رمضان ، عید اور اتحاد بین المسلمین

خلاصہ: مقالہ ھذا میں مسلمانوں میں بڑھتے ہوئے اختلافات و افتراقات جیسے ناسور کا جائزہ لیا گیا اور رمضان اور عید جیسے مبارک مہینہ اور تہوار کے ضمن میں اس کے حل کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔

عید کی حقیقت

مسلمانوں کے اتحاد و اتفاق کا شیرازہ اس وقت بکھرا ہوا ہے، وہ افتراق و انتشار کا شکار ہیں، معاشی طور پر دوسروں کے دست نگر ہیں، سیاسی طور پر محکوم ہیں، عسکری لحاظ سے پرانے اور فرسودہ حربی آلات پر قناعت کئے ہوئے ہیں، مذہبی نقطۂ نظر سے ٹولیوں اور جماعتوں میں بٹے ہوئے ہیں، بین الاقوامی سیاست میں ان کا وزن نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے، گاجر و مولی کی طرح انہیں کاٹا جا رہا ہے اور خدا کی وسیع سرزمین ان پرتنگ کی جا رہی ہے، ننھے معصوم بچوں کو نیزوں پر اچھالا جاتا ہے، بہنوں کے سروں سے دوپٹہ کھینچا جاتا ہے، مسلمان آبادی پر وہاں کے نفوس سے بھی زیادہ تعداد میں بم گرائے جاتے ہیں اور مسلمان صرف آہ و بکا اور چیخ و پکار کے سوا کچھ نہیں کرسکتے۔ اسی پر انتہا نہیں بلکہ اب دشمن قوتیں آپس میں اتحاد کر کے مسلمانوں پر آخری اور کاری ضرب لگانا چاہتی ہیں۔ وہ دیکھ رہی ہیں کہ مریض مضمحل، نڈھال اور جان بلب ہے، زخموں سے بدن چورچور ہے، نبض ڈوب رہی ہے، آنکھیں پتھرا رہی ہیں، جسم بےحس و بےحرکت ہے۔ یہ دیکھ کر گِدھ اس کے اردگرد منڈلا رہے ہیں اور کیڑوں کی طرح آس کے پاس جمع ہو رہی ہیں۔
اقوام و ملل کی تاریخ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے اندر جب تک اتحاد و اتفاق پایا جاتا رہا تب تک وہ فتح و نصرت اور کامیابی و کامرانی سے ہمکنار ہوتے رہے اور جیوں ہی انہوں نے اتحاد و اتفاق کے دامن کو چھوڑ کر اختلاف و انتشار پھیلانا شروع کیا تو ان کو سخت ترین شکست اور ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا نیز ساتھ ہی ساتھ اتحاد و اتفاق اور اجتماعیت کے فقدان کی وجہ سے ان قوموں کا نام صفحہ ہستی سے حرف غلط کی طرح مٹا دیا گیا۔ کسی بھی قوم وملت کے وجود کو برقرار رکھنے کیلئے سب سے ضروری اور اہم چیز، ان کی صفوں میں اتحاد و اتفاق کا پایا جانا ہے، اتحاد ایک زبردست طاقت و قوت اور ایسا ہتھیار ہے کہ اگر تمام مسلمان متحد ومتفق ہو جائیں تو کوئی دوسری قوم مسلمانوں سے مقابلہ تودورکی بات، آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھ سکتی۔

