جہاد کا حقیقی تصور

شریعت اسلامی کی اصطلاح میں ’’دین اسلام کی اشاعت و ترویج، سربلندی و اعلاء اور حصول رضائے الٰہی کے لئے اپنی تمام تر جانی، مالی، جسمانی، لسانی اور ذہنی صلاحیتوں اور استعدادوں کو وقف کرنا جہاد کہلاتا ہے۔لیکن مغربی دنیا نے اسے ایک منفی پہلو سے لوگوں کے سامنے بیان کیا ہے تاکہ لوگ حقیقی اسلام سے دور ہوں اور مسلمانوں سے متنفر ہوں مقالہ ھذا میں جہاد کی حقیقی تصویر کو پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے، اس امید کے ساتھ کے لوگوں تک اسلام کی حقیقی تعلیمات پہنچیں-

جہاد کا حقیقی تصور

           بدقسمتی سے دنیا کے مختلف حصوں میں اِسلام اور جہاد کے نام پر ہونے والی انتہاپسندانہ اور دہشت گردانہ کارروائیوں کی وجہ سے عالمِ اسلام اور عالم مغرب میں آج تصورِ جہاد کو غلط انداز میں سمجھا اور پیش کیا جا رہا ہے۔ جہاد کاتصور ذہن میں آتے ہی خون ریزی اور جنگ و جدال کا تاثر اُبھرتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بدقسمتی سے فی زمانہ جہاد کے نظریے کو نظریہ امن اور نظریہ عدم تشدد کا متضاد سمجھا جارہا ہے۔ مغربی میڈیا میں اب لفظِ جہاد کو قتل و غارت گری اور دہشت گردی کے متبادل کے طور پر ہی استعمال کیا جاتا ہے۔ حالانکہ اَساسی اور بنیادی طورپر جہاد ایک ایسی پراَمن، تعمیری، اخلاقی اور روحانی جدوجہد ہے جو حق و صداقت اور انسانیت کی فلاح کے لیے بپا کی جاتی ہے۔ ابتداءً اس جدوجہد کا جنگی معرکہ آرائی اور مسلح ٹکرائو سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ یہ جدوجہد اُصولی بنیادوں پر صرف ایسے ماحول کا تقاضا کرتی ہے جس میں ہر شخص کا ضمیر، زبان اور قلم اپنا پیغام دلوں تک پہنچانے میں آزاد ہو۔ معاشرے میں امن و امان کا دور دورہ ہو۔ انسانی حقوق مکمل طور پر محفوظ ہوں۔ ظلم و استحصال اور استبداد کی کوئی گنجائش نہ ہو اور دنیا کے تمام ممالک پر امن بقائے باہمی کے رشتے میں منسلک ہوں۔ لیکن جب اَمن دشمن طاقتیں علم و عقل کی رہنمائی سے محروم ہوکر مقابلہ پر آجائیں اور اجتماعی اَمن و سکون اور نظم و نسق کے خلاف تباہ کن سازشیں اور علی الاعلان جنگی تدابیرکرنے لگیں تو ایسے وقت میں جہاد کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ امن وسلامتی کے دشمنوں اور ان کے تمام جنگی مرکزوں کے خلاف مسلح جدوجہد کی جائے تاکہ امن و آشتی کے ماحول کو بحال اور خیر و فلاح پر مبنی معاشرہ قائم کیا جا سکے۔
       ان حالات میں ضرورت اس امر کی تھی کہ اسلام کے تصورِ جہاد کو اس کے حقیقی معنی کے مطابق پیش کیا جائے تاکہ جہاد کے بارے پھیلائی گئی غلط فہمی سے اسلامی تعلیمات کے پرامن چہرے کو داغدار کرنے کی مکروہ سازش و کاوش کا سدِّباب کیا جاسکے۔
         اسلامی فلسفہ جہاد میں جہاد کا مقصد نہ تو مال غنیمت سمیٹنا ہے اور نہ ہی کشور کشائی ہے۔جس طرح توسیع پسندانہ عزائم اور ہوس ملک گیری کا کوئی تعلق اسلام کے فلسفہ جہاد سے نہیں ہے اسی طرح جہاد کے نام پر دہشت گردی کا بھی جہاد سے کوئی واسطہ نہیں۔ اس وقت جہاں ایک طرف غیر مسلم مفکرین اور ذرائع ابلاغ نے اسلامی تصورِ جہاد کو بری طرح مجروح کیا، وہاں دوسری طرف بعض دہشت گرد اور انتہا پسند گروہوں نے بھی لفظِ جہاد کو اپنی دہشت گردی اور قتل و غارت گری کا عنوان بنا کر اسلام کو دنیا بھر میں بد نام کرنے اور اسلامی تعلیمات کے پرامن چہرے کو مسخ کرنے میں کوئی کسرباقی نہیں رکھی۔
