اسلام میں جنگ کا تصور اور اسکی مصلحت (۱)

اسلام ایک دین امن و امان کا نام ہے لہذا اس میں جنگ ہدف نہیں ہے بلکہ آخری وسیلہ ہے باغی اور ان کی بغاوت کو کچلنے کا، در حقیقت اسلام میں جنگ بالکل ایسے ہی ہے جیسے ایک ماہر اور متخصص ڈاکٹر کے لئے کسی مرض کو جڑ سے ختم کرنے کے لئے اپریشن۔

اسلام میں جنگ کا تصور اور اسکی مصلحت (۱)

جس طرح سے قصاص کا قانون افراد کے لئے ہے اسی طرح جماعتوں کے لئے بھی ہے، جس طرح افراد سرکش ہوتے ہیں اسی طرح جماعتیں اور قومیں سرکش ہوتی ہیں۔ جس طرح افراد حرص و طمع سے مغلوب ہو کر اپنی حد سے تجاوز کرجاتے ہیں اسی طرح جماعتوں اور قوموں میں بھی یہ اخلاقی مرض پیدا ہوجایا کرتا ہے، اس لئے جس طرح افراد کو قابو میں رکھنے اور تعدی سے باز رکھنے کے لئے خونریزی ناگزیر ہوتی ہے اسی طرح جماعتوں اور قوموں کی بڑھتی ہوئی بدکاری کو روکنے کے لئے بھی جنگ ناگزیر ہوجاتی ہے، نوعیت کے اعتبار سے انفرادی اور اجتماعی فتنہ میں کوئی فرق نہیں ہے ، مگر کیفیت کے اعتبار سے عظیم الشان فرق ہے، افراد کا فتنہ ایک تنگ دائرے میں محدود ہوتا ہے، انسانوں کی ایک قلیل جماعت کو اس سے آزار پہنچتا ہے مگر جماعتوں کا فتنہ ایک غیر محدود مصیبت ہوتا ہے جس سے بے شمار انسانوں کی زندگی بیزار ہوجاتی ہے ، پوری پوری قوموں پر عرصہ حیات تنگ ہوجاتا ہے۔جسے قرآن مجید میں اثخان فی الارض کے معنی خیز لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔
جماعتیں جب سرکشی پر آتی ہے تو کوئی ایک فتنہ نہیں ہوتا جو وہ برپا کرتی ہوں ان میں طرح طرح کے شیطان شامل ہوتے ہیں اس لئے طرح طرح کی شیطانی قوتیں ان کے طوفان میں ابھر آتی ہے اور ہزاروں قسم کے فتنے ان کی بدولت اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔بعض ان میں دہن دولت کے لالچی ہوتے یں تو وہ غریب قوموں پر ڈاکے ڈالتے ہیں ، بعض ان میں ہوائے نفسانی کے بندے ہوتے ہیں وہ اپنے جیسے انسانوں کے خدا بن بیٹھتے ہیں، بعض ان میں ایسے ہوتے ہیں جن پر جہانگیری و کشورستانی کا بھوت سوار ہوتا ہے تو وہ بے بس اور کمزور قوموں کی آزادیاں سلب کرتے ہیں، خدا کے بندوں کے خون بہاتے ہیں اپنی خواہش اقتدار کو پورا کرنے کے لئے زمین پر فساد پھیلاتے ہیں اور آزاد انسانوں کو اس غلامی کا طوق پہناتے ہیں جو تمام اخلاقی مفاسد کی جڑ ہے۔ان شیطانی کاموں کے ساتھ جب اکراہ فی الدین بھی شامل ہوجاتا ہے اور ان ظالم جماعتوں میں سے کوئی جماعت اپنی اغراض کے لئے مذہب کو استعمال کرکے بندگان خدا کو مذہبی آزادی سے بھی محروم کردیتی ہے اور دوسروں پر اس وجہ سے ظلم و ستم کرتی ہے کہ وہ اس کے مذہب کے بجائے اپنے مذہب کی پیروی کیوں کرتے ہیں تو یہ مصیبت اور بھی زیادہ شدید ہو جاتی ہے۔
