رسول اسلام (ص)کی نگاہ میں داعش

رسول اسلام کی نگاہ میں داعش

گزشتہ چند دنوں کے مختلف حملوں میں داعش نے تیونس کے ایک تفریحی مقام پر ۳۹ سیاح جبکہ کویت میں واقع ایک شیعہ مسجد میں قریباً ۳۰ نمازیوں کو ہلاک کر دیا۔یہ حملے داعش کی طرف سے اس اعلان کے بعد عمل میں آئے، جس میں اس نے اپنے ہمددر عسکریت پسندجنگجوؤں کو رمضان کے مہینے میں اپنے آپریشن کو وسعت دینے کو کہا تھا۔

داعش نے ہمیشہ ہر اس کو اپنی راہ سے ہٹانےکے لئے پختہ عزم کا اظہار کیا ہے جو اس کی بربریت اور نظریے سے اختلاف رکھتا ہے۔ داعش کے اراکین نے یزیدیوں اور عیسائیوں کو تو ذبح کیا لیکن ان کے متاثرین کی اکثریت اب بھی مسلمانوں پر مشتمل ہے جنہوں نے اس کی خلاف مزاحمت کی اور اس کی حاکمیت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔یہاں تک کہ وہ سنی علما ٫ جنہوں نے اس کی بیعت کرنے سے انکار کیا اور وہ مسلمان عورتیں جنہوں نے اس کے نظریے سے اتفاق نہ کیا،ان کو بھی پھانسی دی گئی۔

یہ خصوصیت اسلام کے نام پر کام کرنے والے تمام دہشت گرد گروپوں میں دنیا بھر میں مشترک ہے۔طالبان کا نشانہ بننے والوں کی بڑی تعداد ، مثال کے طور پر،مسلمانوں کی ہی ہے۔سینکڑوں شیعہ صرف گزشتہ چند سالوں میں شہید ہو چکے ہیں۔

لہٰذا جب کچھ اسلام مخالف ناقدین ڈھٹائی سے ان جلادوں اور ظالموں کی کاروائیوں کو مسلمانوں کے عقیدے سے منسوب کرتے ہیں تو ہم مجبوراً اسے ان کی بے حسی سمجھتے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ “داعش” علاقائی اور عالمی خفیہ اداروں کی پیداوار ہے، انہوں نے ہی اس کی قیادت کا انتظام کیا ہے، جو انہی کی سیاست و تعلیمات کے مطابق اس تنظیم کو چلا رہا ہے، نیز اس کیلئے تکفیری اور جہادی دھڑے بندیوں کے سربراہان، قیادت، اور افکار کو استعمال کرتے ہیں، مزید بر آں یہ بھی ہے کہ کم عقل اور بیوقوف لوگوں کو اپنے ساتھ ملاتے ہیں، نو عمر، اچھے برے کی تمیز سے عاری نوجوان ہی ان کی بھڑکائی ہوئی آگ کا ایندھن بنتے ہیں۔

رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  سے روایت ہے کہ آپ نے ان لوگوں کی شناخت کے بارے میں یہ فرمایا کہ: وَ إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ص يَقُولُ سَيَخْرُجُ‏ قَوْمٌ‏ فِي‏ آخِرِ الزَّمَانِ حُدَّاثُ الْأَسْنَانِ سُفَهَاءُ الْأَحْلَامِ يَقُولُونَ مِنْ قَوْلِ خَيْرِ الْبَرِيَّةِ لَا يُجَاوِزُ إِيمَانُهُمْ حَنَاجِرَهُمْ يَمْرُقُونَ مِنَ الدِّينِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ فَأَيْنَمَا لَقِيتُمُوهُمْ فَاقْتُلُوهُمْ فَإِنَّ فِي قَتْلِهِمْ أَجْراً لِمَنْ قَتَلَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَة۔[1]

عنقریب آخری زمانے میں ایسی قوم ظاہر ہوگی جو کم سن و کم عقل ہوں گے۔ سب سے بہترین کلام سے بات کریں گے (یعنی قرآن و حدیث کی)۔ قرآن پڑھیں گے لیکن وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔ دین سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر ہدف (شکار) سے نکل جاتا ہے ۔ اگر تم انہیں پاؤ تو قتل کردو کیونکہ ان کے قتل کرنے پر بروز قیامت اجر ہے اس شخص کے لئے جو انہیں قتل کرے۔

اگر بغور جائزہ لیا جائے تو آپ (ص) نے جتنی صفات، مذکورہ حدیث میں بیان فرمائی ہیں وہ تمام صفات، داعش  نامراد میں موجود ہیں گویا پیغمبر اسلام (ص) ایسے لوگوں کو مسلمان تو درکنار انسان بھی نہیں سمجھتے بلکہ یہ اسلام کے لئے ناسور ہیں  جو اسلام کے نام پر اسلام کی توہین کررہے ہیں اسی لئےپیغمبر اسلام نے فرمایا ایسے ظالموں کو جہاں دیکھو اسے وہیں قتل کردو، اور قتل کرنے والے کو آخرت میں جزا دی جائے گی۔

حوالہ جات
[1] بحار الانوار، ج33، ص331۔ و کشف الغمہ فی معرفۃ الائمہ، ج1، ص130۔

تبصرے
Loading...