روزہ کے آخرت میں فائدے

خلاصہ: جس طرح روزہ میں دنیاوی فائدے پائے جاتے ہیں، اسی طرح روزہ میں ایسے فائدے بھی پائے جاتے ہیں جو آخرت میں ظاہر ہوںگے، روزہ آخرت کی بھوک اور پیاس کی یاد، قبر سے نکلتے ہوئے روزہ دار کے منہ کی خوشبو، روزہ کا آتش جہنم کی ڈھال بننا، جنت میں خاص دروازے سے داخل ہونا اور روزہ دار کی جنتی کھانوں اور شربتوں سے مہمان نوازی۔

روزہ کے آخرت میں فائدے

بسم اللہ الرحمن الرحیم

ماہ رمضان اللہ کا مہینہ ہے، ماہ رمضان دوسرے مہینوں کی طرح نہیں ہے بلکہ دوسرے مہینوں کا سردار ہے لہذا روایات میں اس مبارک مہینے کے بہت سے فضائل ذکر ہوئے ہیں۔ روزہ کے ساتھ ساتھ معنوی امور کو مدنظر رکھنے اور دیگر اعمال و اذکار کو بجالانے پر تاکید کی گئی ہے۔
ماہ رمضان میں بہترین عمل روزہ ہے اور روایات میں اس مہینہ کے فضائل کے علاوہ، روزہ رکھنے کے الگ فضائل بیان کئے گئے ہیں۔ یعنی جن لوگوں کو ماہ رمضان میں روزہ نہیں رکھنا چاہیے یا رکھنے سے محروم ہیں، وہ لوگ روزہ کے علاوہ ماہ رمضان کے دیگر فضائل سے فیضیاب ہوسکتے ہیں، ایسا نہیں ہے کہ جنہیں روزہ رکھنا منع ہے وہ دیگر اعمال کو بھی چھوڑ دیں بلکہ وہ روایات میں مذکورہ اعمال کو بجالاتے ہوئے اللہ کی رحمت حاصل کرسکتے ہیں۔
اور جو شخص اس مہینہ میں روزہ دار ہے، وہ اس مہینے کے فیض سے بہرہمند ہوتے ہوئے دیگر اعمال کو بھی بجالاسکتا ہے، ایسا نہیں ہے کہ ماہ رمضان میں صرف ایک کام کیا جائے جو روزہ ہے اور دیگر اعمال اور فضائل پر توجہ نہ کی جائے بلکہ روزہ کے ساتھ ساتھ دوسرے اعمال کو بھی بجالانا چاہیے تاکہ اس مہینہ کی بھرپور برکات سے انسان اپنے دامن کو بھر لے اور نامہ اعمال کو زیادہ سے زیادہ نورانی اور اعمال کے میزان کو مزید بھاری کرتا چلا جائے۔ وہی نامہ اعمال جس کے بارے میں قرآن کا ارشاد ہے: وَ كُلَّ إِنسانٍ أَلْزَمْناهُ طائِرَهُ فِي عُنُقِهِ وَ نُخْرِجُ لَهُ يَوْمَ الْقِيامَةِ كِتاباً يَلْقاهُ مَنْشُوراً”[1]، “اور ہم نے ہر انسان کے نامۂ اعمال کو اس کی گردن میں آویزاں کردیا ہے اور روز قیامت اسے ایک کھلی ہوئی کتاب کی طرح پیش کردیں گے”۔
نامہ اعمال اتنا جامع اور مکمل ہوگا کہ جب قیامت کے دن مجرمین کو دیا جائے گا تو اس بارے میں فرمان الہی ہے: وُضِعَ الْكِتَابُ فَتَرَ‌ى الْمُجْرِ‌مِينَ مُشْفِقِينَ مِمَّا فِيهِ وَيَقُولُونَ يَا وَيْلَتَنَا مَالِ هَـٰذَا الْكِتَابِ لَا يُغَادِرُ‌ صَغِيرَ‌ةً وَلَا كَبِيرَ‌ةً إِلَّا أَحْصَاهَا وَوَجَدُوا مَا عَمِلُوا حَاضِرً‌ا وَلَا يَظْلِمُ رَ‌بُّكَ أَحَدًا”[2]، “اور جب نامۂ اعمال سامنے رکھا جائے گا تو دیکھو گے کہ مجرمین اس کے مندرجات کو دیکھ کر خوفزدہ ہوں گے اور کہیں گے کہ ہائے افسوس اس کتاب نے تو چھوٹا بڑا کچھ نہیں چھوڑا ہے اور سب کو جمع کرلیا ہے اور سب اپنے اعمال کو بالکل حاضر پائیں گے اور تمہارا پروردگار کسی ایک پر بھی ظلم نہیں کرتا ہے”۔
