حضرت زینب (سلام اللہ علیھا) کے سفر

خلاصہ: حضرت زینب سلام اللہ علیھا کے مختلف سفر تاریخ میں لکھے گئے ہیں بعض وہ سفر کہ جو آپ نے بڑی شان و شوکت سے کئے لیکن بعض وہ سفر ہیں کہ جو آپ سے بالجبرکرائے گئے ہیں۔

حضرت زینب (سلام اللہ علیھا) کے سفر

پہلا سفر مدینه سے کوفه
اس سفر میں حضرت زینب (سلام اللہ علیھا)اپنے بھائی اور جوانان بنی ہاشم اور اسی طرح  آپ کے چچا کے بیٹے عبداللہ ابن جعفر کہ جو ایک مشھور و معروف شخصیت تھے اور ان کا شمار سخاوت مند شخصیات میں ہوتا تھا، ان لوگوں کے ساتھ کیا اور اس وقت آپ کی عمر مبارک 30 سال تھی ،آپ نے یہ سفر 36 ہجری میں کیااور آپ نے اس سفر میں کوفہ کی خواتین کو تعلیمات اسلامی سے بھی مستفید کیا، اور پھر جب امام حسن (علیہ السلام ) نے کوفہ چھوڑا تو آپ بھی ان کے ساتھ مدینہ واپس چلی گئیں۔[1]
دوسرا سفر: کوفه سے مدینه
یہ در حقیقت اسی پہلے سفر سے واپسی کا سفر تھا کہ جسکا ذکر اوپر بیان ہو چکا ہے۔
تیسرا سفر: مدینه سے مکه
حضرت زینب (سلام اللہ علیھا) کا یہ سفر اپنے بھائی امام حسین (علیہ السلام) کے ساتھ تھا کہ جب امام حسین (علیہ السلام) کو مجبور کیا گیا کہ یا تو یزید ملعون کی بیعت کریں یا پھر مدینہ چھوڑ دیں، اتوار کی رات 28 رجب سن 60 ہجری آپ نے مدینہ چھوڑا اور اس وقت حضرت زینب (سلام اللہ علیھا) کی عمر مبارک 55 سال تھی اور آپ کا یہ سفر الہی ذمہ داریوں کی بنیاد پر تھا۔ 6 دن کے بعد آپ مکہ پہنچیں۔[2]
حضرت زینب (سلام اللہ علیھا) مکہ میں اپنے بھائی کے ساتھ 4 ماہ 5 دن رہیں۔ [3]
 مکہ میں آپ کا قیام «عباس ابن عبدالمطلب»  کے گھر میں تھا اور امام حسین (علیہ السلام) نے اس گھر میں لوگوں کو اپنے مقصد سے آگاہ کیا اور بتایا کہ کبھی بھی کسی ظالم کی بیعت نہ کرنا اور ہمیشہ حق کا ساتھ دینا۔ [4]
اہل مکہ نے بھی بہت عظیم استقبال کیا تھا لیکن انہیں لوگوں کا کہنا ہے کہ ایک دن شام کے وقت ہم نے دیکھا کہ امام حسین (علیہ السلام) مکہ چھوڑ رہے ہیں۔ [5]
اور یہ امام حسین (علیہ السلام) کا مکہ میں ہونا لوگوں کے لیے ایک بہت بڑی نعمت تھی کیونکہ عراق، مصر، یمن کے لوگ آپ کے پاس آرہے تھے اور اپنے مسائل پر گفتگو کر رہے تھے۔ [6]
چوتھا سفر: مکه سے  عراق
حضرت زینب (سلام اللہ علیھا) کا یہ سفر اسی کاروان کے ساتھ ہوا جو مدینہ سے  مکہ کی طرف روانہ ہوا تھا بس اس سفر میں اس نورانی کاروان کے ساتھ کچھ اصحاب پیامبر بھی شامل ہو گئے اور اس سفر کی وجہ وہ خطوط تھے جو اہل کوفہ نے بار بار امام حسین (علیہ السلام) کو لکھے تھے لیکن یہ سفر کربلا میں اختتام پذیر ہوا کہ جس کی وجہ سے حضرت زینب (سلام اللہ علیھا) کو بہت مصائب کا سامنا کرنا پڑا۔ [7]
پانچھواں سفر : کربلاسے کوفه
حضرت زینب (سلام اللہ علیھا) کا یہ سفر مذکورہ سفروں سے بہت مختلف سفر ہے، اس سفر میں تو ظلم کی انتہا ہو گئی، اس میں آپ کے سر پر چادر نہ تھی، ہاتھ پس گردن بندھے تھے، اس سفر میں بھائی بھتیجے تو نہیں لیکن ان کے سر نیزوں پر سوار تھے۔ [8]
چھٹا سفر: کوفه سے شام
