عبد اللہ ابن زبیر، زبیر کی گمراہی کا سبب

خلاصہ: عبداللہ ابن زبیر ان لوگوں میں سے ہیں جس کی معمومین(علیہم السلام) نے مذمت کی، اور خود زبیر نے جنگ جمل میں  عبداللہ سے کہا کہ تو میرے لئے ایک نامبارک فرزند ہے۔

عبد اللہ ابن زبیر، زبیر کی گمراہی کا سبب

بسم اللہ الرحمن الرحیم
     زبیر ابن عوام حضرت علی(علیہ السلام) کے چاہنے والوں میں سے تھے، سقیفہ کے بعد امام(علیہ السلام) کی حمایت کرنے والوں میں زبیر کا نام تھا. لیکن جیسے جیسے وقت گذرا اور امام علی(علیہ السلام) کو ظاہری طور پر خلافت ملی اور امام علی(علیہ السلام) نے جب زبیر کو اپنی خلافت میں کوئی عھدہ نہ دیا، تو وہ مدینہ کی جانب چلے گئے، اس وقت زبیر کے بیٹے عبداللہ نے زبیر کو امام علی(علیہ السلام) کے خلاف ورغلایا اور اس طرح زبیر اپنے دوسرے ساتھیوں کے ساتھ جنگ جمل میں امام علی(علیہ السلام) کے مقابلہ میں آگئے[۱]۔
     حضرت علی(علیہ السلام) ابن زبیر کے بارے میں فرماتے ہیں :«ما زال الزّبیر رجُلاً منّا اهلَ البیتِ حتّی نشا ابنه المشیومُ عبدالله[۲] زبیر ہمشہ ہم اہل بیت میں سے تھے، یہاں تک کہ ان کا نامبارک بیٹا عبد اللہ بڑا ہوا»۔
     امام علی(علیہ السلام) نے جب جنگ جمل کے درمیان زبیر سے گفتگو کی اور عبداللہ نے یہ دیکھا کہ زبیر پر امام علی(علیہ السلام) کی باتوں کا اٖثر ہورہا ہے، تو اس نے مختلف حیلوں کے ذریعہ زبیر کو بہکانے کی کوشش کی[۲] لیکن کامیاب نہ ہوا، زبیر نے عبداللہ کو اس وقت کہا کہ تو کیسا نامبارک بیٹا ہے[۳]
     ابن اعثم بیان کرتے ہیں: زبیر نے عبداللہ سے کہا کہ رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا تھا میں تیری وجہ سے جھنم میں  جاؤنگا[۴]۔
     رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے سورهٔ‏ «بقره»، «آل‏ عمران»، «نساء» و «مائده» کو رکوع میں پڑھنے سے منع کیا تھا، لیکن اس کے باوجود عبداللہ ابن زبیر ان سوروں کی تلاویت کیا کرتا تھا[۵]۔
     حضرت علی(علیہ السلام) عبد اللہ ابن زبیر کے بارے میں فرماتے ہیں: وہ دین کے ذریعہ دنیا کو حاصل کرنا چاہتا ہے[۶]
     جس وقت عثمان ابن عفان کا محاصرہ کرلیا گیا اس وقت عبداللہ ابن زبیر نے عثمان ابن عفان سے کہا کہ چلو مکہ کی طرف چلتے ہیں، اس کے جواب میں عثمان ابن عفان نے کہا: میں نے رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے سنا ہے کہ قریش میں سے ایک عبداللہ نامی شخص مکہ میں جائیگا، اس کے گناہ لوگوں کے آدھے گناہوں کے برابر ہونگے[۷]۔
     عبداللہ نے ابن عباس اور محمد حنفیہ کو  اس کی بیعت کرنے کے لئے کہا، لیکن جب ان لوگوں نے بیعت کرنے سے انکار کردیا تو اس نے ان دونوں کو منبر سے گالیاں دیں اور کہا: میری بیعت کرتے ہو یا میں  تم لوگوں کو آگ میں جلادوں؛ لیکن ان لوگوں نے اس کی بات نہ سنی۔ آخر کار اس نے محمد حنفیہ کے ساتھ  بنی ھاشم کے اور ۱۵ افراد کو قید خانہ میں ڈال دیا[۸]۔
نتیجہ:
     عبداللہ ابن زبیر کے بارے میں رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اور حضرت علی(علیہ السلام) اور دوسروں نے جو فرمایا، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عبداللہ ابن زبیر اپنے والد کی گمراھی کا سبب بنا اور اس نے حکومت کی خاطر لوگوں پر ظلم کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
حوالے:
[۱] تاریخ طبری، ج۴، ص۵۰۹۔ مروج الذهب، ج۲، ص۳۷۲۔ تاریخ اسلام ذهبی، ج۳، ص۴۹۰۔ البدایة والنهایة، ج۷، ص۲۴۲.
[۲] نهج البلاغه، حمکت۴۵۳۔ العقد الفرید، ج۳، ص۳۱۴۔ اُسدالغابه، ج۳، ص۲۴۴، الرقم۲۹۴۷۔ شرح نهج البلاغه ابن ابی الحدید، ج۲، ص۱۶۷. الاستیعاب، ج۳، ص۹۰۶، رقم۱۵۳۵.
[۳] تهذیب ابن عساکر، ج۵، ص۳۶۵۔ شرح نهج البلاغه، ج۲، ص۱۶۶۔ مروج الذهب، ج۲، ص۴۰۱۔ تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۱۸۳۔ الفتوح، ج۲، ص۴۷۰.
[۴] الاصابه فی تمییز الصحابه، ج۴، ص۹۴۔ البدایه و النهایه، ج۷، ص۲۷۲۔ الکامل فی التاریخ، ج۲، ص۴۸.
[۵] سیر اعلام النبلاء، ج۳، ص ۳۶۹.
[۶] شرح نهج ‏البلاغه، ابن ابى ‏الحدید، ج۷، ص۲۴.
[۷] سیر اعلام النبلاء، ج۳، ص۳۷۶۔ تاریخ دمشق، ج۲۸، ص۲۱۹. یَعْقُوْبُ القُمِّیُّ: عَنْ جَعْفَرِ بنِ أَبِی المُغِیْرَةِ، عَنِ ابْنِ أَبْزَى، عَنْ عُثْمَانَ: أَنَّ ابْنَ الزُّبَیْرِ قَالَ لَهُ حَیْثُ حُصِرَ: إِنَّ عِنْدِی نَجَائِبَ، فَهَلْ لَکَ أَنْ تَتَحَوَّلَ إِلَى مَکَّةَ، فَیَأْتِیَکَ مَنْ أَرَادَ أَنْ یَأْتِیَکَ؟ قَالَ: لاَ، إِنِّیْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ -صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ – یَقُوْلُ: (یُلْحِدُ بِمَکَّةَ کَبْشٌ مِنْ قُرَیْشٍ، اسْمُهُ عَبْدُ اللهِ، عَلَیْهِ مِثْلُ نِصْفِ أَوْزَارِ النَّاسِ). سیر أعلام النبلاء [۵ /۳۶۹]؛ أَبُو النَّضْرِ: حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بنُ سَعِیْدٍ، أَخْبَرَنَا سَعِیْدُ بنُ عَمْرٍو، قَالَ: أَتَى عَبْدُ اللهِ بنُ عَمْرٍو عَبْدَ اللهِ بنَ الزُّبَیْرِ، فَقَالَ: إِیَّاکَ وَالإِلْحَادَ فِی حَرَمِ اللهِ، فَأَشْهَدُ لَسَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ -صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ – یَقُوْلُ: (یُحِلُّهَا – وَتَحِلُّ بِهِ – رَجُلٌ مِنْ قُرَیْشٍ، لَوْ وُزِنَتْ ذُنُوْبُهُ بِذُنُوْبِ الثَّقَلَیْنِ، لَوَزَنَتْهَا). قَالَ: فَانظُرْ یَا ابْنَ عَمْرٍو لاَ تَکُوْنُهُ…، وَذَکَرَ الحَدِیثَ. سیر أعلام النبلاء [۵ /۳۷۰]؛ المغیرة عن ابن ابزى عن عثمان بن عفان قال قال له عبد الله بن الزبیر حیث حصر ان عندی نجائب قد اعددتها لک فهل لک ان تحول إلى مکة فیأتیک من اراد ان یاتیک قال لا انی سمعت رسول الله (صلى الله علیه و سلم ) یقول یلحد بمکة کبش من قریش اسمه عبد الله علیه مثل نصف اوزار الناس تاریخ دمشق [۲۸ /۲۱۹].
[۸] العقدالفرید، ج۴، ص۴۱۳۔ تاریخ دمشق، ج۲۸، ص۲۰۴۔ مروج الذهب، ج۳، ص۸۶۔ تاریخ یغقوبی،ج۲، ص۲۶۱.

منابع:

 http://makarem.ir/main.aspx?lid=0&typeinfo=23&catid=23912&pageindex=0&mid=249340

http://makarem.ir/main.aspx?lid=0&typeinfo=23&catid=23912&pageindex=0&mi…

http://makarem.ir/main.aspx?lid=0&typeinfo=23&catid=23912&pageindex=0&mi…

تبصرے
Loading...