حلیمه سعدیه

خلاصہ: رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی رضائی ماں کہ جس نے آپ کو دودھ پلایا اور پھر اس دودھ پلانے سے برکات کا بھی مشاھدہ کیا اس ماں کو حلیمہ سعدیہ کہتے ہیں ۔

حلیمه سعدیه

حلیمہ سعدیہ کے والد گرامی کا نام ابو ذُؤَیب عبداللّه ابن حارث ابن شِجْنَه سَعدی تھا کہ جس کا تعلق قبیلہ سعد ابن بکر ابن ہوازن سے تھا ۔[۱]
حلیمہ سعدیہ کے شوہر کا نام حارث ابن عبدالعُزّی تھا اور ان کی کنیت ابوکبشه تھا اور یہی وجہ تھی کہ کچھ لوگ رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو ابن ابی کبشہ کہتے تھے ۔[۲]
حلیمہ سعدیہ سے پہلے کچھ دن ابو لہب کی ایک کنیز کہ جس کا نام ثُوَیبه تھا اس نے بھی دودھ پلایا ۔[۳]
حلیمہ سعدیہ روایت نقل کرتی ہیں کہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) بچپن ہی میں خود کو قبیلہ بنی سعد ابن بکر ابن ہوزان میں فصیح ترین مرد سمجھتے تھے ۔[۴]
اس بات کی طرف بھی اشارہ کرنا ضروری ہے کہ اس دور میں اہل مکہ اپنے بچوں کو دائیوں کے سپرد کیا کرتے تھے اور ادھر قبیلہ بنی سعد بھی مشکلات میں گزر رہا تھا تنگدستی کی وجہ سے اس قبیلہ کی ۹ خواتین دودھ پلانے کی خاطر مکہ کی طرف روانہ ہوئیں تاکہ اس کام کے ذریعے اپنا ذریعہ معاش ٹھیک کر سکیں اور قحطی اور ناتوانی کی وجہ سے حلیمہ سعدیہ کی سواری بہت لاغر اور کمزور تھی باقی  ۸ خواتین مکہ پہنچ گئی اور سب سے آخر میں حلیمہ سعدیہ پہنچی تو جب یہ پہنچی تو کوئی بچہ نہیں بچہ تھا سوائے عبدالمطلب کا پوتہ کیونکہ یہ بچہ یتیم تھا تو اسکی طرف کوئی نہیں بڑھا حلیمہ سعدیہ کو جب یہ معلوم ہوا تو کہا کہ میں حاضر ہوں اسے دودھ پلانے کے لیے ۔[۵] 
حلیمہ سعدیہ کا کہنا ہے کہ جیسے ہی میں نے اس بچے کو قبول کیا تو بہت عجیب و غریب چیزوں کا مشاہدہ کیا اور اس کے ساتھ ساتھ میری زندگی خیر و برکت سے بھر گئی چند دن کےاندر ہی مجھے یقین ہو گیا کہ میری زندگی کے بدلنے میں سارا کردار اس بنی ہاشم کے بچے کا ہے اسی کے آنے سے مجھے چار چاند لگ گئے ہیں ۔[۶]
معمول کے مطابق جیسے ہی ۲ سال پورے ہوئے تو بچے کو لے کر حضرت آمنہ بنت وہب کے پاس آئی اور کہا کہ وقت تو پورا ہو گیا ہے لیکن میں نے جو برکات دیکھی ہیں آپ سے التماس کرتی ہوں کہ کچھ دن کے لیے اور مجھے یہ بچہ دے دیں ادھر حضرت آمنہ بھی شدید مریض تھیں تو انہوں نے دوبارہ کچھ عرصے  کے لیے بچہ دے دیا ۔[۷]
