توبہ اور استغفار کرتے ہوئے گناہ سے باز آجانا

خلاصہ: گناہ پر واقعی پشیمان ہونے یا نہ ہونے کی نشانی پائی جاتی ہے۔ انسان کو چاہیے کہ اگر گناہ کر بیٹھے تو فوراً توبہ اور استغفار کرکے گناہ کرنے سے بالکل رک جائے۔

توبہ اور استغفار کرتے ہوئے گناہ سے باز آجانا

جب آدمی اپنے گناہ پر پشیمان ہوتا ہے تو دل سے استغفار کرتا ہے، ایسی صورتحال میں دل کی کیفیت یہ ہوتی ہے کہ انسان اس گناہ کو دہرانے سے اپنے آپ کو منع کررہا ہوتا ہے اور پختہ ارادہ کرلیتا ہے کہ آئندہ اس غلطی کا ارتکاب نہیں کرے گا۔
لہذا جب انسان سمجھ گیا کہ میرا یہ کام، گناہ تھا، مگر اس کے باوجود دل سے استغفار اور توبہ نہیں کرتا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے گناہ پر پشیمان نہیں ہے اور مزید گناہ کو دہرانا چاہتا ہے۔ اسے یاد رہنا چاہیے کہ اس طریقے سے وہ گمراہی کی طرف قدم بڑھا رہا ہے اور اپنے لیے دنیا و آخرت میں مصیبتیں، تکلیفیں اور عذاب تیار کررہا ہے، بنابریں آدمی اگرچہ کسی گناہ کی کسی بھی حد تک پہنچ گیا ہو تو اسے چاہیے کہ اس گناہ کے ارتکاب سے رک جائے، نہ یہ کہ اپنے گناہ کے زیادہ ہونے یا بڑے ہونے کو دیکھ کر توبہ اور استغفار سے ناامید ہوتا ہوا آگے بڑھتا جائے اور سمجھ لے کہ اتنے گناہ کے بعد اب توبہ کرنے کا کیا فائدہ اور توبہ کیسے قبول ہوگی! یہ سوچ شیطان کی طرف سے دل میں آتی ہے جو انسان کو اللہ تعالیٰ کی رحمت اور مغفرت سے ناامید کردیتا ہے، جبکہ اللہ بڑا مہربان اور بہت بخشنے والا ہے۔
سورہ زمر کی آیت ۵۳ میں ارشاد الٰہی ہے: “قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللَّـهِ ۚ إِنَّ اللَّـهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا ۚ إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ”، “آپ(ص) کہہ دیجئے! کہ اے میرے بندو! جنہوں نے (گناہ پر گناہ کرکے) اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو۔ بے شک اللہ سب گناہوں کو بخش دیتا ہے کیونکہ وہ بڑا بخشنے والا (اور) بڑا رحم کرنے والا ہے”۔

* ترجمہ آیت از: مولانا محمد حسین نجفی صاحب۔

تبصرے
Loading...