ماہ رمضان گناہوں سے پرہیز کی مشق کا موقع

خلاصہ: ماہ رمضان میں چونکہ انسان کھانے پینے پر قابو پا کر روزہ رکھتا ہے تو یہ ایک مشق ہے جس کے ذریعے آدمی یہ طاقت حاصل کرلیتا ہے کہ گناہ سے اپنے آپ کو بچاسکے، روزہ رکھنے کے ساتھ ساتھ دیگر گناہوں سے بچنے کا راستہ ہموار ہوجاتا ہے، روایات سے واضح ہوتا ہے کہ روزہ دار کا روزہ صرف نہ کھانا اور نہ پینا نہیں ہے بلکہ جسم کے مختلف اعضا کا بھی روزہ ہونا چاہیے، انسان کو روزہ کی حالت میں ہر طرح کے گناہ سے بچنا چاہیے

ماہ رمضان گناہوں سے پرہیز کی مشق کا موقع

بسم اللہ الرحمن الرحیم

انسان جو بھی عمل انجام دیتا ہے، دین اسلام نے اس کے متعلق شرعی حکم بھی بیان کیا ہے، اسی وجہ سے ہر عمل پر پانچ عملی احکام میں سے کوئی ایک حکم لاگو ہوتا ہے۔ عملی احکام، اعتقادی احکام کے مدمقابل ہیں، اعتقادی احکام کا تعلق براہ راست انسان کے عمل کرنے سے نہیں ہے جبکہ عملی احکام، انسان کے عمل کرنے سے متعلق ہیں۔
 عملی احکام کی پانچ قسمیں ہیں: واجب، مستحب، حرام، مکروہ اور مباح۔
واجب: وہ عمل ہے جس کو انجام دینا لازم ہے اور اسے انجام نہ دینا، گناہ ہے۔
مستحب: وہ عمل ہے جس کو انجام دینا بہتر ہے لیکن انجام نہ دینے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔
حرام: وہ عمل ہے جس کو چھوڑنا لازم ہے اور اسے انجام دینا منع اور گناہ ہے۔
مکروہ: وہ عمل ہے جس کو چھوڑنا اچھا ہے لیکن اسے انجام دینے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔
مباح: وہ عمل ہے جسے انجام دینا اور چھوڑنا شریعت کی نظر میں برابر ہے۔
اس مقدمہ کے پیش نظر ہماری بحث گناہ کے سلسلے میں ہے چاہے واجب کو انجام نہ دینا ہو اور چاہے حرام کا ارتکاب کرنا ہو۔ حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں: ” اذا اَذْنَبَ الرّجلُ یخرُج فی قلبِهِ نکتَةٌ سَوْداءُ فاِنْ تابَ انْمَحَت و ان زادَ زادَتْ حتّی تغلِبَ علی قلبِهِ فَلا یفلِح بعدَها ابداً”  جب انسان کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر سیاہ نقطہ پڑجاتا ہے، پس اگر توبہ کرلیتا ہے تو وہ مٹ جاتا ہے اور اگر (گناہوں کو) بڑھا دے تو وہ سیاہی بڑھ جاتی ہے یہاں تک کہ اس کے دل پر غالب ہوجاتی ہے تو اس کے بعد ہرگز فلاح نہیں پائے گا۔
انسان جب ابتدا میں گناہ کرتا ہے تو اس کا پاک ضمیر گناہ کے ارتکاب پر ملامت کرتا ہے لیکن جب آدمی گناہ کو کئی بار کرلیتا ہے تو اس میں اتنی جرات پیدا ہوجاتی ہے کہ ضمیر کی آواز کو نہیں سن سکتا یہاں تک کہ گناہ کو گناہ ہی نہیں سمجھتا اور گناہوں کی آلودگی میں غلطاں ہوتا ہوا گمراہی کے گڑھوں میں جاگرتا ہے۔
ایسی گمراہی سے بچنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ انسان ابتدا ہی سے اپنے بےگناہ دامن کو قرآن کی آیات اور اہل بیت (علیہم السلام)کے نورانی فرامین کی روشنی میں بچائے اور صغیرہ گناہوں کے ارتکاب سے بھی پرہیز کرے تا کہ کبیرہ گناہوں کے ارتکاب کی منزل تک نہ پہنچے۔ حضرت امام موسی کاظم (علیہ السلام) فرماتے ہیں: ” لاتَستَقِلُّوا قليلَ الذُّنوبِ، فإنّ قليلَ الذُّنوبِ يَجتَمِعُ حتّى يكونَ كثيراً“[1]، “تھوڑے گناہوں کو کم نہ سمجھو، کیونکہ یہی تھوڑے گناہ، اکٹھا ہوکر زیادہ ہوجاتے ہیں”۔اور حضرت امام رضا (علیہ السلام) فرماتے ہیں: ” الصَّغائرُ مِنَ الذنوبِ طُرُقٌ إلى الكبائرِ، ومَن لَم يَخَفِ اللّه في القَليلِ لَم يَخَفْهُ في الكثيرِ“[2]، “چھوٹے گناہ، بڑے گناہوں کی طرف جانے کے راستے ہیں اور جو شخص تھوڑے میں اللہ سے نہیں ڈرتا، زیادہ میں بھی نہیں ڈرتا”۔
