حق و باطل کی جنگ 1

چکیده: اسلام کے سیاسی نظام میں ”منصب” اور ”اقتدار” کا حصول صرف ایک وسیلہ ہے ، اوراس کا اصل مقصد لوگوں کی فلاح و بہبود اور ان کی خدمت کرنا ہے؛ لہذا اسلام کے سیاسی نظام میں یہ چیز قابلِ قبول نہیں ہے کہ انسان کسی منصب کا حصول ہی اپنا مقصد بنا لے کیونکہ کسی منصب کے حصول کو اپنا مقصد بنانا گویا تمام انحرافات اور غلطیوں کے راستہ پر چلنا ہے .
عمر بن سعد ایسے ہی ایک کردار کا نام ہے کہ جس نے منصب ، اقتدار اور کرسی کے لالچ میں اپنی دنیا وآخرت کو تباہ وبرباد کر ڈالا.

حق و باطل کی جنگ 1

واقعہ کربلا کے حق وباطل کے درمیان مقابلہ میں کچھ ایسے عناصر بھی دکھائی دیتے ہیں جنہوں نے منصب، اقتدار اور کرسی کے حصول کو مقصد بنا تے ہوئے اپنے تمام سابقہ درخشان اسلامی کارناموں کو شیطانی خواہشات کے گڑے میں دفن کر دیا، وہ اقتدار اور منصب کے حصول کی لالچ میں باطل کے ساتھ جا ملے اور اپنے ہاتھوں کو حضرت امام حسین ؑ جیسی عظیم شخصیت کے خون سے رنگین کر لیا۔1

عمر بن سعد ایسے ہی ایک کردار کا نام ہے کہ جس نے منصب ، اقتدار اور کرسی کے لالچ میں اپنی دنیا وآخرت کو تباہ وبرباد کر ڈالا، وہ رسول خدا کے ایک عظیم صحابی سعد بن ابی وقاص کا بیٹا ہے جس نے صدر اسلام کی بعض جنگوں میں شرکت بھی کی تھی۔ سعد بن ابی وقاص لشکر اسلام کے سرداروں میں سے ایک تھے، عمر سعد اپنی خاندانی عظمت کی بنا پر بھی مشہور تھا اور خود بھی عبادت گزار اور زاھد تھا اور لوگوں کے درمیان بااعتماد شخص شمار ہوتا تھا، کربلا سے پہلے تک اُس کا کوئی منفی کردار دکھائی نہیں دیتا۔2

لیکن اس تمام عظمت کے باوجود عمر بن سعد کی کمزوری صرف یہ تھی کہ وہ منصب اور اقتدار کا فریفتہ اور دلدادہ تھا، اور اسی کمزوری کے سامنے متزلزل ہو جاتا۔ اس بات کو کوئی شک نہیں ہے کہ یہ کمزوری دینی فہم وادراک میں کمی اور اخلاقی پرورش میں کوتاہی کی بنا پر تھی، وہ بھی بہت سے دوسرے افراد کی طرح اخلاقی فضائل ورذائل کی شناخت اور معنوی رشد وکمال کی راہ میں حائل رکاوٹوں کے ساتھ مقابلے کے طریقہ سے غافل تھا اور اسی غفلت کی بنا پر اپنے دین اور دل پر کنٹرول نہ رکھ سکا اور بنی امیہ کی طرف سے منصب واقتدار کے تحفہ کے مقابلے میں ثابت قدم نہ رہ سکا۔3

جاری . . . . . . .

منابع
1. زیارت عاشورا. و فرھنگ زیارت عاشورا
2. صحیفه نور،ج 20،ص 195.
3.تاریخ طبری،ج 4،ص 304.

 

تبصرے
Loading...