ماہ رمضان کی عظمت

“روزہ” انسان کی تربیت کرنے اور اسے کمال بخشنے والے اعمال میں سے ایک ہے جو اس کی دنیا و آخرت کی سعادت اور جسم و روح کی صحت کو یقینی بناتا ہے۔ روزہ تقوی و پرہیزگاری کے راز، تہذیب نفس اور باطن کی پاکیزگی، صبر کی تمرین، اپنے سرکش نفس امارہ کی خواہشات کے مقابلے میں استقامت اور جدوجہد اور شیطان کے ساتھ مقابلے کا نام ہے۔ روزہ انسان ساز مکتب، روح کو سکون دینے والا، انسان کی باطنی قوتوں کی تربیت کرنے والا اور لازوال الہی طاقت کی پرتو میں اس کی شخصیت کو خوبصورتی عطا کرنے والا عمل ہے۔ روزہ انسانی روح کو رحمت الہی کی نسیم میں قرار دیتا ہے۔ روزہ، دل کو گناہ اور آلودگی سے پاک کرنے، باطنی پاکیزگی کے حصول اور دل و جان میں ایمان کا پودا بونے کا نام ہے۔ روزہ ایسی الہی نعمت ہے جس کے اثرات انسانی نشوونما، روحانی تربیت، کردار کی اصلاح اور جسمانی و نفسیاتی صحت کے حصول میں انتہائی گہرے ہیں۔ تحریر حاضر میں اس عظیم مہینے کی عظمت اور فضیلیت کی دلیلوں کے طور پر اس مہینے کے چند عملی ثمرات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔

۔ تقوی کا حصول
روزے کا اہم ترین فائدہ جس پر قرآن کریم میں بھی بہت زیادہ تاکید ہوئی ہے “تقوی” کا حصول ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد خداوندی ہوتا ہے۔
“اے ایمان والو، تم پر روزے فرض کئے گئے جیسا کہ تم سے پہلے والوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم متقی ہو جاو(1) 

تقوی انسانی روح کی ایسی مستقل حالت اور صفت کو کہا جاتا ہے جو اسے شیطانی جالوں اور نفس امارہ کی چالوں سے نجات بخشتی ہے اور گناہ میں مبتلا ہونے یا رذائل اخلاقی کی دلدل میں دھنسنے سے بچاتی ہے۔ تقوی درحقیقت انسان کیلئے ایسی ڈھال کی مانند ہے جو اسے شیطانی وسوسوں اور حملوں اور نفسانی خواہشات سے محفوظ رکھتی ہے۔ لہذا قرآن کریم کی بہت سی آیات میں انسان پر زور دیا گیا ہے کہ وہ تقوی کو حاصل کرنے کی کوشش کرے۔

۔ تہذیب نفس اور باطنی پاکیزگی
ان اہم عبادات میں سے ایک روزہ ہے جو انسان کو خودسازی، تزکیہ نفس اور باطنی پاکیزگی میں مدد دیتی ہیں۔ روزہ کی برکت سے انسان اپنے سرکش نفس کو لگام دینے کے قابل ہو جاتا ہے اور اپنی شہوت اور نفسانی خواہشات سے مقابلہ کر سکتا ہے۔ روزے کے ذریعے انسان نفس امارہ کی ناجائز اور نامعقول خواہشات پر قابو پا سکتا ہے۔ امام جعفر صادق (علیہ السلام) اس بارے میں فرماتے ہیں:”روزہ نفسانی خواہشات کو کمزور کر دیتا ہے”۔ 

نفس امارہ سرکش اور باغی ہے لہذا ہمیشہ انسان کو معصیت خداوند اور گناہ کی جانب اکساتا ہے۔ قرآن کریم میں حضرت یوسف (علیہ السلام) کے بقول ذکر ہوا ہے کہ:
“یقینا نفس برائیوں کی طرف حکم کرنے والا ہے”(2) ۔ 

