ایک مثالی خاتون

یوں تو جناب خدیجہ کی پوری زندگی دور حاضر کی خواتین کے لئے بہترین نمونہ ہیں مگر مقالہ ھذا میں جناب خدیجہ کی زندگی کے کچھ پہلو کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور انھیں نمونہ کے طور پر پیش کیاگیا ہے۔

ایک مثالی خاتون

اس کائنات کی بہت سی چیزوں کو دوسری چیزوں پر فوقیت حاصل ہے‘ مثلاً جمعہ کے دن کو باقی دنوں پر ‘ماہ رمضان کو باقی گیارہ مہینوں پر اور لیلة القدر کو رمضان کی باقی راتوں پر۔اسی طرح اس کائنات میں بہت سے انسان ایسے ہیں جن کو تمام بنی نوعِ انسان پر مختلف خصوصیات کی بنا پر فوقیت حاصل ہے‘ مثلاً انبیاء کو غیر انبیاء پر اورپھر انبیاء کرام میں سے نبی کریم (صلی الله علیہ و آلہ و سلم) کو باقی سب پر فوقیت حاصل ہے۔اسی طرح وہ عورتیں جو نبی کریم (صلی الله علیہ و آلہ و سلم)کے نکاح میں رہیں(چاہے کم مدت یا زیادہ مدت‘جنہیں ازواج مطہرات اور اُمہات الموٴمنین کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے) ان کو بھی بنی نوعِ انسان کے طبقہ نسواں پر فضیلت اور برتری حاصل ہے۔ [1]ان ازواج مطہرات میں سے بھی اوّلیت اور فضیلت حضرت خدیجہ(سلام اللہ علیھا) کو حاصل ہے، جو نبی مکرم (صلی الله علیہ و آلہ و سلم)کی پہلی زوجہ اور اس اُمت کی پہلی ”ماں“تھیں۔
اس مضمون میں حضرت خدیجہ (سلام اللہ علیھا)کی مختصر سوانح حیات ‘ خصوصی فضائل اور خدماتِ اسلام کوبیان کیا جائے گا ۔اس کا مقصد یہ ہے کہ حضرت خدیجہ(سلام اللہ علیھا) کی فضیلت دنیا کی تمام عورتوں پر واضح ہو جائے اور اُمت ِمسلمہ کی تمام عورتیں انہیں اپنا آئیڈیل بنا کر ان کے طرز زندگی کو اپنائیں تاکہ ان کوگھریلو زندگی میں سکون اور آخرت میں آرام میسر ہو۔
انسانی تاریخ میں حضرت خدیجۃ الکبریٰ طاہرہ ؓ کی طرح کی خواتین کم ہی نظر آتی ہیں، جنہوں نے خواتین کے لئے عمل کی راہیں آسان تر اور روشن تر بنائی ہیں۔ اُن کی یہ عظمت تو قابل رشک ہے ہی کہ وہ حضور نبی کریم ؐ پر پہلی ایمان لانے والی خاتون ہیں، مگر اُن کی یہ عظمت ہماری نظروں سے پوشیدہ رہتی ہے کہ انہوں نے خود اپنے لئے اُس ذات بابرکات کو تلاش کیا اور منتخب کیا۔
انہوں نے عرب کی مالدار ترین خاتون ہوتے ہوئے امیر ترین رؤسائے عرب کے رشتے ٹھکرائے اور اُس دُرِّ یتیم کو جسے محبوب دو جہاں بننا تھا۔ اس وقت پہچانا جب ابھی اُن ؐ کے گوہر کو اللہ نے آشکار نہ کیاتھا۔ یہ حضرت خدیجہ کی بصیرت کی انتہا تھی اور ان کے مقدر کی خوش نصیبی کہ حضور نبی کریم نے اُن کاپیغام قبول کیا اور روئے زمین کا سب سے خوشبخت جوڑا ہونے کا اعزاز پایا۔[2]
