امام خمینیؒ اور ایران کا اسلامی انقلاب(۲)

3: اعلمیت: علم کے ذریعے آدمی ایمان و یقین کی دنیا آباد کرتا ہے، بھٹکے ہوئے لوگوں کو سیدھا راستہ دکھاتا ہے، بروں کو اچھا بناتا ہے، دشمن کو دوست بناتا ہے، بے گانوں کو اپنا بناتا ہے اور دنیا میں امن و امان کی فضا پیدا کرتا ہے۔ علم کی فضیلت و عظمت، ترغیب و تاکید مذہب اسلام میں جس بلیغ و دل آویز انداز میں پائی جاتی ہے اس کی نظیر اور کہیں نہیں ملتی، تعلیم و تربیت، درس وتدریس تو گویا اس دین برحق کا جزو لاینفک ہو۔اسی لئے حصول علم کی تاکید بہت سے آیات و روایات میں ملتی ہے۔[1]
بے شک ایک قائد اور رہبر کے لئے سب سے پہلی چیز جو کافی اہمیت کا حامل ہوتی ہے وہ ہے علم و عمل سے مالا مال ہونا ، تاریخ گواہ ہے خدا نے بھی اپنی خلافت اسی کو دی جو علم و عمل سے سرشار تھا، اس لئے کہ علم و آگاہی کے بغیر جو اقدام ہوتا ہے  اسمیں امت کا     ہمیشہ نقصان ہوتا ہے یعنی ایک جاہل انسان اگر کسی کی بھلائی کے لئے قدم اٹھاتا ہے ممکن ہے اس کا ہدف اچھا ہو مگر اس کی جھل کی بناء پر وہ مد مقابل کے ضرر پر تمام ہوتا ہے یہی وجہ ہے امام علی ؑ نے بھی اپنی وصیتوں میں ایک وصیت امام حسن سے یہی کی تھی کہ بیٹے سفیہ اور جاہل سے دوستی مت کرنا۔
حضرت امام خمینی ؒ ابتدائی تعلیم سے حصول علم میں کافی سنجیدہ رہے ہیں، جیسا کہ آپ نے مقدمہ ملاحظہ فرمایا کہ اتنے عزیز و اقارب کو کھونے کے بعد بھی آپ کی پوری توجہ حصول تعلیم پر ہی متمرکز رہی۔اسی لئے کافی کم وقت میں آپ نے نجف اور قم  میں اپنا علمی معیار بنالیا تھا  اور انقلاب اسلامی سے پہلے ہی نجف و اور قم کے بڑے علماء نے آپ کی مرجعیت کا اعلان بھی کردیا تھا۔
حضرت اما م خمینی کی یہی خصوصیت جو آپ کی کامیابی میں بہت زیادہ موئثر ثابت ہوئی آپ کا مرجع تقلید ہونا تھا یہ امر سبب بنا کر جو افراد داخلی طور پر انقلاب کو انجام دے رہے تھے آپ کے افکار قبول کرنے پر دل و جان سے آمادہ ہوئے اوروہ خود کو اس بات کا ذمہ دار سمجھتے تھے کہ ان کی تبلیغ و ترویج کریں اور زندگی کے آخری لمحات تک ان کا دفاع کریں ، یقیناً یہ بات آیات و روایات سے بھی واضح  ہے کہ دینی قائد اگر علم و عمل میں کمال کی منزل پر فائزہو، اس کا ہر قول و فعل خدا کے لیے ہو، وہ خدا کے علاوہ کسی سے نہ ڈرتا ہو، عقل و شعور، قوتِ مشاھدہ و مطالعہ اور نکتہ رسی میں کامل ہو، تحریر و تقریر میں تاثیر رکھتاہو، دین کے تقاضوں سے واقف ہو، محل و موقع پہچانتا ہو ، قوم و ملت کی فطرت و صلاحیت سے آشنا ہو ، اس کے ساتھ ہی دلوں کی زمیں بھی قبول کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو تو وہ دلوں پر حکومت کرتا ہے اور اس کی ہر کوشش نتیجہ خیز ہو تی ھے اور اس کا ہر برمحل اقدام کامیابی سے ہمکنار ہو تا ہے ۔ خواب غفلت میں پڑی ہو ئی ملت سر کی بازی لگا کر اٹھ کھڑی ہو تی ہے ۔ 