حضرت زینب (سلام اللہ علیھا)کا یہ سفر کوفہ کے دارالامارہ سے شام کے دارالخلافت کی طرف تھا اس سفر میں حضرت زینب (سلام اللہ علیھا)کو 40 مقام سے گزرنا پڑا اور صدمے بھی بہت دیکھے لیکن جب دارالخلافت پہنچتی ہیں تو اپنے خطبے سے ایک مرتبہ بنی امیہ کی حکومت کو ہلا کر رکھ دیتی ہیں، واضح کرتی ہیں کہ اس نے نواسہ رسول پر کیا کیا ظلم کئے اور پھر رسول زادیوں کو اسیر کر کے شام لایا گیا۔ حضرت زینب (سلام اللہ علیھا)کے اس خطبے نے بنی امیہ کو رسوا کر کے رکھ دیا اور حق کے پرچم کو ہمیشہ کے لیے بلند کر دیا۔ [9]
ساتواں سفر: شام سے مدینه
حضرت زینب(سلام اللہ علیھا)کا یہ سفر شام سے مدینہ کی طرف تھا۔ یہ سفر بھی بہت دردناک سفر تھا کہ جب مدینہ سے نکلی تھیں تو کس شان و شوکت سے اور سب موجود بھی تھے اب جب سب شھید ہو گئے اور سب کا غم لیے وطن واپس جا رہی ہیں، حضرت زینب (سلام اللہ علیھا) نے امام سجاد (علیہ السلام) سے کہا کہ مدینہ سے باہر قیام کیا جائے۔ امام سجاد (علیہ السلام) وہیں رک گئے اور ایک شخص کو بھیجا کہ جا کر مدینہ میں خبر دے کہ اولاد رسول واپس آگئے ہیں اور پھر جب لوگ اکٹھا ہوئے تو امام سجاد (علیہ السلام) نے ایک خطبہ دیا اور پھر یہ کاروان مدینہ میں داخل ہوا، جیسے ہی مدینہ میں داخل ہوتے ہیں تو سب سے پہلے روضہ رسول پر آتے ہیں، اور حضرت زینب (سلام اللہ علیھا)نے خودکو روضہ رسول پر گرا کر کہا یا جداہ، اے نانا تیرے حسین کو شھید کر دیا گیا اور تیری بیٹیوں کو شھر بشھر پھرایا گیا۔
جیسے ہی مدینہ پہنچیں تو آرام سے نہ بیٹھی بلکہ لوگوں سے بنی امیہ کے کردار بیان کئے واقعہ کربلا بتایا اور لوگ بھی یہ سب سن کر برداشت نہ کر سکے اور اموی خلیفہ کا جینا حرام کر دیا اور اس اموی خلیفہ «عمرو ابن سعد الأشدق»  نے یزید کو خط لکھا کہ وائے ہو تم پر کیوں تم نے حسین کو شھید کیا کہ آج مدینہ میں رہنا بھی دشوار ہو گیا ہے اس کے خط نے یزید کو بھی لرزا دیا اور جواب دیا کہ زینب کو شھر بدر کر دو اور شام بھیج دو، اہل مدینہ اور زینب کے درمیان جدائی ڈالو ورنہ حکومت کا تختہ الٹ جائے گا اور بالآخر اس نے ایسا ہی کیا۔[10]
 آٹھواں سفر: مدینه سے شام
ابھی چند ماہ ہی ہوئے تھے کہ والی مدینہ نے رہنے نہ دیا اور کہا کہ زینب ہمیشہ کے لیے مدینہ چھوڑ دے اور دوسری طرف یزید نے  مدینہ میں قتل عام شروع کر دیا تھا تاکہ زینب ہمیشہ کے لیے مدینہ چھوڑ دیں اور ایسا ہی ہوا جب شھزادی نے یہ مظالم دیکھے تو مدینہ چھوڑ دیا۔[11]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالے جات
[1] انساب الاشراف 138/3
[2] الارشاد ص 202.وتاریخ الامم والملوک 254/4
[3] زینب بانوی قهرمان کربلا ص143
[4] اخبارالطوال دینوری ص 277
[5] اخبارالطوال ص277
[6] الکامل ج4ص20
[7] داستان از فضایل ،مصائب وکرامات حضرت زینب (س)ص 32
[8] یادگار خیمه های سوخته ص24
[9]  بطله کربلازینب بنت الزهرا ص 153
[10] بحار الانوار ج45،ص145،وسیله الدار فی انصار الحسین ،ص،396
[11] بحار الانوار ج45،ص145،وسیله الدار فی انصار الحسین ،ص،396

تبصرے
Loading...