تفرقہ پھیلانے والوں کے ساتھ حضرت علی (ع) کا قطع تعلق

خلاصہ:  یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ اتحاد و یکجہتی میں وہ طاقت ہے کہ جس کا مقابلہ کوئی بھی نہیں کرسکتا ہے کہ اسکے برخلاف افتراق و اختلاف ایسی کمزوری ہے جس سے بڑی کوئی کمزوری نہیں، مقالہ ھذا افتراق کے نقصانات کو ذکر کرتے ہوئے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ جو قوم متفرق رہتی ہیں ان سے خدا و رسول اور ان کا حقیقی ولی اپنا تعلق توڑ لیتے ہیں۔

تفرقہ پھیلانے والوں کے ساتھ حضرت علی (ع) کا قطع تعلق

مسلمانوں کے اتحاد اور یکجہتی کی راہ میں ہمیشہ مشکلات آتی رہتی ہیں۔ ان مشکلات میں بعض داخلی اور بعض خارجی ہیں ۔ داخلی مسائل وہ ہيں جو خود مسلمانوں کےپیداکئےہوئے ہیں اور ان کے اعمال اورتنگ نظری اور سطحی نظرکا نتیجہ ہیں۔بیرونی مشکلات سامراجی طاقتوں اور ان کے آلہ کاروں کی سازشوں کانتیجہ ہیں کیونکہ سامراجی طاقتوں کے لئے مسلمانوں کا اتحاد اور بھائي چارہ نہایت دردناک اور برداشت کے قابل نہیں ہے۔سامراج کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہےکہ مسلمانوں میں تفرقہ اور تنازعات پیداکرکے انہیں ترقی کرنےسے روکے اور انہيں کبھی بھی امۃ واحدہ بننے نہ دے۔
اتحاد میں بڑی طاقت اور قوت ہے،کسی ملک کی بقا کا انحصار قومی یکجہتی اور اتفاق پر ہے۔ کوئی جماعت، کوئی ملک، کوئی قوم اقوام عالم کی نگاہ میں عزت و آبرو اور وقار و احترام کا مقام نہیں پاسکتی جب تک کہ اس کے افراد میں یکجہتی اور ہم آہنگی نہ ہو۔ قومی اتحاد کے بغیر ترقی اور خوشحالی کا تصور بھی ایک خام خیال ہے۔ انفرادی اور اجتماعی اقبال ایک خواب ہے۔جس طرح موج کی قوت کا زور، جوش، تلاطم اور طنطنہ دریا کے اندر ہے، دریا کے باہر موج کوئی معنی نہیں رکھتی۔ اسی طرح فرد کی اپنی کوئی قوت نہیں ہوتی، فرد تنہا کوئی حیثیت نہیں رکھتا لیکن جب وہ ایک ملت میں گم ہوجاتا ہے تو بڑی قوت بن جاتا ہے۔
موجودہ دور میں عالم اسلام میں امریکہ اور سامراجی طاقتوں کا ایک بنیادی ہدف، تفرقہ و اختلافات کی آگ بھڑکانہ ہے اور اس کا بہترین طریقہ اہل تشیع اور اہل تسنن کے درمیان اختلاف ڈالنا ہے، جبکہ ہمارے ائمہ اس کے سخت خلاف تھے اور جگہ جگہ پر اسکے خطرات سے آگاہ فرماچکے ہے جس کی بارز مثال علی علیہ السلام کی زندگی ہے ، آپ (ع)مختلف جگہوں پر اختلاف کو ہوا دینے والے اور اختلاف کرنے والوں سے قطع تعلق کا حکم دے چکے ہیں اور اس چیز کو آپ نے عملی جامہ بھی پہنایا ہے چنانچہ ارشاد ہوتا ہے: ”وَ الْزَمُوا السَّوَادَ الْأَعْظَمَ فَإِنَّ يَدَ اللَّهِ مَعَ الْجَمَاعَةِ وَ إِيَّاكُمْ وَ الْفُرْقَةَ فَإِنَّ الشَّاذَّ مِنَ النَّاسِ لِلشَّيْطَانِ كَمَا أَنَّ الشَّاذَّ مِنَ الْغَنَمِ لِلذِّئْبِ أَلَا مَنْ دَعَا إِلَى هَذَا الشِّعَارِ فَاقْتُلُوهُ وَ لَوْ كَانَ تَحْتَ عِمَامَتِي‏“  جماعت ایمانی کے ساتھ ہوجائو کہ اللہ کا ہاتھ اسی جماعت کے ساتھ ہے اور خبردار تفرقہ کی کوشش نہ کرنا کہ جو ایمانی جماعت سے کٹ جاتا ہے وہ اسی طرح شیطان کا شکار ہوجاتا ہے  جس طرح گلہ سے الگ ہوجانے والی بھیڑ بھیڑیئے کی نذر ہوجاتی ہے۔ آگاہ ہوجائو کہ جو بھی اس انحراف کا نعرہ لگائے انہیں قتل کردو چاہے وہ میرے عمامہ کے نیچے کیوں نہ ہو۔[۱]
