نصیحت ‘ عقیدہ اور کردار بروئے تعلیمات جعفری

امام جعفر صادق (علیہ السلام ) کے نظریات میں سے ایک نظریہ یہ ہے کہ ہر شخص کا عمل اس کے عقیدے کے مطابق ہونا چاہیے اور ہر شخص کے عقیدے کو اس کے افکار کی عکاسی کرنا چاہیے جعفر صادق (علیہ السلام ) نے فرمایا انسان شروع میں صدیق پیدا ہوتا ہے اور اپنے عقیدے کے خلاف کوئی عمل انجام نہیں دیتا لیکن بعد میں بعض اشخاص میں یہ بات نمودار ہوتی ہے کہ ان کا عمل ان کے عقیدے کے برعکس ہوتا ہے اور وہ جھوٹ سے کام لیتے ہیں جعفر صادق (علیہ السلام ) نے فرمایا ‘ چھوٹا بچہ جھوٹ نہیں بولتا اس کا عمل اس کے عقیدے کا عکاس ہوتا ہے اگر اسے کوئی اچھا لگے تو اس کی گود میں چلا جاتا ہے اور اگر اسے کوئی برا لگے تو اس سے منہ پھیر لیتا ہے جس چیز کو پسند کرتا ہے ‘ اس کی طرف ہاتھ بڑھاتا ہے اور جس چیز سے نفرت کرتا ہے اس سے ہاتھ کھینچ لیتا ہے یہ علامتیں اس بات کی غمازی کرتی ہیں کہ انسان ابتدا میں صدیق ہوتا ہے اور اس کے اعمال اس کے تصور کے عین مطابق ہوتے ہیں لیکن جب بلوغت کی منزل پر آتا ہے تو بعض لوگوں کا کردار ان کی سوچ کے برعکس ہوتا جاتا ہے اور جھوٹ ‘ سچائی کی جگہ لے لیتا ہے ۔

 فرض کیا قدیم زمانے میں آبادی زیادہ تھی لیکن آج کی مانند صنعتیں موجود نہ تھیں ‘ کہ آلودگی خطرناک شکل اختیار کر لیتی پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آریائی اقوام نے ماحول کو آلودگی سے بچانے کے لئے اتنی سنجیدگی کیوں دکھائی کہ آلودگی سے احتراز کرنا اپنے مذاہب کے اصول کا جزو بنا لیا اور ہندوستان و ایران غریضہ جہان جہان آریائی اقوام آباد تھیں انہوں نے ماحول کو آلودگی سے بچانے کیلئے اپنی پوری کوشش کی ۔ اور جیسا کہ اس سے پہلے اشارہ کیا جا چکا ہے کہ ان کی یہ کوشش اندیشے کا درجہ اختیار کر گئی ۔

کیا ہم یہ سوچ سکتے ہیں کہ آریاؤں کی ہجرت سے پہلے اس کرہ ارض پر ایک ایسا تمدن موجود تھا جس نے ماحول کو آلودہ کیا اور آلودگی کے نتیجے میں وہ تمدن مٹ گیا یا اسے شید نقصان اٹھانا پڑا ہمارا خیال ہے یہ بات عقلمندوں اوردانشوروں نے گھڑی ہے تاکہ آئندہ آنے والے لوگ زندگی کے ماحول کو آلودہ کرنے سے پرہیز کریں ۔

 اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ یہ بات صرف تخیل کی حد تک نہیں بلکہ حقیقت ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ ناصحوں نے صرف آریائی اقوام کو دیکھا ہے اور دوسری قوموں کا مشاہدہ نہیں کیا چونکہ ان کی نصیحت صرف آریائی اقوام تک ہی محدود ہے انہوں نے کسی دوسری قوم سے یہ اندیشہ ظاہر نہیں کیا کہ وہ بھی اپنی زندگی کے ماحول کو آلودہ کر سکتی ہے اگرچہ یہ آلودگی اس درجے تک نہیں پہنچتی تھی کہ لوگوں کے لئے خطرہ پیدا ہوتا جعفر صادق (علیہ السلام ) نہ صرف علمی مسائل میں نابغہ روزگار شمار ہوتے تھے اور آپ نے یہ صرف ایسی باتیں کہیں کہ آج ہم بارہ سو سال بعد بھی ان باتوں کو سن کر حیران ہوتے ہیں بلکہ آپ ایک قابل نظریاتی انسان بھی شمار ہوتے ہیں ۔ اور آئیڈولوجی کے لحاظ سے آپ کے نظریات بارہ سو سال بعد قابل توجہ ہیں اگرچہ سترھویں صدی کے بعد دنیا میں بڑے بڑے نظریاتی لوگ پیدا ہوئے ۔

 جعفر صادق (علیہ السلام ) کے نظریات میں سے ایک نظریہ یہ ہے کہ ہر شخص کا عمل اس کے عقیدے کے مطابق ہونا چاہیے اور ہر شخص کے عقیدے کو اس کے افکار کی عکاسی کرنا چاہیے جعفر صادق (علیہ السلام ) نے فرمایا انسان شروع میں صدیق پیدا ہوتا ہے اور اپنے عقیدے کے خلاف کوئی عمل انجام نہیں دیتا لیکن بعد میں بعض اشخاص میں یہ بات نمودار ہوتی ہے کہ ان کا عمل ان کے عقیدے کے برعکس ہوتا ہے اور وہ جھوٹ سے کام لیتے ہیں جعفر صادق (علیہ السلام ) نے فرمایا ‘ چھوٹا بچہ جھوٹ نہیں بولتا اس کا عمل اس کے عقیدے کا عکاس ہوتا ہے اگر اسے کوئی اچھا لگے تو اس کی گود میں چلا جاتا ہے اور اگر اسے کوئی برا لگے تو اس سے منہ پھیر لیتا ہے جس چیز کو پسند کرتا ہے ‘ اس کی طرف ہاتھ بڑھاتا ہے اور جس چیز سے نفرت کرتا ہے اس سے ہاتھ کھینچ لیتا ہے یہ علامتیں اس بات کی غمازی کرتی ہیں کہ انسان ابتدا میں صدیق ہوتا ہے اور اس کے اعمال اس کے تصور کے عین مطابق ہوتے ہیں لیکن جب بلوغت کی منزل پر آتا ہے تو بعض لوگوں کا کردار ان کی سوچ کے برعکس ہوتا جاتا ہے اور جھوٹ ‘ سچائی کی جگہ لے لیتا ہے ۔

 آج حیوانات اور بشریات کے ماہرین اس بارے میں کہ انسان صدیق پیدا ہوتا اور اس کے اعمال اس کے عقیدے اور تصور سے مطابقت رکھتے ہیں جعفر صادق (علیہ السلام ) سے اگے نکل گئے ہیں ان کے بقول شروع میں انسان جھوٹ نہیں بو ل سکتا تھا اور نہ ہی اپنے عقیدے اور سوچ کے برعکس کوئی کام انجام دے سکتا تھا جو چیز اس کے جھوٹ بولنے اور اپنے عقیدے کے برعکس عمل کرنے کا سبب بنی وہ اس کی گفتگو ہے جس دن تک انسان نے بولنا نہیں سیکھا تھا وہ جس انداز سے سوچتا اسی انداز سے عمل کرتا تھا اور جھوٹ نہیں بول سکتا تھا جو کچھ اس کے باطن میں ہوتا اسے ظاہر کر دیتا ۔

 بنی نوعی انسان کی اجتماعی حالت ‘ جانوروں کی اجتماعی حالت جیسی تھی ‘ مثلا جیسا کہ آج ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ جب دو جانور ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو اگر وہ ایک دوسرے کو پسند کرتے ہوں تو آپس میں دوستی گانٹھ لیتے ہیں لیکن اگر ایک دوسرے کو ناپسند کرتے ہوں تو آپس میں لڑنا جھگڑنا شروع کر دیتے ہیں ۔

 ہر جانو ر کا دوسرے جانور کے متعلق باطنی احساس ایسا ہے کہ گویا وہ اس جانور کے بدن پر لکھا ہوا ہے اور جو نہی اسے دوسرا جانور دیکھتا ہے تو وہ اس باطنی احساس کو فورا محسوس کر لیتا ہے شروع شروع میں انسان بھی ایسا ہی تھااور یہ ریا کاری سے کام نہیں لے سکتا تھا ‘ جو کچھ اس باطن میں ہوتا فورا اسے ظاہر کر دیتا لیکن جب اس نے بول چال سیکھی اور یہ اپنے مدعا کو اپنے کلام بیان کرنا سیکھا چونکہ کلام کرنے کے نتیجے میں اس نے اپنے تجربات دوسروں تک پہنچائے اور اسی طرح دوسروں کے تجربات سے خود سبق حاصل کیا اور یوں انسان نے اپنی معلومات میں اضافہ کیا لیکن یہی کلام جس کے ذریعے بنی نوع انسان کی ترقی کی راہیں کھلیں بنی نوع انسان کے جھوٹ بولنے ‘ ریا کاری سے کام لینے اور عقیدے اور تخیل کے برعکس کردار سازی (منفافقت )کاباعث بھی بنا ۔

