کیا رسول خدا (ص) عائشہ کے کمرے میں دفن ہوئے ہیں ؟

جواب اجمالی:

1 . رسول خدا (ص) کے دفن ہونے کی جگہ کے بارے میں مسلمانوں کے درمیان اختلاف نظر موجود ہے۔

2 . اہل سنت کا یہ عقيده ہے کہ رسول خدا (ص) عائشہ کے کمرے میں دفن ہوئے ہیں۔

3 . بعض شیعہ محققین کی یہ رائے ہے کہ خود اہل سنت کی معتبر کتب کی اسناد کے مطابق رسول خدا (ص) عائشہ کے کمرے میں دفن نہیں ہوئے۔ اس بارے میں تفصیلی دلائل کو بیان کیا جائے گا۔

4 . امام صادق (ع) کے شاگرد اور ابو حنیفہ کے درمیان ایک بہت دلچسپ مناظرہ ہوا ہے کہ جس میں اشارہ کیا گیا ہے کہ ابوبکر اور عمر ہر دو غضبی جگہ میں دفن ہوئے ہیں۔

جواب تفصیلی:

رسول خدا (ص) کے دفن ہونے کی جگہ کے بارے میں اختلاف نظر موجود ہے:

1 . نظر اہل سنت :

اہل سنت کے ہاں معروف و مشہور ہے کہ رسول خدا (ص) عائشہ کے کمرے میں دفن ہوئے ہیں اور اپنے اس دعوی کو صحیح ثابت کرنے کے لیے کتاب صحیح بخاری سے عائشہ کے قول کو نقل کرتے ہیں کہ:

قَالَتْ عَائِشَةُ لَمَّا ثَقُلَ النَّبِيُّ – صلي الله عليه وسلم – وَاشْتَدَّ وَجَعُهُ اسْتَأْذَنَ أَزْوَاجَهُ أَنْ يُمَرَّضَ فِي بَيْتِي فَأَذِنَّ لَهُ ، فَخَرَجَ بَيْنَ رَجُلَيْنِ تَخُطُّ رِجْلاَهُ الأَرْضَ ، وَكَانَ بَيْنَ الْعَبَّاسِ وَرَجُلٍ آخَرَ . قَالَ عُبَيْدُ اللَّهِ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لاِبْنِ عَبَّاسٍ مَا قَالَتْ عَائِشَةُ فَقَالَ لِي وَهَلْ تَدْرِي مَنِ الرَّجُلُ الَّذِي لَمْ تُسَمِّ عَائِشَةُ قُلْتُ لاَ . قَالَ هُوَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ .

اور جب رسول خدا نے طبیعت میں بوجھ سا محسوس کیا اور انکے درد میں شدت آئی تو انھوں نے اپنی زوجات سے سے چاہا کہ وہ بیماری کے ایام میرے (عائشہ) گھر گزاریں اور ان سب نے بھی اجازت دے دی، پھر وہ اس حالت میں کہ انکا ایک ہاتھ عباس کے کاندھے پر اور دوسرا ہاتھ ایک دوسرے شخص کے کاندھے پر تھا اور انکے پاؤں زمین پر گھسیٹے جا رہے تھے، وہاں سے باہر نکلے۔

عبد الله ابن عباس کہتا ہے کہ جب میں نے عائشہ کی بات کو ابن عباس کے لیے بیان کیا تو اس نے مجھے کہا کیا تم جانتے ہو کہ عائشہ نے جس شخص کا نام ذکر نہیں کیا، وہ کون ہے ؟ عبد اللہ کہتا ہے کہ میں نے جواب دیا: نہ، ابن عباس نے کہا: وہ علی ابن ابی طالب ہے۔

صحيح بخاري ، ج1 ، ص162 ، ح 665

البتہ بخاری نے اس مطلب کو اپنی کتاب صحیح بخاری میں متعدد مقام پر ذکر کیا ہے کہ ہر جگہ پر یہ مطلب عائشہ سے ہی نقل ہوا ہے اور عائشہ نے اپنی بات کو ثابت کرنے کے لیے تفصیلات کو ذکر کیا ہے اور ان تفصیلات میں کچھ تضاد پایا جاتا ہے کہ جو خود اس بات کی دلیل ہے کہ عائشہ کی بات غلط و جھوٹ ہے کہ رسول خدا میرے گھر ہی دنیا سے گئے اور پھر میرے گھر میں ہی دفن ہوئے ہیں۔