رفتہ رفتہ انسان کے مزاج میں ایسی تبدیلی آجاتی ہے کہ گناہ کو گناہ ہی نہیں سمجھتا اور گناہوں میں ڈوب جاتا ہے جیسا کہ اللہ عزّوجل کا قرآن مجید میں ارشاد ہے: “بَلَىٰ مَن كَسَبَ سَيِّئَةً وَأَحَاطَتْ بِهِ خَطِيئَتُهُ فَأُولَـٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ‌هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ“[3]، ” یقیناً جس نے کوئی برائی حاصل کی اور اس کی غلطی نے اسے گھیر لیا وہ لوگ اہلِ جہنم ہیں اور وہیں ہمیشہ رہنے والے ہیں”۔
گناہوں سے پاک ہونے اور روح کو پاکیزہ کرنے کا ایک بہترین موقع ماہ رمضان ہے، ماہ رمضان باعظمت اور مقدس مہینہ ہے، یہ مہینہ اللہ کا مہینہ ہے اور اس مہینہ کا میزبان اللہ تعالی ہے اور ہمیں اس میں اس کی طرف سے دعوت دی گئی ہے۔ اللہ نے اپنی رحمت کو ہم پر نازل کرنے کے لئے اس مہینہ میں نیکیوں کے ثواب کو بڑھا دیا ہے اور اہل بیت (علیہم السلام) کی لسانِ اطہر کے ذریعہ ایسے اعمال کا اپنے مہمانوں کو حکم دیا ہے، جن کو ہم بجالاتے ہوئے ماہ رمضان کی برکات سے فیضیاب ہوسکتے ہیں، ان احکام میں سے ورع اختیار کرنا، استغفار اور توبہ کرنا ہے۔ جب رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) خطبہ شعبانیہ ارشاد فرمارہے تھے تو حضرت علی (علیہ السلام) کھڑے ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! اس مہینہ میں بہترین عمل کیا ہے؟ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا: “یا أَبَا الْحَسَنِ أَفْضَلُ الْأَعْمَالِ فِی هَذَا الشَّهْرِ الْوَرَعُ عَنْ مَحَارِمِ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ“[4] اے اباالحسن! اس مہینہ میں بہترین عمل محرمات الہی سے پرہیز کرنا ہے”۔
انسان طرح طرح کے انفرادی اور معاشرتی گناہوں میں مبتلا ہوجاتا ہے، بعض گناہوں کو گناہ سمجھتا ہے اور بعض کو گناہ نہیں سمجھتا اور بعض گناہوں کو بڑا سمجھتا ہے اور بعض کو چھوٹا اور یہ سوچ کر کہ یہ معمولی گناہ ہے، اس کا ارتکاب کرلیتا ہے جبکہ آدمی کو چاہیے کہ اس بات پر توجہ دے کہ جس خدا کی بارگاہ میں گناہ کا ارتکاب کررہا ہے وہ خدا کتنا عظیم ہے۔ رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) فرماتے ہیں: ” لا تَنظُرُوا إلى صِغَرِ الذَّنبِ ولكنِ انظُرُوا إلى مَنِ اجتَرَأتُم“[5]”گناہ کے چھوٹے ہونے کو نہ دیکھو، بلکہ دیکھو کہ تم نے کس کی شان میں گستاخی کی ہے”۔ نیز حضرت امام علی (علیہ السلام) فرماتے ہیں: “أشَدُّ الذُّنوبِ ما استَخَفَّ بهِ صاحِبُهُ“[6]”بدترین گناہ وہ ہے جسے گنہگار ہلکا سمجھے”۔ اور رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) کا ارشاد ہے: ” إنّ إبليسَ رَضِيَ مِنكُم بالمُحَقَّراتِ“[7] “بیشک ابلیس تمہارے ہلکے سمجھے ہوئے گناہوں پر راضی ہے”۔