 موجودہ زمانے کے مشہور معروف ڈنمارکی محقق اور مصنف پالووان مولہ کے بقول انسان شروع میں اپنی زندگی سے وابستہ دو چیزوں سے مطلع نہیں رہا ۔ ایک جھوٹ اور دوسری موت ۔

 اس ڈنمارکی مصنف نے مرگ ہابیل کے نام سے ایک کتاب تحریر کی ہے جسے اہل ادب نے موجودہ زمانے کے اچھے ادبی آثار میں شمار کیا ہے ‘ یہاں اس کتاب کی تفصیل تو نقل نہیں ہو سکتی بہر کیف چند سطور کا ذکر بے محل نہیں ہے ۔

پالووان مولہ اپنے ناول میں لکھتا ہے کہ قابیل اپنے بھائی ہابیل کو قتل کرنے کے بعد رونے لگا اس پر حوا اپنے بیٹے ہابیل کی طرف گئی اور اس کے سر کو زمین سے بلند کرنے کے بعد اسے دلاسا دیا اسے یقین تھا کہ اس کا بیٹا سویا ہوا ہے سورج کے غروب ہونے سے تھوڑی دیر پہلے جب آدم صحرا سے واپس ایا تو حوا نے اسے کہا کہ معلوم نہیں یہ ہابیل نیند سے بیدار کیوں نہیں ہوتا ؟

 آدم نے کہا ‘ کس وقت سویا ہے ؟ حوان نے کہا ظہر کے بعد سویا ہے آدم بولا ضرور یہ کافی تھکا ہوا ہے اس لیے اسے سونے دو تاکہ اس کی تھکاوٹ مکمل طور پر دور ہو جائے ‘ اس وقت تک ہابیل خیمہ کے باہر پڑا ہوا تھا پھر وہ اسے اٹھا کر خیمے کے اندر لے گئے اور اس کے بعد آدم اور حوا بھی سو گئے جب یہ دونوں سو کر صبح کے وقت اٹھے تو دیکھا کہ بابیل تو اسی طرح سو رہا ہے آدم نے حوا سے کہا کہ میرا خیال ہے بابیل دوبارہ درخت سے گرا ہے کای تمہیں یاد ہے کہ یہ جب پہلی مرتبہ درخت سے گرا تھا تو ایکژ دن و رات سوتا رہا تھا ‘ حتی کہ اس نے اس دوران آنکھ بھی نہیں کھولی تھی حوا نے شوہر سے کہا سورج نکل آیا ہے لہذا آپ بابیل کو خیمے سے نکال کر دھوپ پر رکھیں تاکہ سورج کی حرارت سے اس کا جسم گرم ہو چونکہ اس کے ہاتھ ٹھنڈے ہیں لہذا شاید سردی نے اس کی یہ حالت بنائی ہے ‘ آدم نے بیٹے کو اٹھایا اور خیمے سے باہر نکال کر دھوپ میں رکھ دیا لیکن ہابیل سورج کی حرارت پئہنچنے پر بھی نیند سے نہیں اٹھا آدم نے بیٹے کو آہستہ سے ہلایا اور کہا ہابیل بیدار ہو جاؤ اور کھانا کھاؤ ۔ تم کل سے سوئے ہوئے ہو اور ابھی تک کھانا نہیں کھایا ‘ کیا تمہیں بھوک نہیں لگ رہی ‘ اٹھو ‘ کھانا کھاؤ ‘ ہابیل نے کوئی جواب نہ دیا اور نہ ہی آنکھیں کھولیں ۔

 اس دن ہابیل سورج غروب ہونے تک دھوپ میں پڑا رہا ۔ جب شام کو آدم صحرا سے لوٹ کر گھر آیا تو اپنے بیٹے کی طویل نیند پر حیران ہوا اور حوا سے مخاطب ہو کر کہنے لگا جب پہلی دفعہ درخت سے گرا تھا تو چوبیس گھنٹے گزرنے کے بعد سے جاگ گیا تھا ۔ لیکن مجھے حیرانی ہو رہی ہے کہ اس دفعہ کیوں نہیں اٹھ رہا ۔ جب رات پڑ گئی تو آدم بیٹے کو اٹھا کر خیمے میں لایا اور اسے زمین پر رکھ دیا اس کے بعد آدم اور حوا دونوں سو گئے ‘ جونہی وہ صبح بیدار ہوئے انہیں خیمے سے ناگوار بو آنے لگی ۔

 یہ بو ان کیلئے نئی نہ تھی کیونکہ وہ یہ بو کئی مرتبہ صحرا میں جانوروں کی لاشوں سے سونگھ چکے تھے اور ایک مرتبہ آدم نے تین دن مسلسل بارہ سینگا کا شکار کیا اور حوا کیلئے لایا ور چونکہ چند دنوں میں ان سب بارہ سینگوں کا گوشت نہیں کھا سکتے تھے لہذا جو گوشت باقی بچا اس سے بد بو آنے لگی اور اس پر حوا نے اپنے شوہر سے کہا کہ وہ اس فاسد گوشت کو خیمے سے باہر نکال کر پھینک دے اس پر آدم نے گوشت کو خیمے سے باہر نکالا اور دور صحرا میں لے جا کر پھینک دیا ۔

 آدم و حوا کو اتنی سمجھ آ گئی تھی کہ جو بد بو وہ خیمے میں سونگھ رہے ہیں وہ کسی جانور کی لاش کی ہے لیکن اس خیمے میں کسی جانور کی لاش کا وجود نہ تھا جسکی بد بو وہ سونگھتے ۔ آخر کار آدم و حوا کی سمجھ میں یہ بات تو آ گئی کہ یہ بد بو ان کے اپنے بیٹے کی ہے لیکن وہ یہ نہ سمجھ سکے کہ ان کا بیٹا مرد ہے اور آدم نے ایکمرتبہ پھر ہابیل کو اٹھایا اور اسے خیمے سے باہر لے ایا تاکہ اسے دھوپ میں رکھے اور حوا سے مخاطب ہو کر کہنے لگا ہابیل کا بدن بہت ٹھنڈا ہے مجھے امید ہے کہ جب اس کا بدن دھوپ میں گرم ہو جائے گا تو یہ نیند سے بیدار ہو جائے گا ۔ لیکن جب وہ بیٹے کو دھوپ میں لایا تو اس کی شکل و صورت بدل گئی تھی اور اس کا رنگ سیاہ پڑ چکا تھ اآدم نے اپنی بیوی کو آواز دی ‘ جب وہ قریب آ گئی تو اس سے کہنے لگا ‘ ہابیل کا رنگ تو سیاہ پڑ چکا ہے حوا بھی بیٹیکے رنگ میں تبدیلی کی وجہ نہ جان سکی اس دوران جبکہ بیوی خاوند دونوں ہابیل کی سیاہ صورت کا مشاہدہ کر رہے تھے اور اس سے آنے ولی بد بو پر متحیر تھے چند گدھ آسمان پر نمودار ہوئے ۔ جونہی آدم نے صحرا کا رخ کیا اور حوا بھی ذرا سی خیمے سے دور ہوئی ‘ گدھ نہایت تیز سے ہابیل تک پہنچے اور اگر آدم کی آواز پر وہ وحشت زدہ نہ ہو جاتے تو ہابیل کی تکابوٹی کر دیتے ۔

 صرف قابیل ایسا سخص تھا جو انہیں یہ بتا سکتا تھا کہ ہابیل کیوں بیدار نہیں ہو رہا اور اس سے بدبو کیوں آ رہی ہے ؟ لیکن جس دن سے ہابیل گہری نیند سویا تھا اس دن سے قابیل کا کچھ اتہ پتہ نہ تھا ماں اور باپ دونوں طویل عرصے تک اس کی عدم موجودگی پر حیران نہ تھے کیونکہ بعض اوقات شکار کے تقاضے ایسے ہوتے تھے کہ اسے صحرا میں رکنا پڑ جاتا تھا اور وہ کئی کئی دن تک خیمے کو واپس نہیں لوٹتا تھا ۔