قابل ذکر ہے کہ آخر کیا وجہ تھی کہ عائشہ نے ابن عباس کا نام  تو ذکر کیا لیکن علی ابن ابی طالب (ع) کے نام کو ذکر نہیں کیا، اس وجہ کو احمد ابن حنبل نے نقل كیا ہے:

هُوَ عَلِيٌّ وَلَكِنَّ عَائِشَةَ لَا تَطِيبُ لَهُ نَفْسًا .

وہ شخص ( کہ جسکا عائشہ کی روایت میں نام ذکر نہیں کیا گیا) علی ابن ابی طالب ہے کہ عائشہ کو اسکا نام ذکر کرنا اچھا نہیں لگتا تھا۔

مسند أحمد حنبل ، ج6 ، ص 228

اور اسی طرح ابن سعد نے اپنی کتاب طبقات میں ذکر کیا ہے کہ:

هو علي ، إن عائشة لا تطيب له نفسا بخير .

وہ شخص ( کہ جسکا عائشہ کی روایت میں نام ذکر نہیں کیا گیا) علی ابن ابی طالب ہے لیکن عائشہ اسکے نام کو اچھے طریقے سے ذکر نہیں کرنا چاہتی تھی۔

الطبقات الكبري ، ج 2 ، ص 232

2 . نظر شيعہ :

بعض شیعہ محققین کہتے ہیں کہ رسول خدا (ص) عائشہ کے کمرے میں دفن نہیں ہوئے، کیونکہ:

اولا ّ:

جب بھی کہا جائے کہ بيت النبی ، حجرة النبی ، دار النبی تو اس سے مراد خود رسول خدا (ص) کا گھر اور انکا اپنا خاص کمرہ ہے، ورنہ اس مکان کے نام کو اپنی کسی زوجہ کے نام پر رکھتے، مثلا بیت ام سلمہ یا بیت عائشہ یا بیت حفصہ وغیرہ۔

أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّي اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُصَلِّي ذَاتَ لَيْلَةٍ فِي حُجْرَتِهِ فَجَاءَ أُنَاسٌ فَصَلَّوْا بِصَلَاتِهِ فَخَفَّفَ فَدَخَلَ الْبَيْتَ

رسول خدا نے ایک دن شام کے وقت اپنے کمرے میں نماز پڑھی تو کچھ لوگوں نے نماز انکی اقتداء میں پڑھی، اسی وجہ سے حضرت نماز جلدی سے پڑھ کر اپنے گھر چلے گئے۔

مسند أحمد ،ج 3، ص 103 ، ح 11567

عن ربيعة بن كعب الأسلمي : كنت أبيت عند حجرة النبي فكنت أسمعه إذا قام من الليل يقول : سبحان الله رب العالمين .

ربيعہ کہتا ہے میں نے ایک رات رسول خدا کے کمرے میں گزاری ۔۔۔۔۔

سنن النسائي ، ج 3 ص 209

ثانيا ّ:

رسول خدا (ص) کے گھر کے سب سے نزدیک ، امیر المؤمنین علی (ع) کا گھر تھا کہ انکے گھر کا دروازہ، رسول خدا کے گھر کے دروازے کے ساتھ ملا ہوا تھا۔

جاء رجل إلي ابن عمر فسأله عن عثمان … ثُمَّ سَأَلَهُ عَنْ عَلِيٍّ ، فَذَكَرَ مَحَاسِنَ عَمَلِهِ قَالَ هُوَ ذَاكَ ، بَيْتُهُ أَوْسَطُ بُيُوتِ النَّبِيِّ – صلي الله عليه وسلم – . ثُمَّ قَالَ لَعَلَّ ذَاكَ يَسُوؤُكَ . قَالَ أَجَلْ . قَالَ فَأَرْغَمَ اللَّهُ بِأَنْفِكَ ، انْطَلِقْ فَاجْهَدْ عَلَيَّ جَهْدَكَ .