چنانچہ ارشاد خداوندی ہے، وَ لا تَكُونُوا كَالَّذينَ تَفَرَّقُوا وَ اخْتَلَفُوا مِنْ بَعْدِ ما جاءَهُمُ الْبَيِّناتُ وَ أُولئِكَ لَهُمْ عَذابٌ عَظيمٌاور خبردار ان لوگوں کی طرح نہ ہوجائو کہ جنهوں نے تفرقہ ایجاد کیا اور واضح نشانیوں کے آجانے کے بعد بھی اختلاف کیا، ان کے لئے عذاب عظیم ہے. [1]
اس آیت میں خداوند عالم مسلمانوں کو حکم دے رہا ہے کہ ان لوگوں کی طرح نہ ہو جائو جنھوں نے اپنے دین کو فرقہ فرقہ میں بانٹ دیا، اس سے مراد یہودی اور عیسائی ہیں[2]آپس میں اختلاف کرانا یہودیوں اور عیسائیوں کا پرانا طریقہ ہے کہ یہودی، جناب موسی کے بعد ۷۱ فرقوں میں ہوگئے اور عیسائی، جناب عیسی کے بعد ۷۲ میں، قیامت یہ ہے کہ مسلمان اتنی ہدایت کے باوجود ۷۳ فرقوں میں تقسیم ہوگئے، تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ جن اسباب کی بناء پر یہودیوں پر عالمگیر تباہی کے سائے مسلط کردیئے گئے تھے اگر وہی اسباب امت مسلمہ میں جمع ہوگئے تو پھر یہ بات یقینی ہے کہ ویسی ہی بلکہ اس سے بھی بڑھ کر تباہی امت مسلمہ کا مقدر بن سکتی ہے۔
حقیقت امر یہ ہے کہ دور حاضر میں یہود و نصاری اپنے مذہب کے  کلی اختلافات کے باوجود متحد ہیں لیکن مسلمان اپنے مذہب کے کلی مشترکات کے باوجود متفرق ہیں۔
اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے جس نے اتحاد و اتفاق اور اجتماعیت کا مثبت تصور امت مسلمہ کے سامنے پیش کیا اور مسلمانوں کے باہمی اتحاد و اتفاق پر ہمیشہ زور دیا ہے یہی وجہ ہے کہ دوسری قوموں اور مذاہب کے ماننے والوں کے مقابلہ میں مسلمانوں کے اندر کافی حد تک اتحاد و اتفاق کا جذبہ کار فرما نظر آتا ہے اور یہ حقیقت بھی ہے کہ امت مسلمہ کے اندر اتحاد و اتفاق اوراجتماعیت کے جذبہ کو بڑھانے کیلئے اسلامی عبادات خاص طور پر نماز کیلئے جماعت کی تاکید کی گئی اور جمعہ و عیدین میں مسلمانوں کے اجتماع کا خاص اہتمام کیا گیا تاکہ ملت اسلامیہ کا باہمی اتحاد و اتفاق اور مرکزیت قائم رہے۔اگر تاریخ ادیان کا بغور مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ مسلمانوں کے اتحاد کے لئے بہت سے محور موجود ہیں جیسے وحدانیت خدا، رسالت، کعبہ، قبلہ اور  انھیں میں ایک ماہ مبارک رمضان کا مہینہ اور اسمیں مناسبتیں اور اسکے بعد عید سعید فطر کا وجود ہے جن پر تمام مسلمان متحد ہوسکتے ہیں۔
تمام مسلمان، سال کے نویں مہینہ میں روزہ رکھتے ہیں، روزہ کی ابتداء بھی اذان صبح سے ہوتی ہے اور انتہا بھی مغرب کی اذان تک ہوتی ہے، دونوں فرقوں میں اس ماہ مبارک میں قرآن کو پڑھنے کا اور اسے ختم کرنے کا بڑے جوش و خروش  کے ساتھ اہتمام کیا جاتا ہے، یہاں تک کہ اس مہینہ کی آخری دس راتوں میں عبادت خدا کا ہر مسجد میں ایک خاص اہتمام شب قدر کے عنوان سے کرتے ہیں، دونوں اس بات کے قائل ہیں کہ شب قدر ماہ مبارک رمضان میں ہے اور اسی مہینہ اور اسی شب (شب قدر) میں قرآن کریم نازل کیا گیا، شب قدر ماہ مبارک کی آخری راتوں میں ہے، اس پر بھی کافی احادیث رکھتے ہیں۔ اب اس سے بڑا اتحاد کا کیا ثبوت ہوگا کہ ابتدا سے انتہا تک اتحاد ہی اتحاد کا سبق مسلمانوں کو مل رہا ہے۔