کرونا وائرس کا المیہ، گناہ کے خطرناک ہونے کی مثال

خلاصہ: کرونا وائرس کے اس المیہ سے گناہ کے خطرناک ہونے کو آسانی سے سمجھا جاسکتا ہے۔

کرونا وائرس کا المیہ، گناہ کے خطرناک ہونے کی مثال

   کرونا وائرس کے پھیلاؤ کی وجہ سے دنیابھر میں ایسی افراتفری کا عالم ہے کہ احتیاطی تدابیر کا خاص خیال رکھا جارہا ہے اور یقیناً احتیاطی تدابیر کی ضرورت ہے، مگر یہ احتیاط، شک اور امکان کی بنیاد پر ہے نہ کہ یقین کی بنیاد پر۔ یعنی لوگ اس امکان کی وجہ سے کہ اس بیماری کا شکار نہ ہوجائیں تو احتیاط کرتے ہیں نہ یہ کہ ان کو یقین ہو کہ ضرور بضرور وہ اس وائرس کا شکار ہوجائیں گے اور اسی طرح ہی ہونا چاہیے، لیکن گناہ کے نقصانات یقینی ہیں جو قرآن کریم کی آیات اور اہل بیت (علیہم السلام) کی احادیث میں بیان ہوئے ہیں، مگر اکثر لوگ ان آسمانی اور یقینی خبروں پر یقین نہیں کرتے، کم سے کم گناہ کے سامنے بھی احتیاط کی ضرورت ہے، کیونکہ اگر یقین نہ بھی ہو تو امکان دیا جاسکتا ہے کہ یہ کام، یہ بات یا یہ سوچ جو غلط ہے اور عقل اس کی بالکل مذمت کرتی ہے اور ادھر سے دینی تعلیمات میں بھی اس کی مذمت ہوئی ہے تو ہوسکتا ہے کہ اس غلطی اور گناہ کی وجہ سے دنیا یا آخرت میں سزا ملے۔ مثلاً غیبت، جھوٹ اورالزام اتنے بڑے گناہ ہیں۔ عقل بھی ان کی مذمت کرتا ہے اور شریعت بھی۔ ان کا برا ہونا بھی یقینی ہے مگر بہت سارے لوگ ان کے برے ہونے اور دنیا و آخرت میں نقصان دینے کی وجہ سے کم از کم احتیاط بھی نہیں کرتے۔
   کتنے لوگ ایسے ہیں جو آجکل کرونا وائرس میں مبتلا ہونے کے خطرے سے احتیاطی تدابیر کا خیال رکھتے ہیں اور اس بیماری کے مختلف پہلوؤں کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے آپ کو محفوظ کرتے ہیں کہ کہیں اس کا شکار نہ ہوجائیں، وہی اس احتیاط کے دوران گناہوں سے بچنے کی کوشش نہیں کرتے۔ مثلاً بعض عورتیں کرونا وائرس سے احتیاط کرتے ہوئے ماسک سے اپنے منہ کو ڈھانپتی ہیں، لیکن سر کے حجاب کا خیال نہیں رکھتیں، جبکہ اب اس بات کو سمجھنے کا بہترین موقع ہے کہ جس طرح کرونا وائرس انسان کے منہ سے جسم میں داخل ہوکر انسان کے انتہائی نقصان کا باعث بن سکتا ہے اسی طرح نامحرم لوگوں کے سامنے سر کو بھی ڈھانپنا چاہیے تاکہ سر کے بال نظر نہ آئیں، یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے جو یقینی اور ضروری ہے۔

تبصرے
Loading...