 حوا نے مشاہدہ کیا کہ کچھ گدھ آ کر قریب ہی زمین پر بیٹھ گئے جونہی وہ دونوں ہابیل کو چھوڑ کر اپنے کام کام میں مصروف ہونے کا ارادہ کرتے تو وہ گدھ اڑ کر ہابیل کے قریب آ جاتے اور اس پر جھپٹنا چاہتے لیکن جب وہ دیکھتے کہ وہ دونوں پر خیمے کی طرف لوٹ آئے ہیں تو دور ہٹ جاتے ‘ غرضیکہ یہ آنکھ مچولی جاری رہی ۔

 اس کے باوجود کہ ہابیل کی نعش سے بد بو آ رہی تھی پھر بھی آدم و حوا کو اس کی موت کا علم نہ تھا انہوں نے یہ بدبو صحرا میں گلے سڑے ہوئے جانوروں کی لاشوں سے سونگھی تھیا ور اتنا جانتے تھے کہ وہ جانور اب حرکت کر سکتے تھے اور نہ ہی غذا کھا سکتے تھے یعنی پہلی حالت پر کبھی بھی واپس نہیں آ سکتے تھے لیکن انہوں نے کبھی یہ سوچا بھی نہ تھا کہ انسان بھی جانوروں جیسا ہو سکتا ہے اس پر ایسا وقت آ سکتا کہ نہ تو وہ چل پھر سکے اور نہ کھا پی سکے غرضیکہ موت آدم اور حوا کی سمجھ میں نہیں آ رہی تھی جیسا کہ آج کرہ ارض پر انسان کی پیدائش کے کم از کم چار پانچ ملین سال گزرنے کے بعد بھی موت ہماری سمجھ میں نہیں آتی اور یہاں تک کہ وہ ممالک جہاں تعلیم یافتہ مرد اور عورتوں کی تعداد زیادہ ہے وہ لوگ یہ نہیں سوچتے کہ آدمی مرتا ہے بلکہ ان کا خیال ہے کہ زندہ جاوید ہے لیکن چونکہ طبعی لحاظ سے موت کے وجود کا انکار نہیں کیا جا سکتا کیونکہ موت کے بعد انسان کا جسم گل سڑ جاتا اور ختم ہو جاتا ہییہاں تک کہ کچھ عرصے بعد اس کی ہڈیاں بھی خراب ہو جاتی ہیں پھر بھی آج کا انسان انسان کی زندگی جاوید کا معتقد ہے اور اس کی عقل اس بات کو قبول نہیں کرتی کہ انسان اپنے جسم کے ساتھ زندہ رہ سکتا ہے لہذا انسان کہتا ہے کہ وہ اپنی روح کے ساتھ زندہ جاوید ہے جو لوگ مادہ پرست اور روح کے وجود کے منکر ہیں ان کا عقیدہ ہے کہ آدمی مکمل طور پر ختم نہیں ہوتا بلکہ اس سے کچھ چیز باقی رہ جاتی ہیں اگرچہ وہ شعاعوں کی شکل میں ہی کیوں نہ ہو ۔

 بیلجیم کا رہنے والا میٹر لینگ جو اس صدی کے فلسفیوں میں سے ہے ‘ اگرچہ ایک مادہ پرست انسان تھا لیکن اس کا کہنا تھا کہ سینکڑوں ملین سال پہلے اگر کسی ستارے کا عکس پانی پر پڑا ہے تو وہ نہیں مٹتا تو پھر انسان کیسے مٹ سکتا ہے اور یہی مادہ پرست انسان ارواح کی حاضری کے جلسوں میں حاضر ہوتا تھا چونکہ یہ اس بات کا معتقد تھا کہ ناگزیر انسان سے کوئی چیز باقی رہ جاتی ہے اور جو چیز انسان سے باقی رہتی ہے شاید اسی کے ذریعے انسان اس جہاں میں اپنے عزیزوں اور دوستوں سے رابطہ قائم کر سکتا ہے ۔

 آج سے ایک سو سال پہلے ‘ بھکاری راتوں کو سپین ‘ فرانس اور اٹلی کے گلی کوچوں میں صدا لگایا کرتے تھے کہ اے لوگو ‘ تمہاری میتیں تمہاری منتظر ہیں اور لوگ بھی معتقد تھے کہ میتیں زندہ ہیں اور انہیں غذا وغیرہ کی ضرورت ہے لہذا لوگ انہیں کچھ غذا اور تھوڑی بہت رقم دے دیتے تھے اور بعض رحم دل خواتین تو شراب کا جام بھی پلاتی تھیں کیونکہ انہیں یقین تھا کہ میتیں پیاسی ہیں اور انہیں پینے کی ضرورت ہے آج بھی فرانس ‘ سپین اور اٹلی جیسے ممالک میں لوگ اپنی میتوں کیلئے خیرات دیتے ہیں جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ لوگ میتوں کی زندگی کے معتقد ہیں چونکہ اگر وہ یہ سمجھیں کہ وہ واقعی مردہ ہیں تو ان کیلئے خیرات نہ دیں ۔

 اموات کے زندہ ہونے کے بارے میں لوگوں کا عقیدہ اس قدر پختہ ہے کہ آج کے سب سے مہذب ممالک میں بھی لوگ اپنی اموات کو سیر کرنے کیلئے فقرا میں کھانا تقسیم کرتے ہیں اور ان کا عقیدہ ہے کہ اگر بھوکے کو کھانا کھلایا جائے تو ان کی متیں جنہیں غذا کی ضرورت ہے سیر ہو جاتی ہیں لہذا ہمیں اس پر حیران نہیں ہونا چاہیے کہ آدم اور حوا موت سے کویں مطلع نہ تھیں ؟ اس کے باوجود کہ انہوں نے ہابیل کی سیاہ صورت دیکھی تھی اور اس کے جس سیبد بو بھی سونگھی تھی پھر بھی انہیں علم نہ تھا کہ وہ مردہ ہے نہ تو تو آدم صحرا کی طرف جا سکتا تھا اور نہ ہی حوا خیمے کو واپس جا سکتی تھی حتی کہ وہ گھریلو کام کاج کرنے سے بھی عاجز تھے کیونکہ جونہی گدھ دیکھتے کہ یہ دونوں ہابیل سے دور ہو گئے ہیں تو وہ فورا حملے کیلئے چھپٹ پڑتے ‘ یہاں تک کہ حوا نے اپنے شوہر سے کہا کہ یہ بہتر نہیں کہ جیسے ہم نہیں چاہتے کہ ہمارے گوشت ان جانوروں کے کام آئے اسی طرح ہابیل کو بھی مٹی کے نیچے دفن کر دیں ؟ پہلے اس بات کا تجربہ ہو چکا تھا کہ جب ان کے پاس زیادہ گوشت ہوتا تو وہ اسے محفوظ کرنے کیلئے ایک گڑھا کھود کر گوشت کو اس میں رکھنے کے بعد گوشت پر درختوں کے پتے رکھتے تاکہ گوشت کے ساتھ مٹی نہ لگے اور پھر اوپر مٹی ڈال کر اسے ڈھانپ دیتے تھے اور ایک یا دو دن بعد اسے نکال کر اپنے استعمال میں لاتے تھے ‘ حوا نے مشورہ دیا کہ ہابیل کو گدوں کی دست برو سے بچانے کیلئے اسے مٹی میں دفن کر دیا جائے ۔

 آدم پتھر کی خود ساختہ کدال لایا اور زمین کھودنا شروع کر دی جب وہ تھک جاتا تو کدال حوا کو دے دیتا اور پھر وہ زمین کھودنا شروع کر دیتی حتی کہ انہوں نے اتنی کھود ڈالی اور اتنی مٹی باہر نکال دی جو ہابیل کو دفن کرنے کیلئے کافی نظر آنے لگی ۔

جب انہوں نے ہابیل کو ا گڑھے میں ڈالنا چاہا تو اسکی صورت بالکل سیاہ پڑ گئی تھی آدم اپنے بیٹے کا سیاہ چہرہ دیکھ کر سوچ میں پڑ گیا اور بیوی سے کہنے لگا مجھے ایک ایسی بات یاد آ رہی ہے جسکے بارے میں میں نے اب تک نہیں سوچا تھا ۔ حوا نے پوچھا ‘ تجھے کیا چیز یاد ائی ہے ؟