دور حاضر میں حقوق نسواں اور عورت کی آزادی اور مساوات کا بڑا چرچا ہے مگر ہم اُن خواتین کا وہ معاشرتی رول دنیا کے سامنے نہیں پیش کرپا رہے اور نہ ہی اُس پر عمل درآمد کے لئے کوئی طریقہ کار وضع کر رہے ہیں۔ حضرت خدیجہ(سلام اللہ علیھا) کا یہ فیصلہ کہ انہوں نے حضور نبی کریم(صلی الله علیہ و آلہ و سلم)  کو خود منتخب کیا۔ اُن کی رائے کی آزادی اور ان کے حقوق کے حاصل ہونے کا ایسا اعلان ہے کہ جس کا کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا۔ سیرت نبوی پر غور کریں، تو ایک عرب شاعر نے اُن پر طنز کرتے ہوئے شعر کہا تھا کہ ’’جب سے اس دنیا میں محمد ؐ آئے ہیں ، عورت کے حقوق کا بڑا چرچا ہے‘‘۔
حضور نبی کریم نے ساری عمر حضرت خدیجہ کابہت پیار اور احترام سے ذکرکیا،کیونکہ انہوں نے وفا ،محبت اور قربانی کی لازوال داستان رقم کی ہے۔ خاندان نبوت کی ایسی آبیاری کی ہے کہ اُس میں اپنا تن بھی جلایا ،اپنے من کو بھی وفا کی بھٹی میں تپایا اور اپنے دھن کو بھی قربان کیا۔ وہ مکہ کی انتہائی کامیاب اور مشہور تاجرہ تھیں، جن کے تجارتی قافلے شام اور یمن تک تجارت کے لئے جایا کرتے تھے ، لیکن پھر شعب ابی طالب کی وادیوں میں تین سال تک حضور نبی کریم کے ساتھ ایثار و قربانی کا ایسا رشتہ نبھایا کہ تاریخ اس طرح کی مثال دینے سے قاصر ہے۔ سب سے پہلے حضور نبی کریم ؐ کی ایسی دلجوئی کی اور تسلی کے وہ تاریخی الفاظ رقم کئے، جن سے حضور نبی کریمؐ کی شفیق ہستی کو وحی کی گرانبار ذمہ داریاں سنبھالنے میں ڈھارس ملی۔ وہ نبوت کی پہلی ڈھال بنیں اور ہر جگہ اپنے محبوب شوہر کی غم گساری کی۔
حضور نبی کریم ؐ نے بھی اُن کی ایسی حوصلہ افزائی کی کہ اُن کی صلاحیتیں اور بھی پروان چڑھیں اور اُن کے اعتماد میں مزید اضافہ ہوا۔ اُن کے ہوتے ہوئے حضور نبی کریم ؐ نے کوئی اور نکاح نہ کیا۔ یہ بھی اُن کا ایک بہت مبارک اعزاز ہے کہ اُن کی وجہ سے خانۂ نبوت کو اولاد عطا ہوئی۔[3] اُن کی اتنی منفرد اور بابرکت ذات تھی کہ اللہ تعالیٰ نے اُن کو نوع انسانی کے سب سے مبارک گھرانے کامرکز محبت بنایا۔ عورت اپنے خاندان اور گھر کا مرکز محبت ہوتی ہے اِسی لئے قرآن کریم میں صنفی مساوات کاذکر کرتے ہوئے اللہ رب العالمین فرماتا ہے:’’میں تم میں سے کسی بھی عمل کرنے والے کے عمل کو ضائع نہیں کروں گا چاہے وہ مرد ہو یا عورت، تم میں بعض بعض سے ہیں‘‘[4]