ایک واقعہ کہ جو معروف ہے شق صدر کے نام سے کہ فرشتے آئے اور انہوں نے رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے دل کو غسل دیا اور اس ماجرے نے حلیمہ سعدیہ کو  بہت نگران کر دیا۔[۸]
حلیمہ سعدیہ نے اس دور کا جو بڑا کاہن تھا اس کے پاس گئی اور یہ ماجرا نقل کیا تو اس نے کہا کہ یہ بچہ لوگوں کے دین کو بدل دے گا۔[۹]
علماء اور محققین نے مختلف دلائل کے ساتھ بیان کیا ہے کہ یہ واقعہ یا اس طرح کی داستانیں رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)  کے بارے میں بنائی گئی ہیں ۔[۱۰]
رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) ۴ یا ۵ سال قبیلہ بنی سعد کے پاس رہے اور پھر حلیمہ سعدیہ نے انہیں واپس اپنے دادا عبدالمطلب کے سپرد کر دیا ۔[۱۱]
حلیمہ سعدیہ کو جب خبر ملی کہ رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے اسلام کی دعوت دی ہے تو اپنے شوہر کے ساتھ آئی اور اسلام قبول کر لیا ۔[۱۲]
رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) حلیمہ سعدیہ کا بہت احترام کرتے تھے ایک دن حلیمہ سعدیہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے پاس آئی اور اپنی مشکلات کو بیان کیا رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے حضرت خدیجہ سے کہا کہ انہیں کچھ بکریاں اور اونٹ دے دیں اس کے علاوہ جب بھی وہ آپ سے ملنے آتی تو آپ اپنی عبا بچھاتے اور اس پر بٹھاتے ۔[۱۳]  جنگ حنین کے بعد رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے حلیمہ سعدیہ کے احترام میں سارا مال غنیمت انہیں بخش دیا اور اصحاب نے بھی یہ دیکھتے ہوئے اپنا اپنا مال انہیں دے دیا ۔[۱۴]
ایک روایت کے مطابق فتح مکہ سے پہلے انتقال کر گئیں اور فتح مکہ کے بعد رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی رضائی بہن شَیماء نے انہیں اطلاع دی ۔[۱۵]
لیکن دوسری روایت یہ بتاتی ہے کہ غزوه حنین کے بعد جِعِرّانه کے مقام پر رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے ملنے آئی ہیں۔[۱۶][۱۷]
ایک اور روایت کہ جو یہ بتاتی ہے کہ حلیمہ سعدیہ نے ابوبکر اور عمر کی خلافت کو بھی درک کیا ہے ۔[۱۸]