 ادم نے کہا مجھے یاد ہے جس وقت ہم بہشت میں تھے خداوند تعالی نے فرمایا تھا کہ فلاں پھل ممنوع ہے اسے نہ کھانا اور کھاؤ گے تو مر جاؤ گے کیا تمہیں بھی یاد ہے ؟

 حوا کہنے لگی ‘ میں تو بھول گئی تھی لیکن چونکہ اب تم نے یاد دلایا تو مجھے یادآ گیا کہ خداوند تعالی نے بہشت میں ہم سے یہ بات کہی تھی ۔

 آدم کہنے لگا ‘ میرا خیال ہے ہمارا بیٹا جس گہری نیند سے بیدار نہیں ہو رہا وہ وہی ہے جسکے متعلق خداوند تعالی نے بہشت میں ہمیں بتایا ہے ۔ حوا نے خیال ظاہر کیا ‘ لیکن اس وقت تو ہابیل پیدا بھی نہیں ہوا تھا چہ جائیکہ وہ ممنوعی پھل کھاتا اور میں اور تم نے وہ میوہ کھایا ہے لہذا ہمیں موت آنا چاہیے نہ کہ ہابیل کو ‘ آدم بولا ‘ وہ ہمارا بیٹا ہے اور ہمارے عمل کی سزا بھگت رہا ہے حوا بولی میں اس بات کو تسلیم نہیں کرتی ‘ ہابیل نے تو وہ پھل نہیں کھایا کہ اسے موت آ جائے ‘ آؤ دونوں مل کر اسے مٹی تلے دفن کر دیں تا کہ پرندے اس پر حملہ نہ کریں ۔ اور کل اسے مٹے کے نیچے سے نکال لیں گے ‘ شاید اس وقت تک وہ نیند سے بیدار ہو جائیگا ۔ آدم نے بیوی کیبات مان لی جب ہابیل کو گڑے میں رکھا گیا تو اسکے اوپر مٹی ڈال کر بیوی اور خاوند اپنے اپنے کام کاج میں مشغول ہو گئے ‘ جب گدوں نے دیکھا کہ نعش کو مٹی کے نیچے دفن کردیا گیا ہے تو وہ بھی اڑ گئے چونکہ وہ آدم اور حوا سے کئی ملین سال پہلے وجود میں آئے تھے لہذا انہیں علم تھا کہ موت کیا ہے اور نعش جوموت کا پھل تھی اسے کھاتے تھے اور موت کے متعلق کسی شک و شبہ میں نہیں پڑے تھے انہیں علم تھاہابیل نیند سے بیدار نہیں ہو گا اور جونہی انہوں نے ہابیل کی نعش کی بد بو سونگھی وہ سمجھ گئے کہ وہ لڑکا مردہ ہے اورہ وہ اس کا جسد کھا سکتے ہیں دوسرے دن صبح آدم نے پتھر کی کدال سے ہاتھ میں لی اور حوا کے ہمراہ اس گڑھے تک گیا جہاں انہوں نے ہابیل کی نعش رکھی ہوئی تھی آدم نے کدال سے مٹی ہٹا کر ایک طرف کی تاکہ ہابیل کو مٹی کے نیچے سے باہر نکالے ۔

 آج ہم حوا اور ادم کی سادگی پر حیران ہوتے ہیں کہ وہ کیوں نہیں سمجھ سکے کہ ان کا بیٹا مردہ ہے جبکہ آج بھی جب ایک آدمی مرتا ہے تو کچھ لوگ اسکے زندہ ہو جانے کے منتظرہوتے ہیں ۔

آج موت کی علامتوں سے سب آگاہ ہیں اور ڈاکٹر ان علامتوں سے دوسروں سے زیادہ آگاہی رکھتے ہیں لیکن پھربھی کبھی کبھار ڈاکٹر ان تمام علائم کا مشاہدہ کرنے کے باوجود سوچتا ہے کہ شاید جس شخص کو وہ مردہ سمجھ رہا ہے وہ نہ مرا ہو ۔

 پس ہمیں اس بات پر حیران نہیں ہونا چاہیے کہ کیوں آدم اور حوا ہابیل کے زندہ ہونے کی توقع رکھتے تھے جونہی انہوں نے مٹی ہٹائی اور ان کی نظریں ہابیل پر پڑیں تو انہوں نے اس میں نعش کی علامتیں دیکھیں اب اس نعش سے آنے والی بد بو تیز ہوتی گئی اس وقت حوا نے کہا میرا خیال ہے جو کچھ تم نے کہاہے وہ حقیقت ہے اور ہابیل مر چکا ہے اب ہم اسے مزید چلتا پھرتا ‘ بات چیت کرتا‘ ہنستا اور کھانا کھاتا نہیں دیکھ سکیں گے ۔

 یہ اس ناول کا خلاصہ تھا جو ڈنمارکی مصنف پالووان مولہ نے پہلی موت کے بارے میں لکھا ۔ اور جیسا کہ مشاہدہ ہوا جب آدم اور حوا سمجھ گئے کہ ان کا بیٹا مردہ ہے تو وہ نہیں روئے چونکہ ابھی تک ان کے جذبات اپنے ایک عزیز کی موت پر رد عمل ظاہر کرنے کیلئے تیار نہ تھے اور مردے پر رونا انسان نے بعد میں سیکھا ہے وہ بھی تمام مردوں پر نہیں بلکہ صرف ان مردوں پر جو ان کے بہت قریبی عزیز ہوتے ہیں جبکہ بیگانوں کی موت ان کی نظر میں اس قدر اہمیت نہیں رکھتی کہ اس پر آنسو بہائیں بلکہ بعض لوگ ایسے بھی ہیں کہ اپنے نزدیک ترین عزیزوں کی موت پر بھی آنسو نہیں بہاتے اور میدان جنگ اور ہسپتالوں جیسی جگہیں بھی ہیں جہاں پر کوئی مردے پر آنسو نہیں بہا تا ۔

 ہم نے کہا کہ جعفر صادق (علیہ السلام ) نے فرمایا آدمی جب پیدا ہوتا ہے تو فطرتا صدیق ہوتا ہے اس کا کردار اسکے عقیدے کے مطابق ہوتا ہے اور جیسا کہ ہم نے ذکر کیا ہے آدمی جس کی تخلیق کی ابتدا کے بارے میں ابھی تک سائنس دان جاننے میں کامیاب نہیں ہو سکے اس ابتدا میں انسان جھوٹ نہیں بول سکتا تھا ۔ انسان کی پیدائش کے آغاز کے متعلق سائنس دانوں کے درمیان ساٹھ ملین سال کا اختلاف پایا جاتا ہے بعض انسان کی تخلیق کو خیال کرتے ہیں جو آج سے پینسٹھ سال یا ستر سال پہلے کا زمانہ ہے اور یہ زمانہ بڑی جسامت والی چھپکلیوں (ڈانیو سار) کے خاتمے کے فورا بعد کا زمانہ ہے انسانی بدن کا پتھر میں محفوظ ڈھانچہ یا سکیلٹن جو حال ہی میں چین میں دریافت ہوئی ہے اسکے متعلق کہا جاتا ہے کہ آج سے ساٹھ ملین سال پرانی ہے اگر اسکی قدامت اتنی ہی ہے تو جن لوگوں کے بقول انسان تیسرے عہد کے آخر میں وجود میں آیا وہ لوگ صحیح ہیں اور تیسرا عہد کرہ ارض کا وہ دور ہے جس میں زمین کی موجودہ شکل بنائی گئی ہے جس کے بعد نہ تو ہمیشہ بارش برستی اور نہ ہی پہاڑوں میں دراڑیں ڈالنے والے بڑے بڑے دریا وجود میں آئے تھے ‘ اور دریا اور سمندر تقریبا آج جیسی حالت پر تھے ‘ اس مرحلے میں انسان نے اپنے گمنام آباء و اجداد کے بعد دنیا میں قدم رکھا تھا اس زمانے میں انسن چوپایا تھا اسے بات کرنے کا ڈھنگ نہیں آتا وہ کتوں کی مانند بھوں بھوں کرتا اور چنگھاڑتا تھا اس زمانے میں انسان آسانی سے آدم خور جانوروں کا نوالہ بن جاتا تھا چونکہ اس میں تیزی سے فرار ہونے کی صلاحیت نہ تھی یہاں تک کہ انسان ‘ آدمی خور جانوروں کے مقابلے میں خرگوش کی مانندبھاگنے کی صلاحیت بھی نہ رکھتا تھا ۔ اس کابدن بھیڑوں کی مانند سر سیپاؤں تک اون سے ڈھکا ہوتا تھا تاکہ وہ سردی کا مقابلہ کر سکے لیکن بھیڑ کا بدن تو کیڑوں مکوڑوں کی دسترس سے محفوظ ہے جبکہ انسان کی اون میں بیشمار کیڑے مکوڑے رہا کرتے تھے اور پہلے دور کے انسان کا کام ہی جسم کی خارش کرنا ہوتا تھا جونہی اس کا پیٹ بھرتا اور وہ اس طرف سے مطمئن ہو جاتا تو جسم کی خارش کرنا شروع کر دیتا تھا ۔ پیٹ بھرنا بھی شروع شروع میں انسان کیلئے ایک طویل کام ہوتا تھا کیونکہ انسان گھاس کھاتا تھا اور چونکہ حرارے مہیا کرنے والا گھاس کم میسر آتا لہذا انسان عام گھاس کھانے پر مجبور تھا تاکہ اپنا پیٹ بھرے ۔