لہذا ماہ رمضان میں ایک تو آدمی گزشتہ گناہوں سے توبہ اور استغفار کرے اور آیندہ ان گناہوں کا اور کسی بھی گناہ کا ارتکاب نہیں کرنے کا ارادہ کرے اور دوسرے یہ کہ خیال رکھے کہ اس بابرکت مہینہ میں ہر طرح کے گناہ سے پرہیز کرے، کہیں ایسا نہ ہو کہ میزبان کی دعوت میں حاضر ہوکر بھی میزبان کی نافرمانی اور گستاخی کرے بلکہ روزہ رکھتے ہوئے باریک ترین گناہوں اور مکروہات سے بھی پرہیز کرے تاکہ اللہ کے اس رحمت والے مہینہ میں اس کا دامن کئی فائدوں سے بھرجائے: ایک تو گزشتہ گناہوں کی بخشش مل جائے، دوسرے یہ کہ آیندہ گناہوں سے پرہیز کرنے کے لئے پختہ اور مضبوط ارادہ کرلے، تیسرے، گناہ سے پرہیز کرتے ہوئے ایسا روزہدار بن جائے جس کے روزے کی قیمت بہت اعلی لگائی جائے، چوتھے یہ کہ گناہ سے بچتے ہوئے، روزے کے باطنی مراحل اور منازل کو طے کرے اور روزہ رکھنے کے مقصد کو پورا کرتا جائے اور تقوی جو روزہ رکھنے کا مقصد ہے، اسے مزید اپنے وجود میں بڑھاتا ہوا لباسِ تقوی کو زیادہ احسن طریقہ سے زیبِ تن کرے۔
حضرت امیرالمومنین علی ­(علیہ السلام) نے ماہ رمضان کے پہلے دن مسجد کوفہ میں جو خطبہ ارشاد فرمایا، اس میں  فرماتے ہیں: ” اُنظُر كَيفَ تَكونُ في لَيلِكَ ونَهارِكَ؟ وكَيفَ تَحفَظُ جَوارِحَكَ عَن مَعاصي رَبِّكَ؟ اُنظُر ألاّ تَكونَ بِاللَّيلِ نائِما وبِالنَّهارِ غافِلاً؛ فَيَنقَضِيَ شَهرُكَ وقَد بَقِيَ عَلَيكَ وِزرُكَ“، ” غور کرو کہ اپنے رات و دن میں کیسے ہو اور کیسے اپنے اعضاء کو اپنے پروردگار کی نافرمانیوں سے محفوظ کرتے ہو، غور کرو کہ ایسا نہ ہو کہ رات کو نیند میں رہو اور دن کو غفلت میں، پس تمہارا مہینہ گزر جائے اور تمہارا (گناہ کا) بوجھ تمہارے ذمہ رہ جائے”۔
اس ہدایت افروز بیان سے معلوم ہوجاتا ہے کہ انسان کو اس مہینہ کے دن اور رات کے دوران یہ خیال رکھنا چاہیے کہ وہ اس قیمتی وقت کو کن کاموں، باتوں اور سوچوں میں گزارتا جارہا ہے، جس کام کا کوئی فائدہ نہیں، جس بات کی ضرورت نہیں، جو سوچ فضول ہے اور انسان کو معنوی سفر میں آگے نہیں بڑھاتی، جو نہ برزخ میں فائدہ مند ہے اور نہ آخرت میں، اس سے پرہیز کرے، جبکہ اس مہینہ کی گھڑیاں دوسرے مہینوں کی گھڑیوں کی طرح نہیں ہیں، جب کوئی چیز قیمتی ہو تو اس کی قیمت کے حساب سے اس کا خیال بھی بہت زیادہ رکھنا پڑتا ہے ورنہ ضایع ہوجائے گی اور بعد میں سوائے افسوس کے کچھ نہیں بچے گا، لہذا اس عظیم وقت کا خیال رکھتے ہوئے صرف انہیں کاموں میں مصروفیت اختیار کرے جنہیں قیامت کے دن اپنے نامہ اعمال میں پاکر ابدی سعادت اور کامیابی حاصل کرسکے۔
اور اس بات پر بھی غور کرے کہ اپنے بدن کے مختلف حصوں کو کیسے پروردگار کی نافرمانی اور گناہ سے بچائے، اگر اس کا نامحرم سے سامنا ہوتا ہے تو کیسے اپنی آنکھ، زبان اور دل تک کو محفوظ رکھے، کیسے گانے اور حرام آوازوں کے سننے سے اپنے کانوں کو بچائے، اگر حرام مال دستیاب ہوجاتا ہے تو کیسے اپنے بدن کو اس کے استعمال سے بچائے، اگر کسی محفل میں کسی شخص کی غیبت ہونے لگتی ہے تو وہ کیسے نہی عن المنکر کرے اگر ممکن ہو اور اگر ممکن نہ ہو تو کیسے اپنے کانوں کو غیبت کے سننے سے بچاتے ہوئے اس محفل سے باہر آجائے، اپنے گھرانہ اور بیوی بچوں، ماں باپ، رشتہ داروں، پڑوسیوں اور دوستوں سے بول چال میں کیسے اپنی زبان اور دیگر اعضاء کا خیال رکھے کہ اگر کسی نے اسے برا بھلا کہہ دیا تو وہ کیسے اپنی زبان کو گالی گلوج اور نازیبا جوابات سے روک لے، کیسے اپنے پاؤں کو ان جگہوں پر جانے سے روکے جہاں جانا گناہ کا باعث اور اللہ کی نافرمانی کا سبب ہے۔
