اسے رسول خدا کے پہلو میں دفن کر سکیں، عائشہ زین شدہ خچر پر سوار ہو کر جلدی سے وہاں پہنچ گئی – وہ پہلی عورت تھی کہ جو اسلام کے بعد زین پر بیٹھی تھی – اور اس نے آتے ہی کہا:

اپنے بیٹے کو یہاں سے باہر لے جاؤ کہ یہاں پر کسی کو دفن  نہیں کیا جائے گا اور حرم پیغمبر کی ہتک حرمت بھی نہیں ہو گی۔

حسين ابن علی (ع) نے فرمایا: تم نے اور تمہارے باپ نے پہلے ہی حجاب پیغمبر کو چاک چاک کیا ہے اور تم نے پیغمبر کے گھر میں ایسے کو لایا ہے کہ جسکے نزدیک ہونے کو وہ (پیغمبر) پسند نہیں کرتے تھے (مراد ابوبکر و عمر ہے) اور خداوند تم سے اس کام کے بارے میں ضرور پوچھ گھچ کرے گا، میرے بھائی نے مجھے حکم دیا تھا کہ انکے جنازے کو رسول خدا کے حرم میں لے جاؤں تا کہ وہ ان سے تجدید عہد کرے اور تم جان لو کہ میرے بھائی تمام لوگوں کی نسبت خداوند، اسکے رسول اور قرآن کے معانی سے آگاہ تر تھے اور وہ اس سے بہت بالا تر تھے کہ وہ حرم پیغمبر کی ہتک حرمت کریں، کیونکہ خداوند نے فرمایا ہے کہ:

اے ایمان والو ! جب تک تمہیں اجازت نہ دی جائے، رسول خدا کے گھر میں داخل نہ ہو،

اور اے عائشہ تم نے رسول خدا کی اجازت کے بغیر ان دو مردوں کو انکے گھر میں جگہ دی ہے،

خداوند نے فرمایا ہے کہ: اے ایمان والو ! اپنی آواز کو رسول خدا کی آواز سے اونچا نہ کرو،

حالانکہ مجھے اپنی جان کی قسم کہ تم نے اپنے باپ اور اسکے فاروق (عمر) کی خاطر رسول خدا کے کانوں کے نزدیک بیلچوں کو زمین پر مارا ہے (یعنی قبر کھودی ہے) حالانکہ خداوند نے فرمایا ہے کہ:

وہ جو اپنی آواز کو رسول خدا کے نزدیک آہستہ رکھتے ہیں، یہ وہی ہیں کہ جنکے دلوں کو خداوند نے تقوا کے لیے خالص کیا ہے،

مجھے اپنی جان کی قسم تمہارے باپ اور اسکے فاروق نے اپنے آپکو پیغمبر کے نزدیک کرنے کی وجہ سے، انکو اذیت و آزار پہنچایا ہے اور انھوں نے رسول خدا کے حق کی رعایت نہیں کی، کیونکہ خداوند نے بیان کیا ہے کہ جو کچھ مؤمنین کی نسبت انکے زندہ ہونے کی حالت میں حرام ہے، وہی کچھ انکے مرنے کے بعد بھی حرام ہے،

خدا کی قسم اے عائشہ ! اگر امام حسن کو رسول خدا کے نزدیک دفن کرنا، ہماری نظر میں اس کام کو خدا نے جائز قرار دیا ہوتا تو تم نے دیکھ لینا تھا کہ تیری اور تیرے ساتھیوں کی تمام تر مخالفت کے باوجود، میں نے کیسے امام حسن کو یہاں دفن کرنا تھا، (لیکن افسوس کہ بیلچے وغیرہ چلانا رسول خدا کے حرم میں ہماری نظر میں جائز نہیں ہے)

پھر محمد ابن حنفیہ نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: اے عائشہ ایک دن خچر پر سوار ہوتی ہو اور ایک دن اونٹ پر سوار ہوتی ہو ؟! تم بنی ہاشم سے دشمنی اور عداوت کی وجہ سے اپنے حواس کھو بیٹھی ہو اور اسی وجہ سے تمہارے پاؤں بھی زمین پر نہیں ٹک رہے۔

عائشہ نے یہ سن کر محمد حنفیہ سے کہا: وہ تو فاطمہ کی  اولاد ہے، تم کون ہو اور کیا کہہ رہے ہو ؟ !