اگر ڈارون کا نظریہ صحیح ہے تو انسان اپنی تخلیق کے آغاز میں زمین سے کوئی چیز اٹھا کر اسے منہ تک لے جانے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتا تھا کیونکہ انسانی انگلیوں کی شکل آج کی مانند نہ تھی اور انسان اپنا پیٹ بھرنے کیلئے مجبورا بھیڑوں کی مانند چرتا تھا اور کئی ملین سال گزرنے کے بعد آدمی کی انگلیوں کی موجودہ حالت بنی تاکہ انسان کوئی چیز زمین سے اٹھا کر منہ میں ڈال سکے ۔

موجودہ زمانے کے معروف سائنس دان مارشل مائیک لودھن کے بقول انسان کا وحشتکری سے موجودہ دور میں داخل ہونے کا سبب یہی چار ہاتھ اور پاؤں سے چلنا تھا ۔ چونکہ چار ہاتھ اور پاؤں سے چلنا یا دو ہاتھوں اور دو پاؤں کو کام میں لانا انسان کے دماغ میں دو کروں کو کام میں لانے کا سبب بنا جس کے نتیجے میں آدمی کی عقل پختہ ہوئی اور اس میں ذہانت وجود میں آئی اور انسان نے نت نئے کام متمدن دور میں منتقل ہونے کیلئے انجام دیئے ہیں ذہانت اسکے لئے ضروری تھی ۔ مارشل مائیک لودھن کہتا ہے اگر علمی اور ثقافتی میدان جو ہمارے اسلاف سے پہنچتی ہے جنگ یا کسی اور بڑے المیے کے نتیجے میں ختم ہو جائے اور بالغ افراد جو کئی باتوں سے اگاہ ہیں وہ بھی ختم ہو جائیں اور صرف بچے رہ جائیں اور ان کے سامنے بھی متمدن زندگی کا نمونہ نہ ہو تو انسان ایک وحشی جانور میں تبدیل ہو جائیگا اور اسطرح اپنے کام کے مرحلے تک نہیں پہنچا سکے گا کیونکہ آدمی کے دماغ کا آدھا حصہ اچھی طرح کام کرتا ہے آدھا حصہ ساکن ہے کیونکہ انسان یا تو دائیں ہاتھ سے کام کرتا ہے یا بائیں ہاتھ سے ‘ جو لوگ دائیں ہاتھ سے کام کرتے ہیں نہ صرف ان کا بایاں ہاتھ کام نہیں کرتا بلکہ بایاں ہاتھ بیکار ہوتا ہے اس بات کو وہ اس وقت محسوس کرتے ہیں جس وقت وہ فٹ بال کے گراؤنڈ میں بائیں پاؤں سے گیند کو ٹھوکر مارنا چاہتے ہیں پھر جا کر انہیں علم ہوتا ہے کہ ان کے بائیں پاؤں اور بازو میں کوئی زیادہ فرق نہیں کیونکہ وہ بائیں پاؤں سے گیند کو ٹھوکر لگانے پر قادر نہیں ۔

 لیکن سوشیالوجی کے کینڈین ماہر کے بقول چونکہ انسان آغاز میں دو ہاتھ اور دو پاؤں سے چلتا تھ اور دو پاؤں سے درختوں پر چڑھتا تھا اور تمام کاموں کو دو ہاتھوں سے انجام دیتا تھا لہذا اسکے دونوں نصف کرے کام کرتے تھے جس کے نتیجے میں انسان کی ذکاوت اتنی بڑ گئی کہ اس نے اپنے آپ کو وحشی کے مرحلے سے نکال کر تمدن کے مرحلے میں پہنچا دیا بہر حال وحشتگری کے اس دور میں جب انسان گھاس پر چار ہاتھ پاؤں سے چلتا تھا آج کے انسان کی نسبت اخلاقی لحاظ سے برتر تھا ۔ وہ اسطرح کہ نہ تو جھوٹ بول سکتا تھا اور نہ ہی اپنے باطن کو چھپا سکتا تھا ۔ لیکن وہ اخلاقی قاعدے قوانین نہیں رہے اور کوئی ان پر عمل نہیں کرتا ۔ موجودہ دور میں دیکھا گیا ہے کہ جتنا ایک معاشرہ تمدن سے پسماندہ ہو گا اتنای ہی اس میں جھوٹ ریا کاری اور بناوٹ کم ہو گی ۔ وہ اقوام اب بھی نیم وحشی ہیں جو نیو گنی کے مرکز اور سمندر کے بعض جزائر میں زندگی بسر کر رہیہیں جو جھوٹ نہیں بولتے اور دوسروں کی نسبت ریا کار بھی نہیں ہیں مرکزی افریقہ کے سیاہ فام بھی انیسویں صدی کے دوسرے عشرے تک جھوٹے نہیں بولتے تھے یعنی جھوٹ نہیں بول سکتے تھے ۔ جو چیز اس حقیقت کو ثابت کرتی ہے وہ ڈاکٹر لایونک اسٹون کی یادداشتیں ہیں جس نے دریائے نیل کے سرچشموں کو دریافت کیا اور جیسا کہ ہمیں معلوم ہے ان سر چشموں کی دریافت کے بعد اس نے صرف چغرافیائی نقشے اور اپنے مقالات (انگلستان کی جغرافیائی یونین ) کو بھیجے اور خود افریقہ کے مرکز سے باہر نہیں آیا اور جسطرح اس دور میں ڈاکٹر شوایٹ زر نے اپنی زندگی سیاہ فاموں کی خدمت میں صرف کی ڈاکٹر لائیونک اسٹون نے بھی اپنی عمر سیاہ فاموں کی خدمت میں وقف کر دی ‘ اسکے مقاصد میں سے ایک یہ تھا کہ وہ نہیں چاہتا تھا کہ بردہ فروش تاجر جو افریقی عرب تھے ۔ سیاہ فام لوگوں کو مرکزی افریقہ سے اغوا کرکے کسی اور جگہ بیچ ڈالیں ۔

 ڈاکٹر لائیونک اسٹون نے افریقہ میں واقع علاقے تانکا نیکا میں سیاہ فاموں کو بردہ فروش تاجر وہاں کے سیاہ تاجر وہاں کے سیاہ فاموں کو انگلستان کے شہر سمجھ کر انہیں بردہ فروشی کیلئے اغوا نہ کریں ۔

 ڈاکٹر لائیونک اسٹون کے مخالفین اور انگلستان والوں نے کہا کہ دریائے نیل کے منبعوں کو دریافت کرنے والے کا انگلستان کا پرچم نصب کرنا سیاہ فاموں کو تحفظ فراہم کرنا نہ تھا بلکہ براعظم افریقہ کے مرکز کو انگلستان کے حوالے کرنا تھا بعد میں انگلستان نے تانکا نیکا کو سرکاری طور پر اپنے قبضے میں لیکر اسے برطانیہ کی نو آبادی قرار دیا ۔

 دریائے نیل کے سرچشموں کے دریافت کنندہ کا ذکر کرنے سے ہمارا کچھ اور بھی مطلب ہے اور وہ یہ ہے کہ اس نے سیاہ فاموں سے کہا ہوا تھا کہ جہاں کہیں وہ بردہ فروش تاجروں کے ہاتھ چڑھ جائیں اور وہ انہیں اغوا کرنے کی ٹھان لیں اور سیاہ فام اس کی مدد بھی نہ حاصل کر سکیں تو انہیں چاہیے کہ وہ کہیں کہ وہ انگلستان کے شہری ہیں اس طرح بردہ فروش تاجر انہیں اغوا کرنے کی جرات نہیں کر سکیں گے ۔