4: احساس ذمہ داری

امام خمینی کا وجود خدا کی عظیم نعمت تھا ۔ علمی و عملی کمالات کے حاصل کرنے کی سچی لگن قدرت کا عطیہ تھی ۔ آپ جو کچھ دینی علوم کے خزانے میں سے غیر معمولی اہتمام کے ساتھ سمیٹ رہے تھے ۔ اس میں فقط یہی جذبہ کار فرما تھا کہ دین حق پر باطل نے جو پردے ڈال دیے ہیں انھیں اپنی کاوشوں سے ہٹا کر جلا بخشیں، اس کا حق اسے دلائیں نیز ملت کے مستضعفین کی ہر ممکن مدد کرکے زبوں حالی و گمنامی کے غار سے نکال کر سکون اور روشنائی کے بام پر بپنچائیں، کیوں کہ احساس ذمہ داری کے لیے آپ کے پہلو میں درد مندی و ھمدردی سے بھرا ھوا مضطرب دل تھا، دین و ملت کو کشمکش کی حالات اور شکنجے میں دیکھ کر مصلحت آمیز خاموشی اختیار کرنا آپ کی فطرت کے خلاف تھا ۔ دین الٰہی کی تنزلی و گمنامی امت مسلمہ کی ذلت و رسوائی، دردناک مناظر، ابتداء سے ہی آپ کے پیش نظر تھے ۔ جب کسی کے دل میں سچا جذبہ ہوتا ہے تو خدا بھی اس کی مدد اپنی توفیقات سے کرتا ہے ۔ خداوند کریم نے امام خمینی کو اپنی تائید کے سائے میں اوصاف کے ان اسلحوں سے آراستہ کردیا جو مرجعیت و قیادت کے لئے ضروری ھیں تا کہ وقت آنے پر دین و ملت کو مفاد پرستوں کے خونخوار چنگل سے چھڑا سکیں ۔ غیبت کے تاریک دور میں امام معصوم عجل اللہ فرجہ کی نیابت کا فرض صحیح ڈھنگ سے ادا کرسکیں ۔ 
2۔ اتحاد: قرآن کریم نے مختلف مقامات پر مسلمانوں میں اتحاد و یکجہتی کی دعوت دی ہے۔ [2]اور مسلمانوں کو آپس میں لڑنے سے منع کیا ہے۔[3] اسکی وجہ بھی مفسرین نے یہی بیان کی ہے کہ اگر مسلمان آپس میں لڑیں گے تو ان کا رعب و دبدبہ ختم ہوجائے گا اور ظالم و جابر بر سر اقتدار آجائیں گے اور لوگوں پر حکومت کرنا شروع کردیں گے۔
بلا شبہ جس ہستی نے اس انقلاب کی قیادت و رہبری کی ملکی و غیرً ملکی تما م تر رکاوٹوں اور مادی وسائل کی کمیوں کے باو جود پوری ملت کو اپنے گرد جمع کر کے نہ صرف اس اسلامی انقلاب کو ایران میں کامیابی سے ہمکنار کیا بلکہ پورے عالم اسلام میں اسلامی حریت کا بیج چھڑک دیا ور مسلمانوں میں ایک نئی امن اور ولولہ بیداری و آگاہی کی انقلابی کیفیت پیدا کر دی یقینا یہ ہستی عالم اسلام کی ایک غیر معمولی اور اشتنائی شخصیت کی حامل ہے ۔ ظاہر ہے اس عظیم ہستی نے مسلمانوں کی آگاہی او بیداری، ان کے درمیان اتحاد ویکجہتی اور ان کے امراض کی تشخص اور علاج کے سلسلہ میں بے پناہ تکلیفیں اور مشقیں اٹھائی ہیں۔ملا قاتیوں کے سامنے مختلف جلسوں میں بیان فرمائی ہیں ان کا مطالعہ کیا اور شاید ہی کوئی ایسی نشست ہو جس میں آپ نے امت مسلمہ کے اصل مرض اختلاف اور فرقہ بندی کو ختم کرنے اور باہمی وحدت و اتحاد قائم کرنے کے سلسلے میں جو آپ کی نظر میں اس کا بہتریں علاج تھا اور جس کے ذریعہ آپ کو کامیابی ہوئی ہے سخت تاکید و نصیحت سے کام نہ لیا ہو ۔حضرت امام خمینی قم شہر میں علماء کے ایک وفد کے سامنے فرماتے ہیں ۔ میں چاہتا ہوں کہ اسلامی امتیں اٹھ کھڑی ہوں اور وحدت کلمہ کے ساتھ اسلام اور ایمانی قوت پر بھروسہ کرتے ہوئے غیروں پر اور ان تمام طاقتوں پر جو وملت کو ہمیشہ اپنے اختیار اور تسلط میں رکھنا چاہتی ہیں غلبہ حاعل کریں صدر اسلام میں مسلمانوں کی کامیابی کا راز یہی وحدت کلمہ اور ایمانی قوت تھی ۔اور اب احساس بھی کرتا ہوں اور لمس بھی کرتا ہوں کہ اگر ملت آپس میں اتحاد پیدا کرے اگر مختلف جماعتیں ایک ہو جائیں تو بڑی طاقتیں بھی ان کا مقابلہ نہیں کر سکتیں۔

