حضرت زینب (سلام اللہ علیہا) کے خطبہ کوفہ کا منظر اور ماحول

خلاصہ: حضرت زینب کبری (سلام اللہ علیہا) نے کوفہ میں جو خطبہ دیا اس خطبہ کے منظر اور ماحول سے کئی اہم نکات ماخوذ ہوتے ہیں۔

حضرت زینب (سلام اللہ علیہا) کے خطبہ کوفہ کا منظر اور ماحول

بسم اللہ الرحمن الرحیم

امیرالمومنین (علیہ السلام) کی باعظمت بیٹی عقیلہ بنی ہاشم حضرت زینب کبری(سلام اللہ علیہا) نے کوفہ کے لوگوں کے سامنے جو خطبہ ارشاد فرمایا اس خطبہ کا راوی بحارالانوار[1] اور لہوف[2] کی نقل کے مطابق بشير ابن خزيم أسدی ہے اور احتجاج طبرسی[3] کے مطابق حذيم ابن شريك اسدی ہے۔ راوی کا کہنا ہے کہ میں نے اُس دن زینب بنت علی (علیہ السلام) کو خطبہ دیتے ہوئے دیکھا اور اللہ کی قسم میں نے ہرگز کوئی باحیا خاتون ان سے بہتر خطاب کرنے والی نہیں دیکھی اور گویا وہ حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) کی زبان سے بول رہی تھیں۔ اور آپ (سلام اللہ علیہا) نے لوگوں کو اشارہ کیا کہ خاموش ہوجاو تو سانسیں سینوں میں دب گئیں اور جرس کارواں کی آوازیں خاموش ہو گئیں۔
حضرت زینب کبری (سلام اللہ علیہا) کے کوفہ میں خطبہ کے ماحول، کیفیت اور صورتحال سے کئی اہم نکات سمجھ میں آتے ہیں، ان میں سے بعض مندرجہ ذیل ہیں:
۱۔ حضرت زینب کبری (سلام اللہ علیہا) نے کسی عام سی جگہ پر خطبہ نہیں دیا، بلکہ اس شہر کے بازار میں خطبہ دیا جو دشمن یعنی ابن زیاد کی حکومت کا مرکز ہے، ایسا خطبہ جو دشمن اپنی حکومت کے مرکز میں ہی حقارت اور ذلت کا شکار ہوگیا اور اس کے حامیوں کے لئے اس کی شکست واضح ہوگئی۔
۲۔ حضرت زینب عالیہ (سلام اللہ علیہا) نے ایسے ماحول میں خطبہ دیا کہ ایسا نہیں تھا کہ کچھ لوگ سامنے بیٹھے ہوں اور آپ (سلام اللہ علیہا) نے خطبہ دیدیا ہو اور انہوں نے سن لیا ہو، بلکہ وہاں کی صورتحال یہ تھی کہ  دشمن کے کچھ نیزہ داروں  نے ان قیدی حضرات کے آس پاس گھیرا ڈالا ہوا تھا، موجودہ لوگ بھی مختلف کیفیت والے تھے، وہی جنہوں نے حضرت مسلم (علیہ السلام) کو ابن زیاد کے حوالہ کردیا تھا، وہی جنہوں نے حضرت امام حسین (علیہ السلام) کو خطوط لکھے اور پھر دھوکہ کرتے ہوئے عہدشکنی کردی، وہی لوگ جن کو چاہیے تھا کہ ابن زیاد کا مقابلہ کرتے، لیکن اپنے گھروں میں چھپ گئے اور کچھ لوگ ایسے تھے جو ارادوں کے ضعف و کمزوری کا شکار بن گئے تھے۔ آپ (سلام اللہ علیہا) نے خطبہ اس ماحول میں دیا کہ خطبہ سے پہلے بعض لوگ خوشیاں منا رہے تھے اور بعض گریہ کررہے تھے، ایسے نازک حالات میں اچانک عظمت کے اس سورج نے طلوع کیا اور اسی انداز میں خطبہ دیا جس میں امیرالمومنین (علیہ السلام) منبر خلافت پر اپنی امت کے سامنے خطبہ ارشاد فرمایا کرتے تھے، حضرت علی (علیہ السلام) کی بیٹی اپنے باپ کی طرح بولنے لگیں، انہی جیسے الفاظ سے، اسی فصاحت و بلاغت کے ساتھ، انہی جیسے بلند حقائق پر مشتمل خطبہ۔ الفاظ فولاد کی طرح مضبوط اور معانی پانی کی طرح روان و سلیس،ایسا خطبہ جو دلوں کی گہرائی میں اثر کرجاتا، خطیب منبر سلونی کی عالمہ بیٹی نے بازار کوفہ میں اپنے باپ کی طرح ایسا خطبہ دیا کہ جس سے دل ہل گئے اور تاریخ آج تک کانپ رہی ہے۔