امام حسین نے عائشہ سے فرمایا: محمد کو کیسے اولاد فاطمہ سے دور کر رہی ہو، خدا کی قسم وہ تین فاطمہ کے ذریعے سے دنیا میں آیا ہے: 

1. فاطمہ بنت عمران ابن عائذ ابن عمرو ابن مخزوم (مادر ابو طالب)؛

2. فاطمہ بنت اسد ابن ہاشم (مادر امير المؤمنين عليہ السلام)؛

 3. فاطمہ بنت زائدة ابن اصم ابن رواحۃ ابن حجر ابن عبد معيص ابن عامر (مادر عبد المطلب).

عائشہ نے امام حسین سے کہا: اپنے بیٹے کو یہاں سے دور لے جاؤ، پھر امام حسین اپنی والدہ گرامی کی قبر کی طرف گئے اور جنازے کو بقیع میں دفن کر دیا۔

الكليني الرازي، أبو جعفر محمد بن يعقوب بن إسحاق (متوفي328 هـ)، الأصول من الكافي، ج 1، ص303، ناشر: اسلاميه ، تهران ، الطبعة الثانية،1362 هـ.ش.

علمائے اہل سنت نے بھی نقل کیا ہے کہ عائشہ خچر پر سوار ہو کر آئی اور اس نے رسول خدا (ص) کے پہلو میں امام حسن (ع) کو دفن کرنے کی اجازت نہیں دی تھی۔

ابن عبد البر قرطبی نے كتاب بهجة المجالس میں لکھا ہے کہ:

لما مات الحسن أرادوا أن يدفنوه في بيت رسول الله صلي الله عليه وسلم، فأبت ذلك عائشة وركبت بغلة وجمعت الناس، فقال لها ابن عباس: كأنك أردت أن يقال: يوم البغلة كما قيل يوم الجمل؟!.

جب (امام) حسن دنیا سے چلے گئے تو جب انھوں نے چاہا کہ اسکو رسول خدا کے گھر میں دفن کریں تو عائشہ نے اس کام سے انکار کرتے ہوئے، اس کام سے منع کیا اور ایک خچر پر سوار ہو کر لوگوں کو اکٹھا کر لیا، ابن عباس نے اس سے کہا: (تم وہی کام کرنا چاہتی ہو جو تم نے جنگ جمل میں انجام دیا تھا) کیا تم چاہتی ہو کہ لوگ کہیں، خچر کا دن، جیسا کہ کہا گيا تھا کہ، جمل کا دن، ؟ (یعنی اے عائشہ تم اپنے کام سے آج بھی وہی جنگ جمل والا فتنہ مسلمانوں میں برپا کر کے ہزاروں بے گناہوں کا خون بہانا چاہتی ہو)

ابن عبد البر النمري القرطبي المالكي، بهجة المجالس وأنس المجالس، الجزء الأول من قسم الأول، ص100، باب من الأجوبة المسكتة وحسن البديهة، تحقيق: محمد مرسي الخوئي، ناشر: دار الكتب العلمية ـ

جناب بلاذری نے اپنی کتاب انساب الأشراف اور جناب إبن أبی الحديد نے کتاب شرح نہج البلاغہ میں لکھا ہے کہ:

وتوفي فلما أرادوا دفنه أبي ذلك مروان وقال: لا، يدفن عثمان في حش كوكب ويدفن الحسن ههنا. فاجتمع بنو هاشم وبنو أمية فأعان هؤلاء قوم وهؤلاء قوم، وجاؤوا بالسلاح فقال أبو هريرة لمروان: يا مروان أتمنع الحسن أن يدفن في هذا الموضع وقد سمعت رسول الله صلي الله عليه وسلم يقول له ولأخيه حسين: هما سيدا شباب أهل الجنة. فقال مروان: دعنا عنك، لقد ضاع حديث رسول الله ان كان لا يحفظه غيرك وغير أبي سعيد الخدري إنما أسلمت أيام خيبر، قال: صدقت، أسلمت أيام خيبر، إنما لزمت رسول الله صلي الله عليه وسلم فلم أكن أفارقه، وكنت أسأله وعنيت بذلك حتي علمت وعرفت من أحب ومن أبغض ومن قرب ومن أبعد، ومن أقر ومن نفي، ومن دعا له ومن لعنه.

فلما رأت عائشة السلاح والرجال، وخافت أن يعظم الشر بينهم وتسفك الدماء قالت: البيت بيتي ولا آذن أن يدفن فيه أحد.

جب امام حسن دنیا سے چلے گئے تو انھوں نے چاہا کہ اسے دفن کریں، مروان نے اس کام کی اجازت نہ دی اور کہا: نہ، عثمان حش کوکب (یہودیوں کا قبرستان) میں دفن ہو اور حسن یہاں پر ؟ بنی ہاشم اور بنی امیہ ایک دوسرے کی مدد کرنے کے لیے اسلحہ ہاتھوں میں لے کر جمع ہو گئے، ابوہریرہ نے مروان سے کہا:

کیا تم حسن کے یہاں پر دفن ہونے سے منع کرتے ہو، حالانکہ تم نے رسول خدا سے سنا ہے کہ اسے اور اسکے بھائی حسین کو کہا تھا کہ: یہ دونوں جوانان جنت کے سید و سردار ہیں؟ مروان نے کہا: چھوڑو ان باتوں کو، رسول خدا کی حدیث ضائع و بھول گئی ہوتی کہ اگر تم اور ابو سعید خدری اسکو حفظ نہ کرتے تو، اے ابوہریرہ تم فتح خیبر کے وقت مسلمان ہوئے ہو، ابوہریرہ نے کہا ہاں تم صحیح کہتے ہو کہ میں فتح خیبر کے موقع پر اسلام لایا تھا، لیکن میں ہمیشہ پیغمبر کے ساتھ تھا اور ان سے دور نہیں ہوا، میں جانتا ہوں کہ رسول خداکس سے محبت کرتے ہیں اور کس سے نفرت کرتے ہیں، کون ان کے نزدیک ہے اور کون ان سے دور ہے، کس کو انھوں نے مدینہ میں رہنے کی اجازت دی اور کس کو انھوں نے مدینہ سے باہر نکالا، کس کے لیے انھوں نے دعا کی ہے اور کس پر انھوں نے لعنت کی ہے، ان تمام باتوں کا مجھے علم ہے،

جب عائشہ نے اسلحہ اور مروان کو دیکھا تو ڈر گئی کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ شر و فتنہ بڑھ جائے اور خون خرابہ ہو جائے، تو اس نے کہا: یہ میرا گھر ہے ، میں کسی کو یہاں پر دفن کرنے کی اجازت نہیں دیتی۔

البلاذري، أحمد بن يحيي بن جابر ، أنساب الأشراف، ج1، ص389، طبق برنامه الجامع الكبير.

إبن أبي الحديد المدائني المعتزلي، شرح نهج البلاغة، ج16، ص8، تحقيق محمد عبد الكريم النمري، ناشر: دار الكتب العلمية – بيروت / لبنان،

يعقوبی نے کتاب تاريخ میں لکھا ہے کہ:

وقيل أن عائشة ركبت بغلة شهباء وقالت بيتي لا آذن فيه لأحد فأتاها القاسم بن محمد بن أبي بكر فقال لها يا عمة ما غسلنا رؤوسنا من يوم الجمل الأحمر أتريدين أن يقال يوم البغلة الشهباء فرجعت ،

عائشہ خاکستری رنگ کے خچر پر سوار ہو کر آئی اور کہا: یہ میرا گھر ہے، میں کسی کو بھی یہاں دفن کرنے کی اجازت نہیں دیتی، قاسم ابن محمد ابن أبی بكر آگے آیا اور کہا:

اے پھوپھی، ابھی تک تو ہم نے اپنے سروں کو جنگ جمل کے بعد دھویا بھی نہیں ہے، کیا تم چاہتی ہو کہ اب لوگ کہیں کہ خاکستری رنگ کے خچر کا دن ؟ یہ سن کر عائشہ واپس چلی گئی۔

اليعقوبي، أحمد بن أبي يعقوب بن جعفر بن وهب بن واضح (متوفي292هـ)، تاريخ اليعقوبي، ج2، ص225، ناشر: دار صادر – بيروت.

ابو الفداء نے اپنی کتاب تاريخ میں لکھا ہے کہ:

وكان الحسن قد أوصي أن يدفن عند جده رسول الله صلي الله عليه وسلم، فلما توفي أرادوا ذلك، وكان علي المدينة مروان بن الحكم من قبل معاوية، فمنع من ذلك، وكاد يقع بين بني أمية وبين بني هاشم بسبب ذلك فتنة، فقالت عائشة رضي الله عنها: البيت بيتي ولا آذن أن يدفن فيه، فدفن بالبقيع، ولما بلغ معاوية موت الحسن خر ساجداً.

(امام) حسن نے وصیت کی کہ مجھے رسول خدا کے پہلو میں دفن کیا جائے، جب وہ دنیا سے چلے گئے تو انھوں نے چاہا کہ انکی وصیت پر عمل کیا جائے، اس دور میں مروان (ملعون)، معاویہ (ملعون) کی جانب سے مدینہ کا حاکم تھا، پس اس نے اس کام کے ہونے سے منع کیا، قریب تھا کہ اس بات پر بنی امیہ اور بنی ہاشم میں خون خرابہ ہو جائے، لہذا عائشہ نے کہا: یہ میرا گھر ہے، میں اجازت نہیں دیتی کہ وہ یہاں پر دفن ہو، پس انھوں نے اس (امام حسن) کو بقیع میں دفن کر دیا، جب (امام) حسن کے دنیا سے جانے کی خبر معاویہ کو ملی تو اس (ملعون) نے (خوشی سے) سجدہ شکر ادا کیا۔

أبو الفداء عماد الدين إسماعيل بن علي (متوفي732هـ)، المختصر في أخبار البشر، ج1، ص127، طبق برنامه الجامع الكبير.

بعض منابع میں آیا ہے کہ امام حسن (ع) نے اپنے بھائی امام حسین (ع) کو وصیت کی تھی کہ آپ کو اپنے نانا رسول خدا (ص) کے پہلو میں دفن کیا جائے۔

بلاذری، انساب الاشراف، ج 3، ص 60

دینوری، الأخبار الطوال، ص 221

شیخ طوسی، امالی، ص 160

ایک اور قول میں آیا ہے کہ حسن ابن علی (ع) نے اس بارے میں اپنی زندگی میں عائشہ سے بات بھی کر لی تھی۔

ابن عبد البر، الاستیعاب فى معرفۃ الاصحاب، ج‏ 1 ص 388

حلبی، السیرۃ الحلبیۃ، ج 3 ص 517

کتاب “انساب الاشراف” کی نقل کے مطابق جب مروان ابن حکم کو اس وصیت کے بارے میں معلوم ہوا تو اس نے معاویہ کو اس بارے میں اطلاع دی اور اس سے اس کام کو روکنے کی سخت سفارش کی۔

بلاذری، انساب الاشراف، ج 3 ص 62

ایک قول میں آیا ہے کہ حسن بن علی نے سفارش کی تھی کہ ان کی تشییع اور دفن کے دوران کسی بھی جھگڑے اور فساد سے پرہیز کیا جائے تا کہ کسی کا ناحق خون نہ بہایا جائے۔

