کربلا مقام عبرت

کربلا کے عصری تقاضوں میں سے ایک یہ ہے کہ مکتب کربلا کو بعنوان ایک عبرت گاہ کے اپنی زندگیوں میں عبرت کے حصول کا ذریعہ قرار دیں۔ اور کوشش کریں کہ 61 ھجری کی امت اسلامیہ کا کردار تکرار نہ ہو اور سید الشھداء (ع) کی عزادرای کا سب سے بڑا پیغام بھی یہی ہے۔

کربلا مقام عبرت

 

کيا حالات پيش آئے تھے کہ کربلا کا واقعہ رونما ہوا؟
کربلاسے حاصل کي جانے والي عبرتيں يہ ہيں کہ انسان غور وفکر کرے کہ وہ اسلامي معاشرہ کہ جس کي سربراہي پيغمبر خدا (ص) جيسي ايک غير معمولي ہستي کے پاس تھي اور آپ (ص) نے دس سال تک انساني توان و طاقت سے مافوق اپني قدرت اور وحي الٰہي کے بحر بيکراں سے متصل ہوتے ہوئے اور بے مثل و نظير اور بے انتہا حکمت کے ساتھ دس سال تک اُس معاشرے کي راہنمائي فرمائي- آپ(ص) کے کچھ عرصے (پچيس سال) بعد ہي امير المومنين حضرت علي نے اُسي معاشرے پر حکومت کي اور مدينہ اور کوفہ کو بالترتيب اپني حکومت کا مرکز قرار ديا۔ اُس وقت ایسا کيا حادثہ وقوع پذير ہوا تھا اور بيماري کا کون سا جرثومہ اُس معاشرے کے بدن ميں سرايت کر گيا تھا کہ حضرت ختمي مرتبت (ص) کے وصال کے نصف صدي اور امير المومنين کي شہادت کے بيس سال بعد ہي اِسي معاشرے اور اِنہي لوگوں کے درميان حسين ابن علي جيسي عظيم المرتبت ہستي کو اُس دردناک طريقے سے شہيد کرديا جاتا ہے؟!
آخر وہ کون سے علل و اسباب تھے کہ جس کے باعث اتنا بڑا حادثہ رونما ہوا؟ يہ کوئي بے نام و نشان اور گمنام ہستي نہيں تھي بلکہ يہ اپنے بچپنے ميں ايسا بچہ تھا کہ جسے پيغمبر اکرم (ص) اپني آغوش ميں ليتے تھے اوراُس کے ساتھ منبر پر تشريف لیجاکر اصحاب سے گفتگو فرماتے تھے(1)۔
وہ ايک ايسا فرزند تھا کہ جس کے بارے ميں خدا کے رسول (ص) نے يہ فرمايا کہ
’’حسين مجھے سے ہے اور ميں حسين سے ہوں‘‘ اور اِن پسر و پدر کے درميان ايک مضبوط رشتہ اور رابطہ قائم تھا۔ يہ ايک ايسا فرزند تھا کہ جس کا شمار امير المومنين کے دورِحکومت کي جنگ و صلح کے زمانوں ميں حکومت کے بنيادي ارکان ميں ہوتا تھا اورجو ميدان سياست ميں وہ ايک روشن و تابناک خورشيد کي مانند جگمگاتا تھا۔ اِس کے باوجود اُس اسلامي معاشرے کا حال يہ ہوجائے کہ پيغمبر اکرم (ص) کا يہي معروف نواسہ اپنے عمل، تقويٰ، باعظمت شخصيت، عزت و آبرو، شہرِ مدينہ ميں اپنے حلقہ درس کہ جس ميں آپ کے چاہنے والے، اصحاب اور دنيائے اسلام کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے شيعہ شرکت کرتے تھے، کے باوجود ايسے حالات ميں گرفتار ہوجائے کہ جس کا نہايت بدترين طريقے سے محاصرہ کرکے اُسے پياسا قتل کرديا جائے۔ نہ صرف يہ کہ اُسے قتل کرتے ہيں بلکہ اُس کے ساتھ تمام مردوں حتي اُس کے شش ماھہ شير خوار بچے کو بھي قتل کرديتے ہيں اور صرف اِسي قتل و غارت پر اکتفائ نہيں کرتے بلکہ اُس کے زوجہ، بچوں اور ديگر خواتين کو جنگي قيديوں کي مانند اسير بنا کر شہر شہر گھماتے ہيں؛ آخر قصّہ کيا تھا اور کيا حالات رونما ہوئے تھے؟ يہ ہے مقام عبرت آج بھی عصر حاضر کی کربلا ہمیں بلارہی ہے اور آواز دے رہی ہے کہ آئیے اور اپنے زمانے کے حسین (علیہ السلام ) کی نصرت کریں اور کربلا کا انتقام لیں ۔!(2)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(1) کربلا کی عبرتیں رحیم پور ازغدی۔
(2)( حُسَينُ مِنِّي وَاَنَا مِنَ الحُسِينِ) فلسفہ قیام امام حسین، سید جواد نقوی۔

 

تبصرے
Loading...