ایک شخص ابن عمر کے پاس آیا اور اس نے عثمان کے بارے میں سوال کیا، پھر اس نے ابن عمر سے علی کے بارے سوال کیا تو ابن عمر نے علی کو اچھے الفاظ اور اچھی صفات کے ساتھ یاد کیا اور کہا: اسکا گھر رسول خدا کے گھر کے بہت ہی نزدیک تھا، یہ کہہ کر ابن عمر نے اس شخص سے پوچھا کہ شاید یہ بات تم کو اچھی نہ لگی ہو ؟ اس نے کہا: ہاں، ابن عمر نے کہا: لیکن علی تیرے نہ چاہنے کے باوجود بھی اور تیرے پسند نہ کرنے کے باوجود بھی ایسا ہی ہے۔

صحيح بخاري ، ج4 ، ص 208 ، ح3704

رواية العلاء بن عيزار قال : سالت ابن عمر عن علي . فقال : انظر الي منزله من نبي الله ليس في المسجد غير بيته .

علاء ابن عيزار کہتا ہے میں نے ابن عمر سے علی کے بارے میں سوال کیا تو اس نے کہا: علی کی منزلت و شان کو دیکھنا چاہتے ہو تو اسکے گھر کو دیکھو کہ رسول خدا کے گھر سے نزدیک ہے کہ مسجد نبی میں اسکے گھر کے علاوہ کسی دوسرے کا گھر نہیں ہے۔

فتح الباري ج 7 ، ص 59

ثمّ قال الا احدّثك عن علي ؟ هذا بيت رسول الله في المسجد و هذا بيت علي ّ.

۔۔۔۔۔۔ یہ رسول خدا کا گھر ہے اور یہ علی کا گھر ہے۔ (یعنی دونوں اتنے نزدیک اور ساتھ ساتھ ہیں)

مستدرك حاكم نيشابوري ، ج3 ، ص 51

پس واضح ہو گیا کہ حضرت علی (ع) اور حضرت زہرا (س) کا گھر، رسول خدا (ص) کے گھر کے ساتھ ہی تھا یعنی بہت ہی نزدیک تھا، البتہ حضرت فاطمہ (س) کے لیے رسول خدا (ص) کے گھر میں الگ سے ایک کمرہ تھا کہ جو آج تک بھی حضرت فاطمہ کے نام سے مسجد النبی میں موجود و باقی ہے۔

ثالثا ّ:

اہل سنت کی کتب کے مطابق رسول خدا (ص) کی وفات اپنے گھر اور اپنے خصوصی کمرے میں ہوئی تھی:

رسول خدا (ص) کی روح قبض ہونے کی جگہ کے بارے میں، حدیث عمر میں آیا ہے کہ:

فبينما نحن في منزل رسول الله إذا رجل ينادي من وراء الجدار أن أخرج إليّ يا ابن الخطاب . . . فإن الأنصار  اجتمعوا في سقيفة بني ساعدة ، فأدركوهم قبل أن يحدثوا أمرا ….

جب ہم رسول خدا کے کمرے میں تھے، ایک شخص نے دیوار کے پیچھے سے آواز دی کہ اے عمر ابن خطاب باہر نکلو ۔۔۔۔ کہ انصار سقیفہ بنی ساعدہ میں اکٹھے ہو گئے ہیں، اس سے پہلے کہ کچھ ہو جائے، تم (عمر) بھی جلدی سے وہاں پہنچ جاؤ ۔۔۔۔۔

فتح الباري ، ج 7 ، ص 23

تاريخ دمشق ، ج 30 ، ص 282

في رواية ابن حبان ، ج2 ، ص 155

رابعا َ :

عائشہ نے بھی اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ رسول خدا (ص) کی وفات اسکے کمرے میں واقع نہیں ہوئی تھی:

« لقد نزلت آية الرجم ورضاعة الكبير عشرا ولقد كانت في صحيفة تحت سريري ، فلما مات رسول الله وتشاغلنا بموته دخل داجن فأكلها ! »