اسکے باوجود اس مہینہ کے اختتام پر جس دن کی ابتدا ہوتی ہے اسے عید کا نام دیا جاتا ہے، جسے عید فطر کہتے ہیں تمام مسلمان اسے بڑے جوش و خروش کے ساتھ مناتے ہیں، ایک دوسرے کے گلے لگتے ہیں مبارکبادی دیتے ہیں۔ اس دن نماز عید بجالاتے ہیں اور نماز کے عالم میں یا نماز کے بعد سبھی یہ دعا کرتے ہیں”۔۔۔۔أَسْأَلُكَ بِحَقّ ِهَذَاالْيَوْمِ الَّذِي جَعَلْتَهُ لِلْمُسْلِمِينَ عِيدا[3]۔۔۔۔۔اس میں بھی کسی خاص فرقہ یا مذہب کا نام نہیں لیا جاتا بلکہ مسلمان کی عید کے عنوان سے اس دن کو یاد کیا جاتا ہے تاکہ آپس کی بھائی چارگی بنی رہے۔
اسی چیز کو دیکھتے ہوئے مقام معظم رہبری فرماتے ہیں:
شاید عید سعید فطر کی سب سے نمایاں خصوصیت یہ ہو کہ یہ ایک معنوی اور بین الاقوامی تقریب ہے۔ اس بین الاقوامی تہوار کا بڑا ہی نمایاں اور خصوصی معنوی پہلو ہے۔ عید فطر کی نماز کے قنوت میں ہم پڑھتے ہیں کہ “أَسْأَلُك َبِحَقِّ هَذَاالْيَوْمِ الَّذِي جَعَلْتَهُ لِلْمُسْلِمِينَ عِيداً وَ لِمُحَمَّدٍص ذُخْراً۔۔۔وَمَزِيدا“[4] تمام مسلمانوں کی عید، اسلام اور پیغمبر اسلام کے لیے باعث شرف، اسلام کا وقار اور پوری تاریخ میں کبھی نہ ختم ہونے والا ذخیرہ ہے۔ اس نظریے سے عید سعید فطر کو دیکھنا چاہیے۔ آج ہماری عظیم مسلمان قوم کو اس ذخیرے کی ضرورت ہے۔ اس ذخیرے میں سے مسلمانوں کو دو چیزوں سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے؛ اول باہمی اتحاد اور قربت اور دوسرے عالم اسلام میں معنویت پر توجہ۔ عالم اسلام میں کمال اور ترقی تک پہنچانے والے ان دونوں عناصر کے سلسلے میں بے توجہی پائي جاتی ہے[5]۔
مگر افسوس کا مقام ہے جس قوم و مذہب میں اتنے اشتراکات ہوں وہ آپس میں اتنی متفرق ہو کہ ایک دوسرے کے خون کی پیاسی ہوں، اگر یہود و نصاری کی تاریخ ادیان اٹھا کردیکھیں تو آپس کے عقائد،  اعمال  اور مناسبتوں میں زمین آسمان کا فرق نظر آئے گا مگر وہ لوگ جان چکے ہیں کہ اختلاف کے بدلے میں خون، بےچارگی، غریبی اور فقیری ہی مل سکتی ہے، ترقی اور کامیابی نہیں لیکن افسوس یہ مسلمان کہ جن کے عقائد، اعمال اور مناسبتوں میں کوئی فرق نہیں ہے، فرق ہے تو جزوی ، مگر جزوی فرق کو کوئی لڑائی جھگڑے کے لئے دلیل بناکر ایک دوسرے کو نابود کرے کہاں کی عقل مندی ہے، عجیب بات تو یہ ہے جس قرآن کو تمام مسلمان مانتے ہیں اسمیں جگہ جگہ پر اتحاد کی دعوت دی جارہی ہے مگر یہ مسلمان ہے جو آپس میں لڑ کر اپنا رعب و دبدبہ ختم کر رہے ہیں۔ [6]

 

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ جات
[1] آل عمران /۱۰۵۔
[2]مجمع البیان ج۴،  ص۱۹۴۔ طبرسى فضل بن حسن، انتشارات فراهانى‏، تهران‏، 1360 ش‏،چاپ اول‏،بتحقيق رضا ستوده‏۔
[3] مستدرک الوسائل، ج6، ص142، باب استحباب الدعاء بین التکبیر، ميرزا حسين نورى، انتشارات مؤسسه آل البيت لإحياء التراث، قم‏،  1408 هجرى‏، چاپ اول‏۔
[4]مستدرک الوسائل، ج6، ص142، باب استحباب الدعاء بین التکبیر، ميرزا حسين نورى، انتشارات مؤسسه آل البيت لإحياء التراث، قم‏،  1408 هجرى‏، چاپ اول‏۔
[5]حکام کے ساتھ ملاقات میں تقریر کا ایک حصہ2000/12/27
[6]سورہ مائدہ/ ۳.، الحجرات/ ۱۰.الفتح/29۔آل عمران/۱۰۳۔انفال/46۔انعام/۱۰۸. المجادلہ/10۔الحجرات/11۔الحجرات/12۔

تبصرے
Loading...