انسان جب تک اپنی نفسانی خواہشات اور ہوا و ہوس کا اسیر ہوتا ہے کبھی بھی سعادت اور فلاح تک نہیں پہنچ سکتا۔ انسان اپنی رذائل اخلاقی اور روحانی بیماریوں جیسے خود پرستی، تکبر، جاہ طلبی، کینہ، حسد، ریا، غیبت وغیرہ کی وجہ سے انسانیت کے پست ترین درجات تک زوال کا شکار ہو جاتا ہے اور اس کا یہ زوال اس حد تک جاتا ہے کہ وہ حیوانوں سے بھی پست تر ہو جاتا ہے۔ لیکن تزکیہ نفس، خودسازی اور نفس امارہ کے ساتھ مقابلہ اسے کمال، فلاح اور اپنی زندگی کے حقیقی ہدف تک پہنچاتا ہے۔ ذات اقدس الہی نے انسانی روح کے کمال کو تزکیہ نفس میں قرار دیا ہے۔

۔ شہوت کی اسارت سے آزادی اور جنسی خواہش کا معتدل ہو جانا
روزہ انسان کو شہوت، عادات اور ہوا و ہوس کی قید سے آزاد کرواتا ہے اور اسے روحانی نشوونما اور ملکوت اعلی کی جانب پرواز کے قابل بناتا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ انسانوں کی اکثریت روحانی آزادی سے محروم ہے بلکہ اپنے برے اعمال کے نتیجے میں اپنے ہاتھ پاوں کو باندھ چکے ہیں۔ قرآن کریم میں ارشاد خداوندی ہوتا ہے:”ہر انسان اپنے اعمال کا گروی ہے”(3)۔ 

اسی طرح امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں: “جو شخص اپنی شہوات کو ترک کرتا ہے وہ آزاد ہے‘‘ (4)

ارادے کی مضبوطی اور روحانی لطافت:
عصر حاضر کے انسان کی ایک بڑی مشکل ارادے کی کمزوری اور عزت نفس اور خوداعتمادی میں کمی ہے۔ یہ مسئلہ بذات خود کئی نفسیاتی و روحانی مشکلات اور مسائل کا باعث بنتا ہے اور ایسے افراد روزمرہ زندگی سے لذت افروز نہیں ہو سکتے۔ ان مسائل کا شکار افراد روزمرہ زندگی کی مشکلات پر قابو پانے میں ناکام رہتے ہیں اور آخرکار مایوسی اور ڈپرشن کا شکار ہو جاتے ہیں۔ دین مبین اسلام انسان کیلئے ایک جامع تربیتی پروگرام لایا ہے جس میں ان مشکلات کا حل بھی موجود ہے۔ روزہ انسان کیلئے اپنے ارادے کی تقویت اور عزت نفس اور خوداعتمادی میں اضافہ کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ روزہ دار شخص جس نے ایک ماہ تک اپنی بھوک اور پیاس کا مقابلہ کیا ہے اور اپنی نفسانی خواہشات پر کنٹرول حاصل کیا ہے، درحقیقت ایسی صلاحیت کا مالک بن چکا ہے جو اسے ماہ مبارک رمضان کے علاوہ باقی دنوں میں بھی اپنے حیوانی رجحانات پر قابو پانے میں مدد کرے گی اور وہ اپنے فولادی ارادے کی بدولت ترقی اور کمال کے راستے پر گامزن ہو کر خوشبختی اور سعادت کی چوٹیوں تک پہنچ پائے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
(1)يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ [سورہ بقرہ/ آیہ ۱۸۳
(2) ان النفس لامارۃ بالسوء [سورہ یوسف/ آیہ ۵۳]۔ 
(3)كل نفس بما كسبت رهينه [سورہ مدثر/ آیہ ۳۸]۔
(4)من ترك الشهوات كان حر نهج البلاغه، خطبه 176   

 

  

تبصرے
Loading...