لہذا اس حدیث مبارکہ میں امت کو آگاہ کیا جارہا ہے کہ میرا ایسے لوگوں سے کوئی سروکار اور تعلق نہیں ہے ، جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے اپنی وحدت اور بھائی چارگی کا شیرازہ منتشر کر ڈالا ۔ لہذا ایسے افراد کو تم کہیں بھی دیکھواسے قتل کردو چاہے وہ میرے اس عمامہ کے نیچے ہی کیوں نہ ہو۔ اس سے بڑھ کر فرقہ پرستی کی مذمت اور کیا ہوگی ۔
فرقین کے درمیان تعلق کا ٹوٹنا کبھی ایک فریق کی جانب سے ہوتاہے اور کبھی دونوں جانب سے ، واقعات قرآنی اور تاریخ اسلامی کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ اکثر ایسا ہوا کہ پہلی امتوں کے لوگوں نے بد اعمالیوں کی بناء پر خو اپنے رہبر حق سے اپنا تعلق منقطع کرلیا اور وہ فسق و فجور اور کفر و طغیان کے اندھیروں میں بھٹک گئے، لیکن بد بختی کی انتہا ہے کہ امت کے لوگ اخلاقی بے راہروی میں اس حد تک ملوث ہوجائیں اور دین کی اصل تعلیم سے ہٹ جائیں کہ ان کا رہبر حکم خداوندی سے خود ان امتیوں سے قطع تعلق کرلے، یہ اتنی بڑی بدبختی ہے کہ جس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔
اس بد بختی سے بچنے کے لئے آپ نے علاج بھی تجویز فرمادیا کہ : ” اللہ والوں کے لئے اس کی بارگاہ تک پہونچنے کا بہترین وسیلہ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان اور راہ خدا میں جہا د ہے کہ جہاد اسلام کی سربلندی ہے، اور کلمہ اخلاص ہے کہ یہ فطرت الہیہ ہے اور نماز کا قیام ہے کہ یہ عین دین ہے اور زکات کی ادائیگی ہے یہ فریضہ واجب ہے اور ماہ رمضان کا روزہ ہے کہ یہ عذاب سے بچنے کی سپر ہے اور حج بیت اللہ ہے اور عمرہ ہے یہ فقر کو دور کرتا ہے اور گناہوں کو دھویتا ہے اور صلہ رحم ہے کہ یہ مال میں اضافہ اور اجل کے ٹالنے کا ذریعہ ہے اور پوشیدہ طریقہ سے خیرات ہے کہ یہ گناہوں کا کفارہ ہے اور علی الاعلان صدقہ ہے کہ یہ بدترین موت کے دفع کرنے کا ذریعہ ہے اور قرباء کے ساتھ نیک سلوک ہے کہ ذلت کے مقامات سے بچانے کا وسیلہ ہے”۔[۲]
حدیث بالا میں غور کیا جائے تو امام نے ایسے علاجوں کو پیش فرمایا ہے کہ جہاں پر ہر جگہ اتحاد کی بو آتی ہے چاہے وہ خدا و رسول پر ایمان اور ان کی خالصانہ اطاعت یا نماز جماعت کا قیام ہو یا رمضان میں روزے ہوں یا زکات کی ادائیگی ہو کہ یہ غریب مسلمانوں کا حق ہے یا حج بیت اللہ یا عمرہ ہو کہ یہ خود مسلمانوں کے اتحاد کا ایک مرکز ہے ، لہذا اگر مسلمان ان تمام احکام کی رعایت کرے گا تو وہ رہبرحقیقی کےقطع تعلق سے محفوظ رہے گا ورنہ راندہ دنیا اور آخرت ہوجائے گا۔

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ جات
[۱]  نہج البلاغہ، کلام ۱۲۷، ص۲۴۷، سید رضی، محمدبن ابی احمد حسین، مترجم: علامہ ذیشان حیدر جوادی، انتشارات انصاریان، قم ، چاپ چہارم، ۱۴۳۰ھ۔ق۔
[۲]  نہج البلاغہ، خطبہ ۱۱۰، ص۲۱۹،سید رضی، محمدبن ابی احمد حسین، مترجم: علامہ ذیشان حیدر جوادی، انتشارات انصاریان، قم ، چاپ چہارم، ۱۴۳۰ھ۔ق۔

تبصرے
Loading...