حق و باطل کی جنگ 2

اور یہیں سے یہ حقیقت بھی واضح ہوتی ہے کہ عمر سعد کی عبادت اور زُہدوتقوی بھی نہایت سطحی اور اساس وبنیاد سے خالی تھی کیونکہ اگر عبادت وزُہد کی حقیقت انسان کی جان وروح میں جڑیں پیدا کر لے تو اُسے اس طرح متحول کرتے ہوئے معنوی اور اخلاقی آزادی کی ایسی منزل پر پہنچاتی ہے کہ پھر انسان نہ ہی منصب واقتدار کا اسیر ہوتا ہے اور نہ ہی ایسی کوئی اور چیز انسان کو دھوکا دے سکتی ہے۔

عبیداللہ بن زیاد نے عمر بن سعد کو شہر ری کی حکومت دی اور وہ اقتدار اور منصب سنبھالنے کی خاطر اپنی ریاست کی طرف جانے کو تیار تھا کہ امام حسین کربلا کی سرزمین پر پہنچ گئے، عبیداللہ بن زیاد نے عمر سعد کو بلایا اور کہا: ”پہلے حسین بن علی ؑ کی طرف کربلا جاؤ اور یہ کام کرنے کے بعدحکمرانی کیلئے شہر رَی چلے جانا”۔

عمر بن سعد حیران ہو گیا، اُس کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ اُسے امام حسین ؑ کے ساتھ جنگ اور آپؑ کی تحریک کو کچلنے کیلئے بھیجا جائے گا، اُس کی نظر میں نواسہ رسول ؐ کے ساتھ جنگ کرنا جائز نہیں تھا اسی لیے عبیداللہ بن زیاد کی طرف رُخ کیا اور اپنے آپ کو اس کام کی انجام دہی سے معذور قرار دیا ۔

عبیداللہ بن زیاد نے عمر بن سعد سے کہا: ”اگر تم یہ کام نہیں کرتے تو رَی کی حکومت کا پرمٹ واپس کر دو”(٢)۔

عمر بن سعد کچھ لمحوں کیلئے سوچنے لگا، وہ رَی جیسی حکومت کو اپنے ہاتھوں سے جانے نہیں دینا چاہتا تھا، اور نہ ہی امام حسین ؑ کے ساتھ جنگ کرنا چاہتا تھا، لہذا اُس نے عبیداللہ سے کہا: ”مجھے آج کے دن کی مہلت دو تا کہ اپنے خیرخواہوں سے مشورہ کروں اور پھر کوئی فیصلہ کروں”۔

شاید عبیداللہ بن زیاد بھی عمر بن سعد کی کمزوری سے واقف تھا کہ وہ اقتدار اور منصب کے حصول کا دلدادہ ہے لہذا اُس نے فورا مہلت دے دی، عمر سعد کے سب خیرخواہوں نے اُسے امام حسین کے ساتھ جنگ سے منع کیا، چنانچہ عمر سعد کے بھتیجے نے اُس سے کہا: میں تجھے خدا کی قسم دیتا ہوں کہ حسین بن علی ؑ کے مقابلے میں نہ آؤ، کیونکہ اگر دنیاوی مال وثروت اور سلطنت وحکومت سے ہاتھ کھینچ لینا، حسین ؑ کے خون میں رنگین ہاتھوں کے ساتھ خدا سے ملاقات کرنے سے بہتر ہے”۔

عمر بن سعد نے وہ رات سوچ وبوچھار میں بسر کی اور اپنے آپ سے کہنے لگا:” کیا میں رَی کی حکومت کو ہاتھ سے جانے دوں جو کہ میری دیرینہ خواہش ہے یا فرزندِ فاطمہ کا خون بہاؤں؟ حسین کا خون بہانے کا انجام جہنم کی آگ ہے، لیکن رَی کی حکومت کو کیسے چھوڑ دوں کہ جو میرا نورِ نظر ہے؟!” ۔

جب صبح ہوئی تو وہ عبداللہ بن زیاد کے پاس گیا اور کہنے لگا:کوفہ کے دوسرے بزرگوں میں سے کچھ لوگوں کو امام حسین ؑ کے ساتھ جنگ کیلئے روانہ کر دو، عبیداللہ نے عمر بن سعد کی اس تجویز کو ردّ کرتے ہوئے کہا: ”مجھے دوسرے لوگوں کے بارے میں تمہارے مشورہ کی ضرورت نہیں ہے، یا میرے لشکر کی سرپرستی کرتے ہوئے کربلا جاؤ اور یا رَی کی حکومت کے آڈر واپس کر دو”(٣)۔

عمر بن سعد نے منصب واقتدار کے حصول کی خاطر عبیداللہ کی بات کو قبول کر لیا اور چار ہزار افراد پر مشتمل لشکر کی سرپرستی کرتے ہوئے کربلا کی طرف چلا تا کہ اس ذمہ داری کو ادا کرنے کے بعدرَی کی حکومت حاصل کرے۔ کربلا میں پہنچنے کے بعد اُس نے ہرممکن کوشش کی کہ امام حسین ؑ کے ساتھ جنگ نہ ہو تا کہ خود قتلِ حسین ؑ میں شریک ہونے سے بچ سکے، اُس نے امام کے پاس ایک وفد بھیجا اور کربلا میں آپؑ کی آمد کا سبب دریافت کیا، امام حسین ؑ نے عمر بن سعد کے وفد کے جواب میں کوفیوں کے خطوط کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا: اگر کوفی میری دعوت سے پشیمان ہیں اور کوفہ میں میری آمد کو اچھا نہیں سمجھتے تو میں واپس پلٹ جاتا ہوں۔

جاری . . . . .

منابع
(١) فرھنگ عاشورا، جواد محدثی، نشر معروف:ص٣٥٣
(٢) نفس المھموم:ص٢٦١
(٣) حوالہ سابق

 

تبصرے
Loading...