حضور نبی کریمؐ کے اعلان نبوت کے بعد حضرت خدیجہ نے ایک لمحہ کی تاخیر کیے بغیر اسلام قبول کیا اور آپؐ کی نبوت کی تصدیق کرتے ہوئے آپؐ پر ایمان لائیں ۔علامہ ابن اثیر اپنی مشہور کتاب اسرالغلبۃ فی معرفۃ الصحابۃ میں لکھتے ہیں کہ ’’وہ خلق خدا میں سب سے پہلے اسلام لانے والی تھیں۔ اس معاملہ میں نہ کسی مرد اور نہ کسی عورت نے اُن سے سبقت کی ‘‘۔ہم بھی آج حضرت خدیجہؓ کے کردار کو سامنے رکھتے ہوئے وطن عزیز میں عورت کے لئے راہ عمل معین کریں ۔ معاشرے میں اُس کے استحصال پر کڑی نظر رکھیں اور اُس کے لئے محبت اور حفاظت کا ماحول بنانے کاانتظام کریں۔ مردوں کے اس معاشرے میں حضور نبی کریم ؐ کی سیرت کی شفقت کو عام کریں اور وہی ماحول بنائیں، جس میں زندہ درگور ہوتی عورت کو انسانیت کا شرف ملا۔ سر اٹھاکر جینے کا سلیقہ ملا ، اظہار رائے کی آزادی ملی اور اس کی صلاحیتوں کو اُجاگر کیا گیا اور اس کی حوصلہ افزائی کی گئی۔ اس کے خاندان کا مرکز محبت ہونے کے کردار کو ہی اتنی اہمیت دی گئی کہ اُس دور کی عورت کو اس غلط فہمی کا موقع ہی نہ مل سکا کہ گھر ایک قید خانہ ہے۔ اُس نے گھر کو جنت بناکر اُسی کردار کو اتنا احسن طریقے سے ادا کیاکہ اُس نے ایک ایسی نسل تیار کی کہ جس نے ایسا معاشرہ تخلیق کیا جو آج بھی ڈیڑھ ارب انسانوں کے لئے آئیڈیل کی حیثیت رکھتاہے۔
حضرت خدیجہ کو بطور رول ماڈل سامنے رکھتے ہوئے ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارا معاشرہ انؓ کے تاریخ ساز کردار سے عمل کی راہوں کو روشن کرسکے۔ ہم بھی اپنی عورتوں کو ویسے ہی حقوق دیں ۔ اُن کی اسی طرح سے حوصلہ افزائی کریں ۔ ان کے لئے محبت اور حفاظت کے حصار مہیا کریں، کیونکہ ایک روایت کے مطابق بی بی حوا کو حضرت آدم ؑ کی پسلی سے پیدا کیا گیا اور پسلی دل کے قریب اور بازو کے نیچے ہوتی ہے۔ عورت کی فطرت کو اسی طور پر پیدا کیا گیا کہ وہ محبت اور حفاظت کی محتاج ہوتی ہے اور جس بھی عورت کو یہ حصار میسر ہوجائے وہ ہر ناممکن کام کو ممکن کرجاتی ہے۔ ہماری یہ بد قسمتی رہی ہے کہ جس تاریخ اور معاشرے کو مردوں اور عورتوں نے مل کر بنایاہے اُس میں سے عورت کو غائب کر دیا گیاہے۔ اِسی لئے دنیا نے ہماری تاریخ اور معاشرے دونوں کا ادھورا اور ناقص تصور لے لیا ہے۔

 

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ جات

[1]  خَيْرُ نِسَائِهَا خَدِيجَةُ وَ خَيْرُ نِسَائِهَا مَرْيَمُ  بحارالأنوا، ج۱۶، ص۷، باب ۵- تزوجه ص بخديجة رضي الله عنها. محمد باقر بن محمد تقى بن مقصود على مجلسى، معروف به علامه مجلسى‏، انتشارات مؤسسة الوفاء بيروت – لبنان‏، 1404 قمرى‏۔
[2]  فِي خَدِيجَةَ رَغْبَةٌ وَ لَهَا فِيهِ رَغْبَة ، الكافي، ج۵، ص۳۷۴۔ باب خطب النكاح ….، محمد بن يعقوب بن اسحاق كلينى رازی،  انتشارات دار الكتب الإسلامية، تهران‏، 1413ھ، چاپ چهارم‏۔
[3]  امالی الصدوق، ص۶۳۱، محمد بن على بن حسين بن بابويه قمى، مشهور به «شيخ صدوق»، انتشارات كتابخانه اسلاميه، چاپ چهارم با اصلاحات سال انتشار : 1362 شمس
[4]  آل عمران/195۔

تبصرے
Loading...