۳۔ راوی کی نقل سے واضح ہورہا ہے کہ حضرت زینب کبری (سلام اللہ علیہا) نے لوگوں کو خاموش ہوجانے کا حکم نہیں دیا اور نہ ہی کہا ہے کہ خاموش ہوجاو، بلکہ خاموشی کا اشارہ کیا ہے۔ کیا اس مظلومہ خاتون جس کے گھرانے کے اتنے افراد کو شہید کردیا گیا ہو اور اسے اور اس کے گھرانے کے دیگر افراد کو قیدی کرکے لایا گیا ہو، اس کی بات کی پرواہ تک کی جائے گی چہ جائیکہ اس کے اشارہ پر عمل کیا جائے؟ ہرگز نہیں! مزید برآں اس شور و غل اور ہل چل میں کون کسی کی بات سنتا ہے، لوگوں کے اس شور اور گریہ کی آوازیں جو اس خطبہ کے ارشاد سے پہلے فضا میں پھیلی ہوئی تھیں جیسا کہ تاریخ میں نقل ہوا ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ لوگوں کو خاموش کرنا عام حالات کے تحت نہیں تھا، بلکہ ولایت کی طاقت اور معنوی قدرت کے ذریعے تھا جو اللہ کے اذن و اجازت سے وقوع پذیر ہوا۔ شاید اشارہ تک کی بھی ضرورت نہ تھی، مگر اشارہ اس حقیقت کو ظاہر کرنے کے لئے ہوسکتا ہے کہ اس روحانی طاقت کو کس نے استعمال کیا ہے کہ اس کے تکوینی تصرف اور تکوینی ولایت سے سانسیں سینوں میں دب گئیں اور جرس کارواں کی آوازیں خاموش ہو گئیں یعنی لوگوں کو اسی ہستی نے خاموش کیا جس نے خطبہ دیا۔
۴۔ ایسی غائبی طاقت کے ذریعے سے خاموش کرنا اس بات کا عملی ثبوت ہے کہ اگر ہم اہل بیت (علیہم السلام) چاہیں تو اللہ کے اذن سے تمہاری زبان کی حرکت تک کو روک سکتے ہیں،لہذا اگر مصلحت کے تحت ہم نے باطنی طاقتوں کو استعمال نہیں کیاتو تم نے ہم پر ظلم وستم کرکے فتح حاصل نہیں کی، بلکہ شکست کا شکار ہوگئے، حقیقی فتح تو یہ ہے کہ ہم اپنے عزیزوں کی قربانیاں دے کر، شہادتوں کے مصائب کے پہاڑ اپنے کندھوں پر اٹھائے ہوئے اور قیدی بن کر بھی آج بھرے مجمع میں اشارہ سے تمہارا ناطقہ بند کرکے اپنی بات سنوا سکتے ہیں، اگر ہماری قوتِ کلام تمہاری آوازوں پر غالب ہے تو ہماری طاقتیں بھی تمہاری طاقتوں پر غالب ہیں، لہذا ہم ہی فاتح ہیں۔
۵۔ راوی کی نقل کے مطابق حضرت زینب کبری (سلام اللہ علیہا) کا خطاب اس طرح تھا کہ گویا آپ (سلام اللہ علیہا) حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) کی زبان سے بول رہی تھیں۔ اگر اس سے مراد یہ ہو کہ آپؑ کا انداز بیان اور لہجہ وہ نہیں تھا جو آپؑ کا اپنا تھا بلکہ حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) کا انداز بیان تھا، یعنی وہاں پر آپؑ نے اپنے انداز کو بابا کے انداز میں بدل دیا تو شاید اس سے یہ ظریف نکتہ حاصل کیا جاسکے کہ آپؑ کا شرم و حیا، حجاب و عفت اور عزت و حرمت اتنی زیادہ تھی کہ آپؑ نے اپنے اندازِ بیان پر بھی اپنے باپ کے انداز کا پردہ اور حجاب ڈال دیا تا کہ لوگ آپؑ کے ذاتی انداز اور لہجہ کو نہ جان سکیں، ان کو معلوم ہے کہ بولنے والی علی (علیہ السلام) کی بیٹی ہے، لیکن لگتا یوں ہے جیسے خود امیرالمومنین (علیہ السلام) خطبہ ارشاد فرمارہے ہوں۔