آیت رجم اور دس مرتبہ دودھ پلانے سے رضاع ہونے والی آیت نازل ہوئی اور میں نے انکو ایک کاغذ میں لپیٹ کر اپنے بستر کے نیچے رکھا ہوا تھا، لیکن جس دن میں رسول خدا کی وفات کے کاموں میں مصروف تھی، ایک بکری کمرے میں داخل ہوئی اور اس نے ان آیات کو نگل لیا۔

سنن ابن ماجة ، ج1 ، ص 625

أوسط الطبراني ، ج 8 ،ص 12

مسند أبي يعلي، ج 8 ،ص 64

المحلي ، ج11 ،ص 236 ، وقال : هذا حديث صحيح

في لسان العرب ، ج 7 ، ص 33

نهاية ابن الأثير ، ج 2 ، ص 87

اس عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر رسول خدا (ص) کا مریض ہونا اور وفات پانا، عائشہ کے کمرے میں واقع ہوا تھا تو پھر کیسے ممکن ہے کہ وہ کمرہ لوگوں سے بھی کھچا کھچ بھرا ہو اور وہاں بکری بھی آ جائے اور ان کاغذوں کو بھی نگل لے ؟ !

خامساً:

کتب تاریخ بیان کرتی ہیں کہ رسول خدا (ص) کے حجرے کے دو دروازے تھے کہ جب مسلمان رسول خدا کے بدن مبارک پر نماز جنازہ پڑھنا چاہتے تھے تو گروہ گروہ کمرے کے ایک دروازے سے داخل ہوتا اور دوسرے دروازے سے باہر نکل جاتا تھا، حالانکہ مندرجہ ذیل دلیل سے معلوم ہوتا ہے کہ عائشہ کے گھر کا فقط ایک ہی دروازہ تھا۔

قَالُوا كَيْفَ نُصَلِّي عَلَيْهِ قَالَ ادْخُلُوا أَرْسَالًا أَرْسَالًا قَالَ فَكَانُوا يَدْخُلُونَ مِنْ هَذَا الْبَابِ فَيُصَلُّونَ عَلَيْهِ ثُمَّ يَخْرُجُونَ مِنْ الْبَابِ الْآخَر .

جب رسول خدا وفات پا گئے تو ایک گروہ نے کہا: ان حضرت پر کیسے نماز پڑھیں ؟ جواب دیا گیا کہ: گروہ گروہ ہو کر اس دروازے سے داخل ہو کر نماز پڑھو اور دوسرے دروازے سے خارج ہو جاؤ۔

مسند أحمد ، ج 5 ، ص 81 ، ح 19838

تاريخ دمشق ، ج 4 ، ص 296

أسد الغابة ، ج 5 ، ص 254

ہيثمی نے روایت کو نقل کرنے کے بعد کہا ہے:

ورجاله رجال الصحيح .

اس روایت کے تمام راوی صحیح و معتبر ہیں۔

مجمع الزوائد ، ج 9 ، ص 37

سادسا َ:

عائشہ کے کمرے کا رسول خدا (ص) کے کمرے کے بر خلاف، ایک ہی دروازہ تھا اور یہ دروازہ، رسول خدا کے دروازے کی مخالف سمت میں تھا۔

فسألته عن بيت عائشة فقال : كان بابه من وجهة الشام فقلت : مصراعا كان أو مصراعين ؟ قال : كان بابا واحدا . قلت : من أي شئ كان ؟ قال : من عرعر أو ساج .

میں نے اس سے عائشہ کے گھر کے بارے میں سوال کیا تو اس نے کہا: اسکے گھر کا ایک ہی دروازہ تھا کہ جو شام کی سمت میں تھا، (یعنی رسول خدا کے دروازے کی مخالف سمت تھا) ۔۔۔۔۔۔۔

الأدب المفرد للبخاري ، ص 168 

إمتاع الأسماع ، ج 10 ص 92

سبل الهدي ، ج 3 ،ص 349

سمط النجوم العوالي ، ص 218

سابعا:

وہ مطلب کہ جسے بخاری ، احمد حنبل اور طبقات نے خادم رسول خدا انس ابن مالک سے نقل کیا ہے کہ جس میں انھوں نے رسول خدا کی زینب بنت جحش سے شادی کے متعلق دعوت کا ذکر کیا ہے تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول خدا کے مکان اور عائشہ کے گھر میں کافی فاصلہ تھا اور عائشہ کا گھر مسجد النبی سے باہر تھا کہ وہ حضرت کھانا کھانے کے بعد عائشہ کے گھر کی طرف جاتے ہیں تو انکو پتا چلتا ہے کہ ابھی کچھ مہمان رسول خدا کے کمرے میں آرام کر رہے ہیں تو رسول خدا دوبارہ عائشہ کے کمرے سے اپنے خاص کمرے کی طرف واپس آ جاتے ہیں، اسی وقت آیت حجاب نازل ہوتی ہے کہ اے ایمان والو ۔۔۔۔۔ جب تم کو رسول خدا کے گھر مہمانی کی دعوت دی جائے تو  ضرور جاؤ اور کھانا کھانے کے بعد اپنے گھروں کو واپس لوٹ آؤ۔

سورہ احزاب آیت 52

فَمَشَي رَسُولُ اللَّهِ – صلي الله عليه وسلم – وَمَشَيْتُ مَعَهُ حَتَّي جَاءَ عَتَبَةَ حُجْرَةِ عَائِشَةَ ، ثُمَّ ظَنَّ رَسُولُ اللَّهِ  – صلي الله عليه وسلم – أَنَّهُمْ خَرَجُوا فَرَجَعَ وَرَجَعْتُ مَعَهُ ، حَتَّي دَخَلَ عَلَي زَيْنَبَ فَإِذَا هُمْ جُلُوسٌ لَمْ يَتَفَرَّقُوا ، فَرَجَعَ رَسُولُ اللَّهِ – صلي الله عليه وسلم – وَرَجَعْتُ مَعَهُ ، حَتَّي بَلَغَ عَتَبَةَ حُجْرَةِ عَائِشَةَ ، فَظَنَّ أَنْ قَدْ خَرَجُوا ، فَرَجَعَ وَرَجَعْتُ مَعَهُ ، فَإِذَا هُمْ قَدْ خَرَجُوا ، فَأُنْزِلَ آيَةُ الْحِجَابِ ، فَضَرَبَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ سِتْرًا ،

۔۔۔۔۔۔۔۔ پس میں رسول خدا کے ساتھ چلتا ہوا گیا یہاں تک کہ ہم عائشہ کے کمرے کے نزدیک پہنچ گئے ۔۔۔۔۔

صحيح بخاري ، ج 6 ، ص 26 ، ح 6238

مسند أحمد ، ج 3 ، ص 168

الطبقات الكبري ، ج 8 ، ص 104

ثامنا َ:

عائشہ نے رسول خدا (ص) کی وفات کے بعد اپنا کمرہ معاویہ کو فروخت کر دیا تھا لہذا یہ کمرہ رسول خدا کا جائے دفن نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ کمرہ تو فروخت ہو چکا تھا۔

واشتري ( معاوية ) من عائشة منزلها ، يقولون بمائة وثمانين ألف درهم ويقال بمائتي ألف درهم وشرط لها سكناها حياتها،

معاویہ نے عائشہ سے اس کا گھر ایک لاکھ اسّی ہزار درہم اور بعض کے مطابق دو لاکھ درہم کا خریدا تھا، لیکن اس شرط کے ساتھ کہ عائشہ مرتے دم تک اسی گھر میں ہی رہے گی۔ (پس یہ گھر اب عائشہ کا شمار نہیں ہو گا، بلکہ اب اسکا مالک معاویہ تھا)

الطبقات الكبري ، ج 8 ، ص 165

شیعہ اور اہل سنت کی روایات کے مطابق خود رسول خدا (ص) سے احادیث نقل ہوئی ہیں کہ:

جو پیغمبر بھی دنیا سے جاتا ہے تو جس جگہ پر اسکی روح قبض ہوئی ہو، اسے اسی جگہ پر دفن کیا جائے گا۔

ابن سعد الزهری، محمد، الطبقات ‏الکبرى، ج ‏2، ص223 و 224، دارصادر، بیروت، چاپ اول، 1968م.