        جہاد’ کا لفظ لغوی طور پر (مقابلہ میں) کوشش، محنت و مشقت اور تگ و دو کی مختلف شکلوں کا احاطہ کرتا ہے اور اسے دینی پس منظر میں لیا جائے تو اسلام کی سربلندی، دعوت و تبلیغ، ترویج و تنفیذ اور تحفظ ودفاع کے لئے کی جانے والی مختلف النوع عملی کوششوں کے ساتھ ساتھ ایک مسلمان کی حیثیت سے اپنی خواہشات پر کنٹرول اور نفس کی اصلاح کی مساعی پر بھی جہاد کا لفظ بولا گیا ہے جس کی قرآن و سنت میں بہت سی مثالیں ملتی ہیں۔
لفظِ جہاد ایک کثیر المعانی لفظ ہے جس کے لغوی معنی سخت محنت و مشقت ، طاقت و استطاعت، کوشش اور جدوجہد کے ہیں۔ ابن فارس لفظِ جہد کا معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’جهد الجيم والهاء والدال اصله المشقة، ثم يُحْمَلُ عليه ما يُقَارِبُه‘‘
’’لفظِ جہد (جیم، ھاء اور دال) کے معنی اصلاً سخت محنت و مشقت کے ہیں پھر اس کا اطلاق اس کے قریب المعنی الفاظ پر بھی کیا جاتاہے۔‘‘[1]
اس تعریف کی روشنی میں جہاد کا مفہوم یہ ہو گا کہ کسی بھی امرِخیر کی جدوجہد جس میں اِنتہائی طاقت اور قوت صرف کی جائے اور حصولِ مقصد کے لئے ہر قسم کی تکلیف اور مشقت برداشت کی جائے، جہاد کہلاتی ہے۔
قرآن کریم میں لفظ جہاد اپنے مشتقات کے ساتھ تقریبا ۳۲ بار استعمال ہوا ہے وہ بھی ’’ فی سبیل اللہ ‘‘ کی قید کے ساتھ، فی سبیل اللہ کی قید کے قطعا کسی بے گناہ کو قتل کرنے، کسی مظلوم پر ظلم کرنے اور کسی پر زور زبرزستی کرنے کے نہیں ہے بلکہ یہ قید ہر وہ چیز جو ذاتا اچھی ہے کے ساتھ استعمال کرنے کے لائق ہے۔
            مقالہ کے اختصار کو مد نظر رکھتے ہوئے قارئین کی خدمت میں بس ایک آیت کو نمونہ کے طور پر ذکر کرنا مناسب  ہے جو مندرجہ ذیل ہے:
’’وَ قاتِلُوا في‏ سَبيلِ اللَّهِ الَّذينَ يُقاتِلُونَكُم وَ لا تَعْتَدُوا إِنَّ اللَّهَ لا يُحِبُّ الْمُعْتَدينَ‘‘(بقرہ/190) جو لوگ تم سے جنگ کرتے ہیں تم بھی ان سے راہ خدا میں جہاد کرو اور زیادتی نہ کرو کہ خدا زیادتی کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔
مندرجہ بالا آیت در اصل تین سوالوں کا جواب ہے، وہ یہ کہ کب اور کس لئے جنگ کی جائے؟ دوسرے یہ کہ کس سے جنگ و جہاد کیا جائے؟ تیسرے یہ کہ کس حد تک جنگ کی جائے؟
جہاں تک پہلے سوال کا مسئلہ تو آیت میں صاف واضح ہے کہ’’ في‏ سَبيلِ اللَّهِ‘‘تم راہ خدا میں جہاد کرو یعنی تمہارا ہدف اللہ کی خوشنودی ہو اور یہ بات واضح ہے کہ خدا کی خوشنودی بے جا کسی کو قتل کرنے، ظلم و ستم کرنے اور دہشت گردی میں قطعا نہیں ہے، بلکہ  لوگوں کو آباد کرنے ، فساد کو ختم کرنے اور ناسور افراد کو ختم کرنے میں ہے۔رہا مسئلہ کس سے جنگ کرنے کا؟ تو قرآن نے یہ بھی واضح کردیا کہ تمہارا کام قتل و غارت گری نہیں ہے بلکہ اس سے جنگ کرو کہ’’ الَّذينَ يُقاتِلُونَكُم‘‘جو تم سے سماج و معاشرہ کے امن و امان کو برباد کرنے کے لئے برسرپیکار ہوگئے ہیں۔لیکن اس کا قطعی یہ مطلب نہیں ہے کہ تم اندھا دھند جنگ کرو بلکہ  ’’وَ لا تَعْتَدُوا إِنَّ اللَّهَ لا يُحِبُّ الْمُعْتَدينَ‘‘جہاد کرو مگر زیادتی نہیں کرو اس کی وجہ یہ ہے کہ خدا حد سے تجاوز کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا ۔ اس کا واضح مطلب یہی ہے کہ خدا نے آخری حالت میں بھی اگر جنگ کی اجازت دی بھی ہے تو اس حدتک کہ کسی کا حق پائمال نہ ہونے پائے ۔
          مندرجہ بالا مطالب سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اسلام ایک دین امن و امان کا نام ہے لہذا اس میں جنگ ہدف نہیں  ہے بلکہ آخری وسیلہ ہے باغی اور ان کی بغاوت کو کچلنے کا، در حقیقت اسلام میں جنگ بالکل ایسے ہی ہے جیسے ایک ماہر اور متخصص ڈاکٹر کے لئے کسی مرض کو جڑ سے ختم کرنے کے لئے اپریشن۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1]  معجم مقاييس اللغة، باب جیم و ھا،ص 210، أبو الحسين أحمد بن فارس بن زكريا، دار الجبل، 1420ق۔

تبصرے
Loading...