۶۔ خطیب منبر سلونی کی دختر نیک اختر اس خطبہ میں حمد اور صلوات کو انتہائی مختصر الفاظ میں بیان فرماکر فوراً اہل کوفہ سے مخاطب ہوئیں اور ان کے متعلق بیانات ارشاد فرمائے۔ حمد اور درود میں اختصار کو مدنظر رکھنے میں کیا راز ہے؟!
۷۔ حضرت زینب کبری (سلام اللہ علیہا) نے اتنے بھرے مجمع اور جم غفیر میں اپنا تعارف رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے گہری قرابتداری کے ذریعے کروایا، ایسی قرابت جس سے زیادہ قریبی رشتہ ممکن ہی نہیں اور اس ہستی سے قرابت جس سے ہر کسی کی قرابت نہیں ہے، جو رب العالمین کی ساری کائنات میں سب سے افضل انسان ہیں اور معراج انسانیت پر فائز ہو کر خاتم الانبیاء و المرسلین ہیں، ایسی عظیم ہستی کو حضرت زینب کبری (سلام اللہ علیہا) اپنا باپ کہہ رہی ہیں اور باپ کہنے سے پہلے آنحضرت پر صلوات بھیج رہی ہیں۔
نتیجہ:  حضرت زینب کبری (سلام اللہ علیہا) نے اتنے مصائب برداشت کرتے ہوئے اتنے لوگوں کے سامنے خطبہ دیا اور آپؑ کے پاس امام وقت حضرت علی زین العابدین (علیہ السلام) بھی موجود تھے، خطبہ کا مقام اسی شہر کوفہ کا بازار تھا جس میں آپؑ کے والد امیرالمومنین (علیہ السلام) نے خلافت اور حکومت کی تھی، سننے والے سب بظاہر مسلمان اور اسلام کے دعویدار تھے، وقت کا حاکم وہ ظالم تھا جس نے کائنات کے عظیم ترین ظلم کا طوق اپنی گردن میں ڈالا۔ تاریخ کی پیچھے کی طرف ورق گردانی کرنے سے کچھ ایسا ہی منظر یاد آتا ہے، جب حضرت صدیقہ طاہرہ فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) نے فدک کے غصب ہونے اور مصائب کو برداشت کرنے کے بعد پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب کے سامنے خطبہ دیا اور آپؑ کے پاس آپؑ کے شوہر امام وقت حضرت علی مولی الموحدین (علیہ السلام) بھی موجود تھے، خطبہ کا مقام اسی شہر مدینہ کی مسجد تھی جو آپؑ کے باپ سیدالمرسلین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے منسوب اور مزین تھی، خطبہ سننے والے سب ظاہری طور پر مسلمان اور اسلام کے مدعی تھے، وقت کا خلیفہ وہ شخص تھا جس نے اپنے جیسے افراد کی مدد سے بتول عذرا (سلام اللہ علیہا) کا حق غصب کیا اور خلافت چھین لی تو بنت رسولؐ کو دربارِ خلافت میں آکر خطبہ دینا پڑا، حجت تمام ہوگئی اور غضبِ الہی کے معیار نے غضبِ پروردگار کا اعلان کردیا، کوفہ کے بازار میں بھی ام المصائب بنت زہرا (سلام اللہ علیہما) کو خطبہ دینا پڑا اور لوگوں کی ہٹ دھرمی اور دھوکہ بازیوں کے باعث ان کو عذاب الہی سنوا دیا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] بحار الأنوار، علامہ مجلسی، ج45، ص108۔
[2] اللهوف في قتلى الطفوف، سید ابن  طاووس، ج1، ص86۔
[3] احتجاج، طبرسی، ج2، ص29۔

تبصرے
Loading...