ضروری نہیں ہے کہ اگر عمل بڑا ہو تو انسان اسے دیکھے گا بلکہ قرآن فرماتا ہے: يَوْمَئِذٍ يَصْدُرُ‌ النَّاسُ أَشْتَاتًا لِّيُرَ‌وْا أَعْمَالَهُمْ ۔ فَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّ‌ةٍ خَيْرً‌ا يَرَ‌هُ ۔ وَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّ‌ةٍ شَرًّ‌ا يَرَ‌هُ”[3]، “اس روز سارے انسان گروہ در گروہ قبروں سے نکلیں گے تاکہ اپنے اعمال کو دیکھ سکیں۔ پھر جس شخص نے ذرہ برابر نیکی کی ہے وہ اسے دیکھے گا اور جس نے ذرہ برابر برائی کی ہے وہ اسے دیکھے گا”۔
لہذا معلوم ہوگیا کہ ذرہ برابر نیکی یا برائی ہو، انسان اسے قیامت کے دن دیکھے گا۔ جب ذرہ برابر عمل بھی انسان دیکھ لے گا تو چاہیے کہ برے اعمال سے بچتے ہوئے نیک اعمال کیے جائیں تا کہ جب قیامت کے دن نامہ اعمال اسے داہنے ہاتھ میں دیا جائے تو خوشی خوشی اپنے اہل کی طرف واپس جائے: “فَأَمَّا مَنْ أُوتِيَ كِتَابَهُ بِيَمِينِهِ ۔ فَسَوْفَ يُحَاسَبُ حِسَابًا يَسِيرً‌ا ۔ وَيَنقَلِبُ إِلَىٰ أَهْلِهِ مَسْرُ‌ورً‌ا”[4]، “پھر جس کو نامہ اعمال داہنے ہاتھ میں دیا جائے گا، اس کا حساب آسان ہوگا، اور وہ اپنے اہل کی طرف خوشی خوشی واپس آئے گا”، تو کیوں نہ انسان نیک اعمال کرکے قیامت کے اس خوف بھرے دن میں بھی خوشی حاصل کرے! ان اعمال میں سے ایک اہم اور بنیادی عمل روزہ ہے چنانچہ روایت میں اسلام کی پانچ بنیادیں بتائی گئی ہیں، جن میں سے ایک روزہ ہے۔ حضرت امام محمد باقر (علیہ السلام) ارشاد فرماتے ہیں: بُنِىَ الاْسـلامُ عَلى خَمْسَةِ أَشْيآءَ، عَلَى الصَّلوةِ وَ الزَّكاةِ والْحَجِّ وَ الصَّـوْمِ وَ الْوِلايَـةِ”[5]، “اسلام پانچ چیزوں پر قائم کیا گیا ہے: نماز، زکات، حج، روزہ اور ولایت پر”۔
ہم روزہ رکھتے ہوئے اسلام کے اس بنیادی عمل کے ذریعے دنیا اور آخرت میں خوشی حاصل کرسکتے ہیں جیسا کہ حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) کا ارشاد ہے: للصائم فرحتان: فرحة عند إفطاره، وفرحة عند لقاء ربه”[6] “روزہ دار کے لئے دو خوشیاں ہیں: ایک خوشی افطار کے وقت، اور ایک خوشی اپنے پروردگار سے ملاقات کے موقع پر”۔
روایات میں آخرت کے مختلف مقامات پر روزہ دار کی عظمت اور اجر کا تذکرہ ہوا ہے:
قبروں سے نکلتے ہوئے روزہ دار کی عظمت
رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) فرماتے ہیں: جب قیامت کا دن ہوگا تو روزے دار اپنی قبروں سے نکلیں گے تو روزہ کی خوشبو سے پہچانے جائیں گے، ان کے منہ کی خوشبو، مُشک سے بہتر ہے اور ان کی جنتی لذیذ کھانوں سے مہمان نوازی کی جائے گی۔