ان احادیث سے بھی ثابت ہوتا کہ رسول خدا (ص) کو اپنے ہی حجرے میں دفن کیا گیا تھا نہ کسی دوسرے کے کمرے میں۔

اسی حدیث کی وجہ سے رسول خدا کو اپنے گھر میں موجود ایک کمرے میں دفن کیا گیا تھا، اب دور حاضر میں ان حضرت کا نورانی مرقد، مسجد النبی سے ملا ہوا ہے اور مسجد کا حصہ شمار ہوتا ہے۔

رسول خدا (ص) کی وفات کے بعد مسلمانوں کے درمیان ان حضرت کے بدن مقدس کو دفن کرنے کی جگہ میں اختلاف نظر پیش آیا، بعض نے کہا مسجد نبوی میں دفن کیا جائے، بعض نے کہا اصحاب کے ساتھ دفن کیا جائے، یہ سن کر امیر المؤمنین علی (ع) نے فرمایا:

إِنَّ اللَّهَ لَمْ یَقْبِضْ نَبِیَّهُ إِلَّا فِی أَطْهَرِ الْبِقَاعِ فَیَنْبَغِی أَنْ یُدْفَنَ فِی الْبُقْعَةِ الَّتِی قُبِضَ فِیهَا ،

خداوند نے پاک ترین مقام پر رسول خدا کی روح کو قبض فرمایا ہے، پس بہتر ہے کہ انکو اسی کمرے میں دفن کیا جائے۔

ابو جعفر طوسی، محمد بن حسن، تهذیب الاحکام، ج 6، ص 3، دارالکتب الاسلامیة، تهران، چاپ چهارم، 1407ق؛

إربلی، على بن عیسی، کشف الغمة، ج 1، ص 19، مکتبة بنى هاشمى، تبریز، 1381 ق؛

مازندرانی، ابن شهر آشوب، المناقب، ج 1، ص 239، مؤسسه انتشارات علامه، قم، 1379 ق.

یعنی رسول خدا کو اس مقام و نقطے (جگہ) پر دفن کیا گیا کہ جہاں پر خداوند کی عبادت کیا کرتے تھے، اسکے علاوہ خود رسول خدا کا مبارک گھر روئے زمین کا پاک ترین و شریف ترین نقطہ تھا کہ جہاں پر انکی مقدس روح کو قبض فرمایا گیا اور اسی جگہ پر حضرت امیر کے حکم کے مطابق انکو دفن کیا گیا تھا۔

فضّال اور ابو حنيفہ کا آپس میں مناظرہ:

اس ظریف ترین مناظرے میں امام صادق (ع) کے شاگرد نے بہترین علمی انداز سے ابوبکر اور عمر کے محل دفن کے غصبی ہونے کو ثابت کیا ہے:

وروي : أنه مر فضال بن الحسن بن فضال الكوفي بأبي حنيفة وهو في جمع كثير ، يملي عليهم شيئا من فقهه وحديثه .

فقال – لصاحب كان معه – : والله لا أبرح حتي أخجل أبا حنيفة . فقال صاحبه الذي كان معه : إن أبا حنيفة ممن قد علت حاله ، وظهرت حجته .

قال : صه ! هل رأيت حجة ضال علت علي حجة مؤمن ؟ ! ثم دنا منه فسلم عليه ، فرد ورد القوم السلام بأجمعهم .

فقال : يا أبا حنيفة أن أخا لي يقول : أن خير الناس بعد رسول الله علي بن أبي طالب عليه السلام ، وأنا أقول أبو بكر خير الناس وبعده عمر فما تقول أنت رحمك الله ؟

فأطرق مليا ثم رفع رأسه فقال : كفي بمكانهما من رسول الله صلي الله عليه وآله كرما وفخرا ، أما علمت أنهما ضجيعاه في قبره ، فأي حجة تريد أوضح من هذا ؟

فقال له فضال : إني قد قلت ذلك لأخي فقال : والله لئن كان الموضع لرسول الله صلي الله عليه وآله دونهما فقد ظلما بدفنهما في موضع ليس لهما حق فيه ، وإن كان الموضع لهما فوهباه لرسول الله صلي الله عليه وآله لقد أساءا وما أحسنا ، إذ رجعا في هبتهما ، ونسيا عهدهما .