قبرستان بقیع میں مشرق کی طرف ایک گنبد تھا کہ جو معروف تھا حلیمہ سعدیہ کے نام سے اور جہاں تک بات ہے وفات کی تو حقیقی تاریخ کسی نے بھی نقل نہیں کی ہے ۔[۱۹] بس اتنا ملتا ہے کہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے ان کی موت کو یاد کر کے آنسو بہائے ۔[۲۰]
ابن بطوطه نے حلیمہ سعدیہ کی قبر کو بصرہ میں لکھا ہے کہ انہوں نے بصرہ سفر کیا اور وہی انتقال کر گئیں [۲۱]ایک روایت یہ کہتی ہے کہ عثمان ابن عفان اور حلیمہ سعدیہ کی قبر کی طرف ایک ہی راستہ جاتا تھا ۔[۲۲] اور حلیمہ سعدیہ کی قبر کا گنبد معلوم تھا اور ایک لکڑی کی ضریح بھی بنی ہوئی تھی ۔[۲۳] صدر شیرازی جب ۱۳۰۵ق میں حج کے لیے جاتے ہیں تو کہتے ہیں میں نے حلیمہ سعدیہ کی قبر کے گنبد پر ترکی زبان میں دو شعر لکھے ہیں لیکن افسوس کہ انہدام بقیع کے بعد کچھ بھی باقی نہیں رہا۔[۲۴]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالے جات:
۱۔ ابن‌اسحاق، ص ۲۵؛ ابن‌سعد، ج ۱، ص ۱۱۰؛ قس ابن‌حبیب، ص ۱۳۰؛ بلاذری، ج ۱، ص:۱۰۶ حارث‌بن عبداللّه‌بن شِجْنه
۲۔ ابن‌حبیب، ص ۱۲۹۱۳۰؛ بلاذری، ج ۱، ص ۱۰۴
۳۔ طبری، ج ۲، ص ۱۵۸؛ ابن‌جوزی، ج ۲، ص ۲۶۰۲۶۱
۴۔ ابن‌هشام، ج ۱، ص ۱۷۶؛ ابن‌سعد، ج ۱، ص ۱۱۳؛ ابن‌قتیبه، ص ۱۳۲
۵۔ ابن‌اسحاق، ص ۲۶؛ ابن‌سعد، ج ۱، ص۱۱۰ ۱۱۱؛ بلاذری، ج ۱، ص ۱۰۶۱۰۷؛ طبری، ج ۲، ص ۱۵۸ ۱۵۹؛ ابن‌جوزی، ج ۲، ص ۲۶۱
۶۔ ابن هشام، ج ۱، ص ۱۷۲۱۷۳؛ ابن‌سعد، ج ۱، ص ۱۱۱،۱۵۱؛ بلاذری، ج ۱، ص ۱۰۷؛ طبری، ج ۲، ص ۱۵۹
۷۔ ابن اسحاق، ص ۲۷؛ ابن‌هشام، ج۱، ص۱۷۳؛ طبری، ج۲، ص۱۵۹۱۶۰؛ ابن‌جوزی، ج ۲، ص ۲۶۲۲۶۳
۸۔ ابن‌اسحاق، ص ۲۷؛ ابن‌هشام، ج۱، ص ۱۷۳۱۷۴؛ ابن‌سعد، ج ۱، ص ۱۱۲؛ یعقوبی، ج ۲، ص ۱۰
۹۔ طبری، ج ۲، ص ۱۶۳؛ ابن‌جوزی، ج۲، ص۲۶۷؛ ابن‌اثیر، ۱۳۹۹۱۴۰۲، ج ۱، ص۴۶۴ ۴۶۵
۱۰۔ ابوریه، ص ۱۸۷۱۸۸؛ حسنی، ص۴۶؛ عاملی، ج۲، ص۱۶۷۱۷۲
۱۱۔ یعقوبی، ج ۲، ص ۱۰؛ ابن‌قتیبه، ص۱۳۲؛ بلاذری، ج ۱، ص ۱۰۷؛ مسعودی، تنبیه، ص ۲۲۹۲۳۰
۱۲۔ ابن‌جوزی، ج ۲، ص ۲۷۰
۱۳۔ ابن‌جوزی، ج ۲، ص ۲۷۰؛ذهبی، ص ۴۸
۱۴۔ یعقوبی، ج ۲، ص ۶۳؛ مسعودی، تنبیه، ص ۲۲۹؛ ابن‌سعد، ج ۱، ص ۱۱۴۱۱۵
۱۵۔ ابن‌اثیر، ۱۳۹۹۱۴۰۲، ج ۱، ص ۴۶۰
۱۶۔ ابن‌اثیر، ۱۹۷۰۱۹۷۳، ج ۷، ص ۶۹
۱۷۔ قس یعقوبی، ج ۲، ص ۶۳
۱۸۔ ابن‌سعد، ج ۱، ص ۱۱۴
۱۹۔ قاضی عیاض، ج۲، ص۱۱۵.
۲۰۔ مقریزی، ج۲، ص۶.
۲۱۔ ورثیلانی، ج۲، ص۵۳۹؛ جعفر خلیلی، ج۳، ص۲۸۲؛ جعفریان، ج۵، ص۴۷۸.
۲۲۔ جعفریان، ج۵، ص۴۷۸-۴۷۹.
۲۳۔ جعفریان، ج۵، ص۲۴۲.
۲۴۔ جعفریان، ج۵، ص۴۷۹.

تبصرے
Loading...