روزہ کا مقصد آخرت کی بھوک اور پیاس کی یاد
حضرت امام رضا (علیہ السلام) فرماتے ہیں: اِنَّـما اُمِـرُوا بِالصَّـوْمِ لِكَىْ يَعْرِفُوا أَلَمَ الْجُوْعِ وَ الْعَطَشِ فَيَسْـتَدِلُّوا عَلى فَقْرِاْلاْخِـرَةِ”[7]، “لوگوں کو اس لیے روزے کا حکم دیا گیا ہے تا کہ وہ بھوک اور پیاس کی تکلیف کو پہچان کر آخرت کے فقر و ناداری سمجھ جائیں”۔
روزہ دار کا قیامت میں سیر ہونا
نبی اکرم (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) فرماتے ہیں: “طُوبى لِمَنْ ظَمَـأَ أَوْجـاعَ لِلّهِ اُولئِكَ الَّذينَ يَشْبَعُونَ يَوْمَ الْقِيامَةِ”[8] خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو اللہ کے لئے پیاسے یا بھوکے رہے ہیں، وہ قیامت کے دن سیر ہوں گے۔
روزہ ­آتش جہنّم کی ڈھال
انسان دنیاوی زندگی میں مختلف ناگوار حالتوں سے سامنا کرتے ہوئے کوئی محافظ، سائبان، سایہ اور سپر کو تلاش کرتا ہے تا کہ جو چیز اس کے لئے تکلیف کا باعث ہے، اس سے بچ جائے اور واضح ہے کہ جس چیز سے آدمی کو زیادہ تکلیف ہو، اس سے بچنے کے لئے جس چیز کو وسیلہ بنائے، اس وسیلہ کو بھی اتنا ہی مضبوط اور پائدار ہونا چاہیے۔ آخرت کی بھڑکتی ہوئی آگ دنیا کی آگ سے کہیں زیادہ جلانے والی اور تکلیف دینے والی ہے، اب ایسی آگ سے بچنے کے لئے کیسی ڈھال ہونی چاہیے؟
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) فرماتے ہیں: “أَلصَّوْمُ جُنَّـةٌ مِنَ النّـارِ”[9]، “روزہ (جہنّم) کی آگ کے لئے ڈھال ہے”۔
نیز نبی اکرم (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) نے فرمایا: “وَ هُوَ شَـهْرٌ أَوَّلُهُ رَحْـمَةٌ وأَوْسَطُهُ مَغْفِرَةٌ وَاخِرُهُ عِتْقٌ مِنَ النّارِ”[10]، “اور رمضان ایسا مہینہ ہے جس کی ابتدا رحمت ہے اور اس کا درمیانی حصہ مغفرت ہے اور اس کی آخری حصہ (جہنّم) کی آگ سے رہائی ہے۔
روزہ دار کا جنت میں خاص دروازے سے داخلہ
بعض موقعوں پر خاص افراد کو وہاں سے داخل نہیں کیا جاتا جہاں سے دیگر لوگ داخل ہوتے ہیں بلکہ ان خاص افراد کے مقام کا خیال رکھتے ہوئے ان کے داخلہ کے لئے الگ دروازہ مقرر کیا جاتا ہے، آخرت میں بھی اسی طرح ہے کہ جنت میں مختلف ناموں کے دروازے ہیں، روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ جنت کے دروازوں کے نام کچھ ان اعمال کے مطابق ہیں جن کو بجالانے والے جنتی اس دروازے سے جنت میں داخل ہوں گے، جیسے باب الصبر، باب الشکر، باب البلاء وغیرہ[11]، نیز جنت کا ایسا دروازہ بھی ہے جس سے صرف روزہ دار داخل ہوں گے۔
رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) ارشاد فرماتے ہیں: “اِنَّ لِلْجَـنَّةِ بابا يُدْعى الرَيّانُ لا يَدْخُلُ مِنْهُ اِلاَّ الصّـائِمُونَ”[12]، “جنت کا ایک دروازہ ہے جسے “ریّان” کہا جاتا ہے اس سے صرف روزہ دار داخل ہوں گے۔ (ریّان یعنی سیراب)