فأطرق أبو حنيفة ساعة ثم قال له : لم يكن له ولا لهما خاصة ، ولكنهما نظرا في حق عايشة وحفصة فاستحقا الدفن في ذلك الموضع بحقوق ابنتيهما .

فقال له فضال : قد قلت له ذلك فقال : أنت تعلم أن النبي مات عن تسع نساء ، ونظرنا فإذا لكل واحدة منهن تسع الثمن ، ثم نظرنا في تسع الثمن فإذا هو شبر في شبر ، فكيف يستحق الرجلان أكثر من ذلك ، وبعد فما بال عائشة وحفصة ترثان رسول الله صلي الله عليه وآله وفاطمة بنته تمنع الميراث ؟ !

فقال أبو حنيفة : يا قوم نحوه عني فإنه رافضي خبيث .

ایک دن فضّال ابن حسن کوفی اور اسکے ایک دوست کا ابو حنیفہ سے آمنا سامنا ہوا کہ اس وقت ابو حنیفہ سے علم فقہ و علم حدیث پڑھنے والے اسکے بہت سے شاگرد بھی اسکے ساتھ تھے۔

فضّال نے اپنے دوست سے کہا کہ خدا کی قسم میں ابو حنیفہ کو علمی طور پر شرمندہ کیے بغیر نہیں چھوڑوں گا، فضال کے دوست نے اس سے کہا:

تم ابو حنیفہ کے علمی مقام اور دلائل سے استدلال کرنے کی علمی قوت سے آگاہ ہو۔ فضال نے کہا: چپ ہو جاؤ ! کیا تم نے کبھی دیکھا ہے کہ ایک گمراہ انسان کی دلیل، مؤمن کی دلیل پر غالب آ جائے ؟

فضال نے آگے ہو کر سلام کیا تو وہاں پر حاضر تمام لوگوں نے اسکے سلام کا جواب دیا۔

فضّال نے ابو حنیفہ سے مخاطب ہو کر کہا: تم پر خدا کی رحمت ہو ! میرا ایک بھائی ہے کہ جو کہتا ہے کہ رسول خدا کے بعد بہترین مخلوق علی ابن ابی طالب ہے لیکن میں اس سے کہتا ہوں کہ نہ ایسا نہیں ہے بلکہ بہترین مخلوق رسول خدا کے بعد ابو بکر اور اسکے بعد عمر ہے، آپکی اس بارے میں کیا رائے ہے ؟

ابو حنيفہ نے تھوڑا غور کرنے کے بعد سر اوپر اٹھایا اور کہا: (اس سے کہو) ابو بکر اور عمر کی منزلت و عزت کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ دونوں رسول خدا کے پہلو میں دفن ہیں، (حالانکہ علی ابن ابی طالب بہت دور نجف میں دفن ہیں) کیا ان دونوں کی علی پر برتری و افضلیت کے لیے اس سے بڑھ کر کوئی بہتر دلیل ہو سکتی ہے ؟

فضّال نے کہا: میں نے بالکل یہی بات اسکو کہی ہے، لیکن اس نے مجھے جواب دیا کہ:

خدا کی قسم اگر تم ان دونوں کے برحق و افضل ہونے پر دلیل رسول خدا کے ساتھ دفن ہونا لے کر آؤ گے تو مجھے تم سے کہنا چاہیے کہ : ان دونوں نے ایک ایسی جگہ دفن ہو کر کہ کسی بھی قسم کا کوئی حق اس جگہ میں نہیں رکھتے تھے، رسول خدا پر ظلم کیا ہے، کیونکہ اگر وہ جگہ ابو بکر و عمر کی تھی اور انھوں نے اس جگہ کو رسول خدا کی خدمت میں ہدئیے کے طور پر پیش کیا تھا تو اب انھوں نے ہدئیے کے طور دی گئی جگہ میں دفن ہو کر بہت ہی برا کام کیا ہے، اس لیے کہ انھوں نے اپنے اس کام سے رسول خدا کو دیا ہوا ہدیہ واپس لے لیا ہے اور اسے اپنے استعمال و اختیار میں لے لیا ہے اور یہ کام ایک طرح سے وعدہ خلافی اور عہد کو توڑنا شمار ہوتا ہے۔