لاذری، انساب الاشراف، ج 3 ص 61

شیخ مفید، الارشاد، ج 2 ص 17

جب بنی ہاشم نے امام حسن مجتبی کے تابوت کو قبر پیغمبر لے گئے تو مروان نے بنی امیہ کے بعض دوسرے افراد کے ساتھ اسلحہ اٹھا کر ان کا راستہ روک لیا تا کہ آپ کو قبر پیغمبر میں اپنے نانا کے پہلو میں دفن ہونے نہ دیا جائے۔

شیخ مفید، الارشاد، ج 2 ص 18

بلاذری، انساب الاشراف، ج 3 ص 64

دینوری، الأخبار الطوال، ص 221

شیخ طوسی، امالی، ص 160

ابو الفرج اصفہانی لکھتے ہیں کہ عائشہ اونٹ پر سوار ہو کر آئی اور بنی امیہ کو اس کام سے منع کرنے کا مطالبہ کیا لیکن بلاذری کی نقل میں آیا ہے کہ جب عائشہ نے دیکھا کہ فساد برپا ہوا ہے اور عنقریب یہ جھگڑا خونریزی میں تبدیل ہو گا، اس موقع پر اس نے کہا:

یہ گھر میرا گھر ہے اور میں اس میں کسی کو دفن ہونے نہیں دونگی۔

نقل ہوا ہے کہ مروان نے کہا ہم ایسا کبھی نہیں ہونے دیں گے کہ عثمان شہر سے باہر دفن ہوا ہو اور حسن بن علی پیغمبر کے پہلو میں دفن ہو جائے۔ بنی ہاشم اور بنی امیہ میں لڑائی ہونے والی تھی لیکن امام حسین نے اپنے بھائی کی وصیت کے مطابق جھگڑے سے منع کیا۔ یوں امام حسن کا جنازہ بقیع لے جایا گیا اور فاطمہ بنت اسد کے پہلو میں سپرد خاک کیا گیا۔

ابو الفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، ص 82

بلاذری، انساب الاشراف، ج 3 ص 61

شیخ مفید، الارشاد، ج 2 ص 18

ابن شہرآشوب‏، المناقب، ج 4 ص 44

دینوری، الأخبار الطوال، ۱۳۶۸ش، ص۲۲۱؛

شیخ طوسی، امالی، ص 161

ابن شہر آشوب کی روایت میں آیا ہے کہ بنی امیہ نے امام حسن مجتبی کے جنازے کی طرف تیر چلائے۔ اس نقل کے مطابق امام حسن کے جنازے سے 70 تیر نکالے گئے۔

ابن شہر آشوب‏، المناقب، ج 4 ص 44

مذکورہ دلائل کی روشنی میں بہت واضح طور پر ثابت ہو گیا کہ عائشہ نے امام حسن مجتبی (ع) کے رسول خدا (ص) کے گھر میں دفن ہونے سے شدت سے منع کیا تھا اور اس کام میں سختی سے مزاحمت بھی ایجاد کی تھی، اب یہاں پر چند سوالات پیش آتے ہیں:

عائشہ نے کیوں امام حسن مجتبی (ع) کے رسول خدا (ص) کے گھر میں دفن ہونے سے منع کیا تھا ؟

کیا عائشہ اس گھر کی مالک تھی ؟

کس نے یہ گھر عائشہ کو دیا تھا ؟

اگر اسکو وہ گھر رسول خدا (ص) سے ارث میں ملا تھا تو پھر کیوں رسول خدا کی بیٹی اپنے والد کی ارث سے محروم رہی ؟

اگر وہ گھر تمام مسلمانوں کا اور بیت المال کا حصہ تھا تو پھر ایک مسلمان ہونے کے ناطے سے عائشہ نے کیوں امام حسن (ع) کو وہاں دفن کرنے کی اجازت نہیں دی ؟

عائشہ نے رسول خدا (ص) کے پہلو میں ابو بکر اور عمر کو دفن ہونے کی کیوں اجازت دی ؟

اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

امید ہے کہ علمائے اہل سنت ان تمام سوالات کے علمی اور قانع کنندہ جواب دیں گے۔

التماس دعا۔۔۔۔۔

 

تبصرے
Loading...