روزہ دار کی جنت میں مہمان نوازی
پیغمبر گرامی اسلام (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) نے فرمایا: “مَنْ مَنَعَهُ الصَّوْمُ مِنْ طَعامٍ يَشْتَهيهِ، كانَ حَـقّا عَـلَى اللّه أَنْ يُطْعِمَهُ مِنْ طَعامِ الْجَنَّةِ وَ يُسْقِيَهُ مِنْ شَرابِها”[13]، “جس شخص کو روزہ اس کے پسند کھانوں سے روکے، خدا پر لازم ہے کہ اسے جنتی کھانے کھلائے اور اسے جتنی شراب پلائے۔
نتیجہ: روزہ کے دنیا اور آخرت میں بہت سارے فائدے ہیں، اگر آخرت کے فائدوں کو مدنظر رکھ کر آدمی روزہ رکھے تو روزہ رکھنا آسان اور خوشگوار ہوجائے گا، روزہ دار کو دنیا اور آخرت میں خوشی نصیب ہوگی اور جہنم سے چھٹکارا ملے گا اور جنت میں داخل ہوگا اور یہ داخلہ بھی خاص دروازے سے ہوگا جس سے صرف روزہ دار ہی داخل ہوسکیں گے۔ نیز یہ بات بھی قابل غور ہے کہ جب روزہ دار بھوک اور پیاس محسوس کرتا ہے تو اس حالت میں جو تکلیف برداشت کرنی پڑتی ہے، اس تکلیف برداشت کرنے کے دوران جب قیامت کی بھوک اور پیاس اور اس کی لامحدود شدت اور رنج و الم کو یاد کرے گا تو فرائض الہی کو انجام دیتے ہوئے گناہوں سے پرہیز کرے گا تا کہ قیامت کے دن کی اُس بھوک اور پیاس سے نجات پاجائے جس کا دنیاوی بھوک اور پیاس سے موازنہ بھی نہیں کیاجاسکتا اور اس کی شدت کا تصور کرنا ناممکن ہے۔ یہ طریقہ کار ہماری زندگی میں بھی جاری رہتا ہے کہ ہم تھوڑی تکلیف کو برداشت کرتے ہیں بڑی تکلیف سے بچنے کے لئے، مثلاً انسان طبیب کی تجویز کے مطابق کھانے پینے میں کم مدت کے لئے کچھ پرہیز کرتا ہے تا کہ کچھ عرصہ کے بعد طبیب اس چیز کے کھانے پینے سے بالکل ہی تاحیات منع نہ کردے، لہذا جیسے انسان دنیاوی پرسکون زندگی بسر کرنے کے لئے کچھ چیزوں سے تھوڑے وقت کے لئے پرہیزکرتا ہے اسی طرح آخرت کی بھوک، پیاس اور عذاب سے بچنے کے لئے کھانے پینے اور دیگر مقرر کردہ کاموں سے پرہیز کرتا ہوا روزہ رکھے تاکہ آخرت کی پرسکون ابدی زندگی اور اللہ کی رحمت سے لبریز حیات پاسکے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[1] سورہ اسراء، آیت 13۔
[2] سورہ کہف: آیت 49۔
[3] سورہ زلزال، آیات 6 سے 8 تک۔
[4] سورہ انشقاق، آیات 7 سے 9 تک۔
[5] فروع كافى، ج 4، ص 62، ح 1۔
[6] میزان الحکمہ، ج2، ص1686۔
[7] وسائل الشيعه، ج 4، ص 4، ح 5. علل الشرايع، ص 10۔
[8] وسائل الشيعه، ج 7، ص 299، ح 2۔
[9] الكافى، ج 4، ص 162۔
[10] بحار الانوار، ج 93، ص 342۔
[11] مزید تفصیل ملاحظہ کیجئے: من لایحضر الفقیه، ج 1، ص 192، 295.
[12] وسائل الشيعه، ج 7، ص 295، ح 31. معانى الاخبار، ص 116۔
[13]  بحار الانوار، ج 93، ص 331۔

تبصرے
Loading...