 لیکن وہ یہ نہیں کہہ سکتے تھے کہ وہ انگلینڈ کے شہری ہیں جب کہ انہیں علم تھا کہ اگر وہ یہ جھوٹ بولیں گے تو آزادی اور جان کے چھن جانے کے خطرے سے دو چار نہیں ہوں گے ۔

 ڈاکٹر لائیونیک اسٹون نے اپنی ڈائری میں لکھا ہے کہ ایک تانکا نیکا سیاہ فام ہر گز جھوٹ نہیں بول سکتا اگرچہ اپنی جان کے تحفظ کیلئے بھی کیوں نہ بولنا پڑے اور ایک سیاہ فام کو اگر ہاتھ کے دو دانت (جو مرکزی افریقہ کی گراں بہا اجناس میں سے ہے ) دیئے جائیں تو تب بھی وہ جھوٹ بولنے پر آمادہ نہیں ہو گا ۔

اور اس علاقے کے سیاہ فام کی نظر میں جھوٹ بولنا ایک محال کام ہے جس سے وہ عہدہ برآ نہیں ہو سکتا ہم نیو یارک ہیرالڈٹرائبون کے نامہ نگار (وہ بھی دریائے نیل کے سرجشمے دریافت کرنے کیلئے افریقہ گیا تھا ) کی ڈائری میں دیکھتے ہیں کہ وہ لکھتا ہے کہ اگرچہ افریقہ سیاہ فاموں (جو مرکزی افریقہ میں وحشیانہ زندگی گزارتے ہیں نہ کہ وہ جو افریقہ کے سواحل پر آباد متمدن سیاہ فام ہیں ) کی جان پر بن آتی تب بھی وہ جھوٹ نہیں بولتے تھے ۔

 جو لوگ دریائے نیل کے سرچشموں کی دریافت کی تاریخ سے آگاہ ہیں وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ انگریز ڈاکٹر لائیونک اسٹون جب انیسویں صدی میں دوسرے پچاس سالوں کے دوران دریائے نیل کے سرچشموں کی دریافت کیلئے مرکزی افریقہ گیا تو اس نے دس سال تک کوئی خبر بیرونی دنیا کو نہیں بھیجی اور روزنامہ نیویارک ہیرالڈ ٹرائبون کیناشر نے ایک قابل نامہ نگار سٹینلے کو ڈاکٹر لائیونک اسٹون کے ڈھونڈنے کیلئے افریقہ بھیجا تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ وہ مردہ ہے یا زندہ ؟ جب یہ نامہ نگار مرکزی افریقہ پہنچا تو اس نے دریائے نیل کے سرچشمے دریافت کرنے والے شخص کو ڈھونڈ نکالا ۔

 اس نامہ نگار نے دو مرتبہ افریقہ کا سفر کیا ایک مرتبہ دریائے نیل کے سرچشموں کو دریافت کرنے والے کو ڈھونڈنے کیلئے اور دوسری مرتبہ جغرافیائی معلومات حاصل کرنے کیلئے دوسری مرتبہ وہ ایک آبشار دریافت کرنے میں کامیاب ہوا جس کا نام وکٹوریہ ہے اور جو دریائے نائجیریا میں واقع ہے ۔

 دوسرے سفر کے دوران اسٹینلے اپنے قافلے کا قاضی بھی تھا اور فیصلے کرتا تھا اس سنے سیاہ فاموں میں سے ایک کو قتل کرنے اور دوسروں وک دھمکی دینے کے جرم میں پھانسی کی سزا دی اس نے پھانسی کے آخری لمحات میں سیاہ فام سے کہا اگر تم وعدہ کرو کہ اس کے بعد اپنے رفقا کو اذیت نہیں پہنچاؤ گے تو میں تمہیں پھانسی کی سزا نہیں دیتا لیکن اس سیاہ فام شخص نے کہا کہ اگر وہ زندہ رہا تو اپنے رفقا کو قتل کرے گا ۔

 یہ شخص جواپنے رفقاء کو قتل کرنے کا ارادہ رکھتا تھا اگر جھوٹ بولتا اور کہہ دیتا کہ میں نے اپنا ارادہ ترک کر دیاہے تو وہ زندہ رہ سکتا تھا لیکن وہ جھوٹ نہیں بول سکا اور اس کی زبان جھوٹ بولنے کے لئینیں کھل سکی مرکزی افریقہ کے یہی سیاہ فام قبائل جو دریائے نیل کے سرچشمے دریافت کرنے والے ڈاکٹر لائیونک اسٹون اور امریکہ نامہ نگار اسٹینلے کیبقول جھوٹ نہیں بول سکتے تھے آج جب متمدن دور میں داخل ہوئے تو انہوں نے جھوٹ بولنا شروع کر دیا ہے ۔

 جعفر صادق (علیہ السلام ) جھوٹ اور ریا کاری سے سخت متنفر تھے اور کہا کرتے تھے کہ انسان کے قول اور فعل میں تضاد نہیں ہونا چاہیے اور ہر ایک کا عقیدہ اس کے خیالات کا عکاس ہونا چاہیے یعنی جو کچھ انسان کے باطن میں ہو وہی ظاہر میں ہو ۔

 جعفر صادق (علیہ السلام ) ریا کاری یا دکھلاوے سے نفرت کرتے اور اسے کسی صورت بھی تسلیم نہیں کرتے تھے اور چونکہ ریا کار بننا پسند نہیں کرتے تھے اور نہ ہی اپنے عقیدے کو چھپاتے تھے لہذا اسی بنا پر آپ نے اپنے عقیدے پر جان قربان کر دی ۔

علم و فلسفہ کی توضیح

 اب ہم اس نابغہ علمی شخصیت کے شاندار نظریات میں سے ایک اور نظریئے کا تذکرہ کرتے ہیں اور وہ ہے آپ کا حکمت اور علم کے درمیان فرق کا نظریہ

 جعفر صادق (علیہ السلام ) مذہبی پیشوا ‘ عالم ‘ فلسفی حکیم اور ادیب بھی تھے اور جیس اکہ ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں آپ ان چاروں علوم کو اپنے حلقہ درس میں پڑھاتے تھے آپ نے حکمت اور علم کے درمیان فرق کے بارے میں ایسا نظریہ پیش کیا ہے کہ ایک ہزار دو سو پچاس سال گزرنے کے بعد اور ہزاروں فلسفیوں کے دنیامیں آنے کے بعد بھی خاص پر کشش ہے جعفر صادق (علیہ السلام ) وہ پہلے شخص ہیں جنہون نے حکمت اور علم میں فرق کی وضاحت کی آپ سے پہلے کسی نے بھی اس جانب توجہ نہیں کی تھی کہ حکمت اور علم کے درمیان فرق پایا جاتا ہے 

 قدیم یونانی فلسفیوں کی نظر میں جو چیز معلوم ہو جاتی تھی فلسفے میں شمار ہوتی تھی جیسا کہ ہمیں معلوم ہے اسکندریہ کا مکتب جو قدیم زمانے میں دنیا کے بڑے بڑے علمی مکاتب میں شمار ہوتا تھا وہاں پر فلسفے اور علم کے درمیان کسی فرق کی نشاندہی نہیں کی گئی تھی وہ اس طرح کہ تمام علوم کو حکمت میں شمار کیا جاتا تھا ۔یہاں تک کہ علمطب بھی حکمت کا جزو تھا ۔

 قدما کی نظر میں فلسفہ وہ منبع تھا جس سے علوم کے سرچشمے پھوٹتے اوروہ علم العلوم شمار کیا جاتا تھا جو فلسفے میں ماہر ہوتا وہ تمام علوم میں ماہر ہوتا تھا لیکن اگر کوی شخص صرف علم طب جانتا تو وہ یہ دعوی نہیں کر سکتا تھا کہ وہ فلسفہ بھی جانتا تھا ایک فرانسیسی فلسفی ژان دو لاکروا جو ابھی زندہ ہے کے بقول قدیم یونان میں شروع شروع میں ادب اور ہنر بھی فلسفہ کا جزو شمار ہوتے تھے اور یونانیوں کا عقیدہ تھا کہ شعر موسیقی مجسمہ سازی اور ثقافتی بھی فلسفہ سے نکلتے ہیں لیکن بعد میں یونانیوں نے ادب اور ہنر کو فلسفہ سے جدا کر لیا چونکہ وہ معتقد تھے کہ تمام علوم فلسفہ سے نکلے لہذا ان کی نظر میں علم کو حکمت سیجد اکرنے ی کوئی وجہنہ تھی ۔