ایسی حالت میں جنگ جائز ہی نہیں بلکہ فرض ہوجاتی ہے، اس وقت انسانیت کی سب سے بڑی خدمت یہی ہوتی ہے کہ ان ظالموں کے خون سے زمین کو سرخ کردیا جائے اور ان مفسدوں اور فتنہ پردازوں کےشر سے اللہ کے مظلوم و بے بس بندوں کی نجات دلائی جائے جو شیطان کی امت بن کر اولاد آدم پر اخلاقی، روحانی اور مادی تباہی کی مصیبتیں نازل کرتے ہیں۔وہ لوگ در اصل انسان نہیں ہوتے کہ انسانی ہمدردی کے مستحق ہوں بلکہ انسان کےلباس میں شیطان اور انسانیت کے حقیقی دشمن ہوتے ہیں جن کے ساتھ اصلی ہمدردی یہی ہے کہ ان کے شر کو صفحہ ہستی سے حرف غلط کی طرح مٹادیا جائے، وہ درحقیقت انسانیت کے جسم کا ایسا عضو ہوتے ہیں جس میں زہریلا اور فاسد مادہ بھر گیا ہو، جس کے باقی رکھنے سے تمام جسم کے ہلاک ہوجانے کا اندیشہ ہو، اس لئے عقل و مصلحت اندیشی کا تقاضا یہی ہوتا ہے کہ اس فاسد و مفسد عضو کاٹ پھینکاجائے ، بہت ممکن ہے کہ دنیا میں کوئی قوم و ملت کا دکھاوے کا درد رکھنےوالا تخیل پسند معلم یا متعلم ایسا بھی ہوجس کے نزدیک ایسے ظالموں کا قتل بھی پاپ ہو اور اس کی بزدل روح اس خون کے سیلاب کے تصور سے کانپ اٹھتی ہو جو ان کا شر دفع کرنے میں بہتا ہے، مگر ایسا معلم دنیا کی اصلاح نہیں کرسکتا ہے ، وہ جنگلوں اور پہاڑوں میں جاکر تقوی و ریاضت سے اپنی روح کو تو ضرور تسکین پہنچاسکتا ہے، مگر اس کی تعلیم دنیا کو بدی سے پاک کرنے اور ظلم و سرکشی سے محفوظ رکھنے میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی ۔
عملی اخلاق، جس کا مقصد تمدن کا صحیح نظام قائم کرنا ہے، در اصل ایک دوسرا فلسفہ ہے جس میں خیالی لذت کے سامان ڈھونڈنا بیکار ہے، جس طرح علم طب کا مقصد لذت کام و دہن نہیں بلکہ اصلاح بدن ہے، خواہ کڑوی دوا سے ہو یا میٹھی سے، اسی طرح اخلاق کا مقصد بھی لذت ذوق و نظر نہیں ہے بلکہ دنیا کی اصلاح ہے، خواہ سختی سے ہو یا نرمی سے۔ کوئی سچا اخلاقی مصلح تلوار اور قلم میں سے صرف ایک ہی چیز کو اختیار کرنے اور ایک ہی ذریعہ سے فریضہ اصلاح انجام دینے کی قسم نہیں کھا سکتا، اس کو اپنا پورا کام کرنے کے لئے دونوں چیزوں کی یکساں ضرورت ہے۔
جب تک تلقین و تبلیغ باغی جماعتوں کو اخلاق و انسانیت کے حدود کا پابند بنانے میں کارگر ہوسکتی ہو، ان کے خلاف تلوار استعمال کرنا ناجائز بلکہ حرام ہے، مگر جب کسی جماعت کی شرارت و بدباطنی اس حد سے گزر چکی ہو کہ اسے وعظ و تلقین سے راہ راست پر لایاجاسکے، اور جب اس کو دوسروں کی عزت و شرافت پر حملے کرنےسے، اور دوسروں کی اخلاقی و روحانی اور مادی زندگی سے باز رکھنے کی کوئی صورت جنگ کے سوا باقی ہی نہ رہے تو پھر یہ ہر سچے انسان کا اولین فرض ہوجاتا ہے کہ اس کے خلاف تلوار اٹھائے اور اس وقت تک آرام نہ لے جب تک خدا کی مخلوق کو اس کے کھوئے ہوئے حقوق واپس نہ مل جائے۔۔۔۔جاری

تبصرے
Loading...