ابو حنيفہ نے تھوڑی دیر خاموش ہونے کے بعد کہا: تم اپنے بھائی سے کہو کہ اصل میں وہ زمین نہ تو ان دونوں کی تھی اور نہ ہی رسول خدا کی، بلکہ اس زمین میں عائشہ اور حفصہ کا حق تھا، اسی لیے وہ سب وہاں دفن ہوئے ہیں۔

فضال نے ابو حنیفہ سے کہا کہ میں نے اتفاق سے یہی بات اپنے بھائی سے کہی ہے، لیکن اس نے آگے سے مجھے جواب دیا کہ:

کیا تم جانتے ہو کہ رسول خدا جب دنیا سے گئے تو انکی نو بیویاں تھیں تو پھر اس زمین میں ہر بیوی کا حصہ 8/1 ہو گا، لہذا ہر زوجہ کے لیے تو بہت ہی کم جگہ حصے میں آئے گی، تو اب ان دونوں نے کیسے اپنے حق سے اضافی جگہ کو اپنے اختیار میں لیا اور غصب کیا ہوا ہے ؟ !

اسکے علاوہ کیا وجہ ہے کہ رسول خدا کی بیٹی فاطمہ زہرا اپنے والد گرامی سے ارث نہیں پاتی ؟ لیکن عائشہ اور حفصہ کو رسول خدا کی بیویاں ہونے کے باوجود بھی ان حضرت سےارث ملتی ہے !

ابو حنيفہ نے جب اس بات کو سنا تو اپنے شاگردوں سے کہا: اسکو مجھ سے دور ہٹاؤ کہ یہ رافضی خبیث ہے۔

الفصول المختاره ، سيّد مرتضي ، ص74

كنز الفوائد ، ابو الفتوح كراجكي ، ص 135

احتجاج طبرسي ج2 ص149

نتيجہ گيری:

ان اقوال کا نتیجہ یہ ہوا کہ رسول خدا (ص) کا گھر ، وہی کمرہ ہے کہ جو ان حضرت کے ذاتی گھر میں تھا کہ انھوں نے اپنے اسی کمرے میں وفات پائی تھی اور اسکا یہ معنی ہے کہ بعد میں غاصب حکومت نے جیسے مسجد النبی پر غلبہ کر لیا تھا ویسے ہی اس کمرے پر بھی قبضہ کر لیا تھا تا کہ بنی ہاشم اس میں پناہ لے کر اپنے اہداف کو حاصل نہ کر سکیں،

بلکہ ابوبکر کی بیٹی عائشہ نے رسول خدا (ص) کے حجرے کی مالک ہونے کا دعوی کر دیا اور غاصب حکومت نے بھی عائشہ کے اس دعوے کو قبول کرتے ہوئے وہ کمرہ رسول خدا کی بیٹی اور حضرت علی (ع) سے زبردستی لے کر عائشہ کے اختیار میں دے دیا، حالانکہ عائشہ کے گھر میں اسکا اپنا خاص ایک کمرہ تھا کہ جو مسجد النبی کے قبلہ کی سمت میں تھا۔

اور اس کمرے کے غصب ہونے پر امیر المؤمنین علی (ع) اور اہل بیت (ع) کے سکوت اختیار کرنے اور اپنے حق کے لیے لوگوں کو حکومت کے خلاف اکٹھا نہ کرنے کی دلیل وہی تھی کہ جو انھوں نے خلافت و حکومت کے غصب ہونے کی بیان کی تھی، یعنی ان تمام واقعات پر خود رسول خدا (ص) نے اہل بیت (ع) اور خاص طور پر امیر المؤمنین علی (ع) کو صبر کرنے کی وصیت فرمائی تھی۔

التماس دعا۔۔۔۔۔

 

تبصرے
Loading...