 یہ نظریہ اس وقت تک قائم رہا جب تک جعفر صادق (علیہ السلام ) نے علم اور حکمت میں امتیاز کی نشاندہی نہ کر دی آججب کہ علم کی حدود معلوم ہو گئی ہیں ہمیں اس بات پر کوئی حیرت نہیں کہ فلسفہ کو علم سے جدا کیوں سمجھا جاتا ہے جس دن جعفر صادق (علیہ السلام )نے فلسفے کو علم سے جدا کیا ہے اسی وقت سے آپ کا نظرہ ایک انقلابی نظرہ شمار کیاگیا اور ایک حقیقی انقلابی نہ کہ مجازی کیونکہ جعفر صادق (علیہ السلام ) نے فرق کے متعلق ایک ایسی بات کہی جس نے ہر فلسفی کو ہلاکر رکھ دیا جعفر صادق (علیہ السلام ) کا یہ نظریہ دو حصوں پر مشتمل ہے اور وہ اس طرح ہے ۔

علم کسی حتمی نتیجے تک پہنچتا ہے اگرچہ وہ نتیجہ بہت مختصر اور محدود ہی کیوں نہ ہو لیکن فلسفہ کسی نتیجے پر نہیں پہنچتا ۔ جعفر صادق (علیہ السلام ) کے نظریے کے اس حصے سے ان فلسفیوں کی کاوش باطل ہو جاتی ہے جو ساری عمر لسفے کی گتھیاں سلجھانے میں صرف کر دیتے ہیں ۔

 اس ارشاد کا سادہ مفہوم یہ ہے کہ دنیا کے (فلاسفرو ) جو کچھ تم نے پڑھا اور کسب فیض کیا ہے وہ سب فضول تھا اور فضول ہے اور تم لوگوں نیاپنی زندگیفضول چیزوں میں ضائع کر دی ہے کیونکہ جو چیز تم نے حاصل کی ہے اس کا نہ تمہیں کوئی فائدہ ہے اور نہ ہی دوسرے لوگ اس سے فائدہ حاصل کر سکتے ہیں جیس اکہ ہمیں معلوم ہے جس زمانے میں کسینے دوسروں کے علم کی قدروقیمت کا انکار کیا وہ تمام لوگ اور ان کے حامی اسکے دشمن بن گے اگر کوئی کسی شخص کے گھر یا کھیتی کی قدرو قیمت کا انکار کرے تو وہ اس شخص سے سخت دشمنی نہیں مول لیتا لیکن اگر کسی شخص کے علم کا انکار کیا جائے تو وہ سخت دشمن بن جاتا ہے چونکہ جن کے پاس علم ہوتا ہے وہ اس پر فخر کرتے ہیں اور وہ ہر گز اپنے علم کی بے قدری برداشت نہیں کر سکتے ۔

 یہاں تک کہ عظیم انسان بھی جب سنتے کہ ان کے علم کی قدرو قیمت نہیں ہوئی تو انہیں بے حد رنج ہوتا تھا بزرگان اسلام میں سے مالکی فرقے کے بانی مالک بن انس جو چار مشہور اسلامی فرقوں مالکی شافعی حنفی اور حنبلی میں سے ایک کے بانی ہیں ۔

جب امام جعفر صادق (علیہ السلام ) کا یہ نظریہ کہ حکمت (فلسفہ ) نتیجہ حاصل کرنے کے لحاظ بے فائدہ ہے البتہ ابھی جعفر صادق (علیہ السلام ) کے نظریئے کا صرف پہلا حصہ ہی لوگوں تک پہنچا تھا جونہی اس نظریئے کو مالک بن انس کے ایک قریبی مرید ابراہیم غزی نے مالک بن انس تک پہنچایا اور ان سے کہا کہ جو کچھ آپ نے حکمت سے سیکھا ہے اس کا کوئی فائدہ نہیں روایت ہے کہ وہ نیک سیرت انسان ابراہیم غزی سے اس قدر رنجیدہ خاطر ہوا کہ ابراہیم غزی کے مرنے تک اس سے نالاں رہا ۔

 ب جب مالک بن انس جیا انسان اپنے علم کی قدرو قیمت پر اس قدر رنجیدہ ہوتا ہے تو دوسرے لوگوں پر کیا شکوہ مشہور فرانسیسی ہم عصر فلسفی ژزان دو لاکروا ‘ جعفر صادق (علیہ السلام ) کے نظریئے کے پہلے حصے پر اعتراض کرتے ہوئے کہتا ہے کہ آ کو اپنے نظریئے کے پہلے حصے کو اس طرح بیان کرنا چاہیے تھا کہ آپ کہتے اگر فلسفہ علم کی صورت میں سامنے نہ آئے تو بے سود ہے لیکن جب علم کی صورت میں سامنے آتا ہے تو اس سے مفید نتیجہ حاصل کیا جا سکتا ہے فرانسیسی فلسفی اور محقق کہتا ہے کہ نہ صرف فلسفہ علم کی صورت میں سامنے نہ آنے کی بنا پر بے سود ہے بلکہ ہر وہ علم بھیجو صرف تھیوری کی حد تک محدود ہے یعنی اس کا عملی استعمال نہیں ہے تو وہ بے سود ہے ۔

 کبھی کسی علم میں مستقل قوانین دریافت ہوتے ہیں تو جب تک ان قوانین کا عملی اجراء نہ ہو گا وہ بے سود ہیں مشہور ماہر فلکیات کپلر جس نے سورج کے گرد سیاروں کی حرکت کے تین قوانین وضع کئے فلکیات اور فزکس کے ماہرین میں سے کوئی بھی ایسا نہ تھا جو ان قوانین کو شک کی نگاہ سے دیکھتا سائنس دان جانتے تھے کہ یہ قوانین تھیوری نہیں بلکہ علم اور حقیقت ہیں ۔

لیکن نہ ہی کپلر کے قوانین سے کوئی نتیجہ برامد ہوتا ہے اور نہ نیوٹن کے دریافت کردہ قوت تجاذب کے قانون سے ہی کوئی نتیجہ نکلتا ہے ۔

لیکن ۱۹۵۷ ء عیسوی میں جب روس نے اپنا پہلا مصنوعی سیارہ خلاء میں بھیجا تو کپلر کے تین قوانین اور قانون تجازب سے نتیجہ حاصل ہونا شروع ہوا اور تمام سیارچے اور تمام خلای جہاز جو زمین یا دوسرے سیاروں کے گرد گھومتے ہیں ان قوانین کے تابع ہیں اور بنی نوع انسان کو ان قوانین کا عملی نتیجہ یہ ملا ہے کہ آج ایک ٹیلیویژن کے پروگرام کو سیاروں کی مدد سے کرہ ارض کے تمام لوگوں تک پہنچایا جا سکتا ہے اور مصنوعی سیاروں کی مدد سے طوفانوں کے بارے میں مکمل پیشن گوئی کی جا سکتی ہے اور اسی طرح غلط جغرافیائی نقشوں کو بھی درست کیا جا سکتا ہے ۔

 جیسا کہ ہمیں معلوم ہے کہ جعفر صادق (علیہ السلام ) اپنے حلقہ تدریس میں فلسفہ بھی پڑھاتے تھے لہذا یہاں سے اعتراض کیا جا سکتا ہے کہ جو شخص کہا ہے کہ فلسفہ حقیقی اور عملی مقام رکھنے کے علاوہ مذہبی پیشوا بھی تھے نے کیوں اپنے شاگردوں کو ایک عرصہ فضولیات میں مشغول رکھا جن کا کوئی عملی فائدہ نہ تھا اس موضوع کے سبب کو سمجھنے کیلئے ہمیں جعفر صادق (علیہ السلام ) کے نظریئے کے دوسرے حصے یعنی فلسفے اور علم کے فرق پر نظر ڈالناہو گی ۔

 جب ہم جعفر صادق (علیہ السلام ) کے نظریئے کے دوسرے حصے کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں یہبات مد نظر رکھنا چاہیے کہ آپ فلسفہ و علم کے ضمن میں اس موضوع کو زبان پر لاتے ہیں نہ کہ مذہب کے ضمن میں چونکہ جعفر صادق (علیہ السلام ) ایک مذہبی پیشوا تھے بلا کسی تردید کے حقیقت کو مذہب اور اس کے مبدا جو خا ہے میں سمجھتے تھے ۔