ماہ رمضان میں چونکہ انسان کھانے پینے سے پرہیز کرتا ہے تو اس طریقے سے خواہشات نفس کو روکنے کی ریاضت اور مشق کرتا ہے اور رفتہ رفتہ اپنے خواہشوں پر قابو پالیتا ہے۔ کبھی خواہشات پر اقتدار صرف اس حد تک ہوتا ہے کہ انسان بھوک پیاس کے ہوتے ہوئے نہ کھاتا ہے نہ پیتا ہے اور کبھی زبان، آنکھ، کان پر بھی قابو پالیتا ہے اور انہیں بے راہ نہیں ہونے دیتا اور کبھی اپنے خیالات و تصوّرات پر بھی قابو حاصل کرلیتا ہے۔ اس اعتبار سے روزہ دار تین قسم کے ہیں: ایک وہ جو صرف کھانے پینے سے اجتناب کرتے ہیں، یہ عوام کا گروہ ہے اور دوسرے وہ ہیں جو ہمہ تن روزہ دار ہوتے ہیں اور کسی عضو کو گناہ سے آلودہ نہیں ہونے دیتے۔ یہ خواص کی جماعت ہے اور در اصل روزہ دار یہی لوگ ہیں، چنانچہ امام جعفر صادق (علیہ السلام) کا ارشاد ہے:”إِذَا صُمْتَ فَلْيَصُمْ سَمْعُكَ وَ بَصَرُكَ وَ شَعْرُكَ وَ جِلْدُكَ وَ عَدَّدَ أَشْيَاءً غَيْرَ هَذَا وَ قَالَ لَا يَكُونُ يَوْمُ صَوْمِكَ كَيَوْمِ فِطْرِكَ‏”[8]، “جب روزہ رکھو تو تمہارے کان، آنکھ، بال اور جسم کی کھال تک روزہ دار ہو اور آپ نے ان کے علاوہ اور چیزیں بھی شمار کیں اور آپ نے فرمایا: تمہارے روزہ کا دن بغیر روزہ والے دن کے مانند نہیں ہونا چاہیے”۔
اور تیسرے وہ جو اپنے دل و دماغ کو ہر قسم کے برے خیالات اور باطل تصوراتِ  سے پاک و صاف رکھتے ہیں اور ہمہ تن اللہ تعالی کےذکر و فکر میں غرق رہتے ہیں۔ یہ مقرّبین کی جماعت ہے۔ چنانچہ امام زین العابدین (علیہ السلام) کے متعلّق وارد ہوا ہے کہ ماہِ رمضان میں آپؑ کی زبان اقدس سے دعا و تسبیح و تکبیر و استغفار کے علاوہ کوئی کلمہ سُننے میں نہیں آتا تھا، یہاں تک کہ تمام ماہ مبارک اسی طرح سے گزر جاتا تھا۔[9]
نتیجہ: ماہ رمضان اللہ کا مہینہ ہے، اس مہینہ میں اللہ کی رحمت و برکت کا نزول ہوتا ہے، چونکہ حدیث نبوی ؐ کے مطابق ورع اختیار کرنا اور گناہوں سے پرہیز کرنا اس مہینہ کا سب سے افضل عمل ہے۔ ہمیں چاہیے کہ روزہ رکھتے ہوئے گناہوں سے پرہیز کریں اور آیندہ بھی گناہ سے پرہیز کرنے کا مضبوط اور پختہ ارادہ کرلیں اور اللہ تعالی سے مدد مانگیں کہ ہمیں گناہ سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اہل بیت (علیہم السلام) کے فرامین سے واضح ہوتا ہے کہ اس مہینہ میں انسان سے کسی قسم کا گناہ سرزد نہیں ہونا چاہیے اور اس مہینہ میں گناہ سے پرہیز کرنا، روزہ کے مراتب اور درجات میں سے ہے، یعنی جتنا گناہ سے پرہیز ہوگا، اتنا انسان حقیقی روزہ دار ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[1] امالی مفید: 157/8۔
[2] بحار الانوار : 73/353/5 ۔
[3] سورہ بقرہ، آیت 81.
[4] عیون أخبار الرضا: ج۱، ص295.
[5] بحارالانوار : 77/168/6۔
[6] بحار الانوار : 73/364/96۔
[7] بحارالانوار : 73/363/93۔
[8] الكافي : 4/87/1۔
[9] حاشیہ صحیفہ کاملہ، علامہ مفتی جعفر حسین، ص322

تبصرے
Loading...