5۔ عوام میں بیداری:قرآن کریم کے نازل ہونے کا سب سے بڑا ہدف لوگوں کی ہدایت کرنا اورانھیں غفلت سے نکال کر بیدار کرنا ہے[4] یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم میں بہت سے مقام پر غفلت کی مذمت کی گئی ہے، کیونکہ غفلت کا نتیجہ سوائے ھلاکت کے اور کچھ نہیں ہے۔[5]
امام خمینیؒ ، پوری تاریخ کے اندر لوگوں کی غفلت اور جہالت کو ملک کی تمام مشکلات کا سبب جانتے ہوئے فرماتے ہیں:
” اس تاریخی عرصے میں ہمیں جتنی مشکلات اور سختیاں پیش آئیں ان سب کی وجہ لوگوں کی نادانی اور جہالت تھی۔لوگوں کی نادانی کو آلہ کار بنایا گیا اور ان کی اپنی مصلحت کے خلاف استعمال کیا گیا۔ ان کے پاس اگر علم تھا بھی تو جھت دار تھا۔ ” [6]
چنانچہ اس عظیم انقلاب کے بانی و رہبر امام خمینی اس عظیم نکتہ سے بھی غافل نہیں تھے، یہی وجہ ہے آپ نے لوگوں کی بیداری کے لئے بھی ایسے راستوں کا انتخاب کیا تھا جو محمد و آل محمد علیھم السلام نے منتخب کیا تھا اور وہ ہے ’’جوان و نوجوانوں کی تعلیم و تربیت‘‘ آپ نے دوران جوانی سے ہی یعنی انقلاب کے ۴۰ سال پہلے یہ کام شروع کردیا تھا۔ آپ ہمیشہ نوجوانوں کی فکروں کی اصلاح میں مصروف ہوگئے، ساتھ ساتھ ایسے شاگردوں کی پرورش بھی کی تاکہ آپ کی عدم موجود گی میں ان جوان و نوجوانوں کی تربیت کا مشن رکنے نہ پائے اسی لئے جب آپ کو اپنے عزیز وطن سےجلاوطن کردیا گیا تب بھی آپ کا پیغام لوگوں تک پہنچ جایا کرتا اور آپ کا مشن بھی اپنی جگہ پا برجا تھا اور ایک دن ایسا بھی آیا کہ آپ کی محنت اور مشقت ایسا رنگ لائی کہ وہاں پر تین سو سال سے ظلم و جور کرنے والی شہنشائت اپنے پیروں پر نہ کھڑی رہ سکی اور صدیوں سے خدا کا یہ قانون ’’ جاء الحق و زھق الباطل‘‘ دوبارہ نافذ ہوتے دیکھائی دیا خدا وند کریم ہمیشہ اس انقلاب کی حفاظت کرے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ جات

[1] سورة العلق  آیت 1،5. آل عمران 18، طہ ۱۱۴، فاطر 28، سورة المجادلہ آیت 11، سورةالزمر آیت 9، الکافی ج۱، ص۴۶۔ منيةالمريد 225، نھج الفصاحہ صفحہ ۷۰۵،حدیث ۲۶۶۹۔

[2] آل عمران/103تا 105۔

[3] بقرہ/286 و حجرات/10 و مائدہ/1 و 2۔

[4] بقرہ/۲۔

[5] رجوع کریں: سورہ فرقان/۱۸۔ منافقون/9۔ زمر/۲۲۔

[6] صحیفہ امام ؒ، ج۱۳، ص ۴۵۲

تبصرے
Loading...