 لیکن اپنے نظریئے کے دوسرے حصے کو فلسفہ و علم کے محور پر ذکر کیا ہے اور وہ اس طرح ہے ” علم دور کی حقیقت کو مد نظر نہیں رکھ سکتا جب کہ فلسفہ اس حقیقت کو مد نظر رکھتا ہے ” اس نظریئے کو سطحی نظر سے نہ دیکھئے اور اس سے تیز سے نہ گزر جائے کیونکہ جب تک انسان اس نظریئے کی گہرائی میں نہ جائے سمجھ نہیں سکتا کہ اس عظیم انسان نے علم اور فلسفہ کا درمیانی فرق کس چیز کو قرار دیا ہے اور اس کے باوجود کہ وہ فلسفے کے عملی فائدے سے انکاری ہے اسے کیوں تدریس کرتا ہے ؟ جعفر صادق (علیہ السلام ) نے فرمایا علم حقائق کا کھوج لگا سکتا ہے چاہے وہ حقائق کتنے ہی معمولی کیوں نہ ہوں ایک ایسا شخص جو کہتا ہے کہ علم دور کی حقیقت کا پتہ نہیں چلا سکتا لیکن فلسفہ ایسا کر سکتا ہے اور کیا دو نظریات جو علم اور فلسفہ کے فرق یعنی ایک موضوع سے متعلق میں ‘ کیا ان میں تصاد نہیں پایا جاتا ؟

 جعفر صادق (علیہ السلام ) فرماتے ہیں کہ علم حقائق کا کھوج لگا سکتا ہے اور اگر بڑے حقائق کا کھوج نہ بھی لگا سکے تو چھوٹے حقائق کا پتہ چلا سکتا ہے لیکن اس حقیقت کے وجود میں لانے کا مقصد بیان نہیں کر سکتا شاید اس بات کو اس طرح بھی کیا جا سکتا ہے کہ علم آنکھ کی مانند تمام چیزوں کا مشاہدہ کر سکتا ہے لیکن اپنے آپ کو نہیں دیکھ سکتا اور نہ ہی یہ سمجھ سکتا ہے کہ حقائق کے ادراک سے اس کا کیا مطلب ہے ؟

 لیکن فلسفہ جو اس کے باوجود کہ ابھی تک کسی حقیقت تک نہیں پہنچ سکا پھر بھی دور کی حقیقت کو مد نظر رکھتا ہے اور جانتا ہے کہ یہ سمجھنا چاہتا ہے کہ دنیا اور اس میں بنی نوعی انسان کیوں وجود میں آئے اور خالق کون ہے اور دنیا کو خلق کرنے کا کیا مقصد ہے ؟ اور اس دنیا میں بنی نوع انسان کا انجام اور خود دنیا کا انجام کیا ہو گا ۔

 اس کلام کو ساڑھے بارہ سو سال گزر چکے ہیں آج بھی ایک ایسا امتیازی نشان ہے جو علم کو فلسفے سے جدا کرتا ہے آج بھی علم نہیں جانتا کہ کس لئے حقائق کی جستجو میں ہے اور کس منزل مقصود تک پہنچنے کا خواہاں ہے اس بات سے بھی آگاہ نہیں کہ کہاں سے ایا اور کہاں جا رہا ہے اور ایک ایسا ترازو ہے جس میں ہر چیز کو اچھی طرح تولا جا سکتا ہے لیکن اگر اس سے پوچھیں کہ اس دوڑ دھوپ اور جستجو سے تیرا مقصد کیا ہے تو جواب دینے سے عاری ہے جب کہ فلسفہ جواب دیتا ہے اور بتاتا ہے کہ کس لئے ہاتھ پاؤں مار رہا ہے اور کس منزل کی جانب رواں دواں ہے اگرچہ فلسفہ کے آغاز سے لے کر آج تک فلسفہ کسی ایک حقیقت کا سراغ بھی نہیں لگا سکا ۔

 جو تعریف جعفر صادق (علیہ السلام ) علم فلسفہ کی بیان فرماتے ہیں اس سے یہ بات سمجھ آتی ہے کہ انسان علم کی نسبت فلسفہ کی قدرو قیمت اک زیادہ قائل رہا ہے کیونکہ آ کے بقول ( علم دور کی حقیقت کو مد نظر نہیں رکھ سکتا جبکہ فلسفہ اس حقیقت کو مد نظر رکھتا ہے )

 یہ حقیقت خداوند تعالی کے علاوہ کوئی دوسری چیز نہیں ہے کیونکہ جب تمام فلسفیانہ مراحل طے ہو گئے تو فلسفہ اس مرحلے میں داخل ہوتا ہے جہاں اسکے جاننے کی ضرورت ہے کہ خداوندتعالی کون ہے اور ان کا تخلیق کرنے کا مقصد کیا ہے اور اس خلقت کا آخری نتیجہ کیا ہو گا ؟

 پس جیسا کہ ہم آچ فلسفہ کو سمجھتے ہیں وہ یہ ہیکہ فلسفہ جعفر صادق (علیہ السلام ) کی نظر میں ‘ خداوند تعالی کی طرف راہنمائی کرتا ہے جبکہ علم اسطرح کی رہنمائی نہیں کرتا ۔ بس اگر ہم علم کے عمومی معنی ہی مراد لیں یعنی دانائی ‘ تو اس صورت میں علم فلسفہ میں بھی شامل ہو جاتا ہے ۔

یہاں اس نکتے کا ذکر ضروری ہے کہ جعفر صادق (علیہ السلام ) جو توحید پرست اور ایک مذہبی پیشوا تھے ( خداوند تعالی کی معرفت کو مذہب کے ذریعے جائز سمجھتے تھے نہ کہ فلسفہ کے ذریعے ہمیں معلوم ہے کہ پہلی صدی ہجری میں مذہب اسلام میں فلسفے کا وجود نہ تھا ‘ بعد میں آنے والے زمانوں میں بھی فلسفہ ہر گز دین اسلام کے اصول و فروع کا جزو نہیں بنا لیکن علما نے کوشش کی کہ دین اسلام کے فلسفہ اصول و فروغ کو فلسفے کے ساتھ مطابقت دیں اور اس سے دیں کے اصول و فروع کی تعریف کے لئے مدد لیں ۔

یہ اقدام دوسری صدی ہجری کے اوائل سے شروع ہوا اور جن لوگوں کو فلسفے میں دسترس حاصل تھی انہوں نے دین کے اصول و فروع کیتعریف کیلئے فلسفہ سے مدد حاصل کرنے کی جانب توجہ دی اور اس موضوع نے اس بات کی نشاندہی کی کہ مسلمان پہلی صدی ہجری سے زیادہ روشن فکر ہو گئے تھے کیونکہ پہلی صدی ہجری میں کسی نے فلسفے کو دین اسلام کیاصول و فروع پر تطبیق کرنے کی جانب توجہ نہیں دی تھی ‘ اس میں کوئی شک نہیں کہ عرب مسلمانوں کی دوسری اقوام سے آمیزش نے مسلمانوں کو احکام دین کی فلسفے کے نقطہ نگاہ سے تعریف کرنے کی فکر دلائی ہو ۔

 وہ اسلامی دانشور جنہوں نے دوسری صدی ہجری کے آغاز سے فلسفہ کی دین کے ساتھ مطابقت پیدا کرنیکی جانب توجہ دلائی تاکہ وہ فلسفہ سے اسلام کے اصول و فروع کی تعریف و توجہ کیلئے مدد حاصل کریں انہیں متکلمین کے نام سے پکارا گیا اور ان کے علم کو علم الکلام کہا گیا اور علم کلام کے اسلام میں معنی فلسفے کی دین کے ساتھ تطبیق ہے ۔

 عیسائیوں نے فلسفے کیدین پر تطبیق مسلمانوں سے سیکھی اور صلیبی جنگیں جو تقریبا دو سو سال جاری رہیں اور مسلمان دانشوروں کی کتابوں کے لاطینی زبان میں تراجم نے یورپی لوگوں کو فلسفے کو عیسائیت کے ساتھ تطبیق کی جانب توجہ دلائی اگر صلیبی جنگیں نہ چھڑتیں تو شائید یورپی سترہویں صدی عیسوی تک مسلمانوں کے علوم سے بے خبر رہتے جسطرح مشرقی سبزیوں اور پھلوں کے وہ اقسام جو اس سے پہلے یورپ میں کاشت نہیں ہوتے تھے ‘ اس براعظم میں کاشت نہ ہوئے ۔

 بعض یورپی دانشوروں نے مسلمان دانشوروں کی کتابوں کے تراجم پڑھنے کے بعد بہت کوشش کی ہے کہ فلسفے کو مسیح کی تعلیمات پر تطبیق کریں اور آج ہم بلا شک و شبہ کہ

تبصرے
Loading...