سرور کائنات نے جو نظام قائم کيا تھا اس کے متعدد امتيازات تھے مگر ان ميں سے سات کو خاص اہميت حاصل ہے:
پہلا امتياز: ”ايمان اور روحانيت”
نبي کے قائم کردہ نظام ميں ايمان اس محرک کي حيثيت رکھتا ہے جس کا سرچشمہ لوگوں کے دل و ذہن ہيں- يہ ايمان انہيں صراط مستقيم پر قائم و دائم رکھتا ہے- لہٰذا نبوي نظام کا پہلا امتياز لوگوں ميں ايمان اور معنويت و روحانيت کي روح پھونکنا اور ان کے عقائد کو استحکام عطا کرنا ہے- پيغمبر رحمتغ– نے يہ تحريک مکہ سے شروع کي اور مدينہ ميں اس کے پرچم اقتدار کے ساتہ بلند کيا-
دوسرا امتياز: ”عدل و انصاف”
اسلامي حکومت ميں قوانين کے نفاذ کا حقيقي معيار عدل و انصاف اور حقدار کے حق کو اس تک پہنچانا ہے-
تيسرا امتياز: ”علم و معرفت”
نبوي نظام ميں ہر چيز کي بنياد علم و معرفت اور آگہي و بيداري پر استوار ہے لہٰذا يہاں اندھي تقليد کي بالکل اجازت نہيں- يہاں سماج کي تربيت علم و آگہي کي بنياد پر کي جاتي ہے، قوت فيصلہ کو چھين کر نہيں-
چوتھا امتياز: ”اخوت و برادري”
اس نظام ميں خرافات، ذاتي مفادات اور نفساني خواہشات کي بنياد پر ہونے والے جھگڑوں کو پسند نہيں کيا جاتا، ان کا مقابلہ کيا جاتا ہے اس لئے کہ يہاں اخوت و برادري اور اتحاد و ہمدلي کي حکمراني ہے-
پانچواں امتياز: ”نيک اخلاق و کردار”
اسلامي سماج تمام اخلاقي گندگيوں سے انسان کي تطہير کرتا ہے، تمام آلودگيوں سے اسے نجات ديتا ہے اور ايک خوش کردار انسان کي تربيت کرتا ہے-( يزکيہم و يعلمہم الکتاب و الحکمۃ) يہاں تزکيہ کو بنيادي حيثيت حاصل ہے- حضور (ص) اپنے بہترين شيوہ تربيت کے ذريعہ انسان کو انسان بناتے تھے-
چھٹا امتياز: ”عزت و اقتدار”
نبوينظام اور اسلامي معاشرہ غيروں کے در پر دست نياز نہيں پھيلاتا، اسے اپني عزت اور اپنے اقتدار سے بڑا پيار ہے- اپني مصلحتوں کي تعيين خود کرتا ہے، پھر اپنے اغراض و مقاصد کے حصول کے لئے شاہراہ نجات پر گامزن ہوجاتا ہے-
ساتواں امتياز: ”عزمِ راسخ، سعي پيہم، فتح مسلسل”
اس الٰہي نظام ميں جمود اور ٹھہراؤ کا کوئي تصور نہيں- يہاں تو مسلسل تحرک، ترقي اور سعي و کوشش کا رواج ہے- يہاں ايسا مرحلہ ہي نہيں آتا جس پر ٹھہر کر انسان کہے ”کام ختم ہوگيا اب تو بس آرام کيا جائے-”
اس سعي مستقل اور کوشش بے پاياں ميں ايک عجيب کيف و سرور پايا جاتا ہے، تھکن، سستي اور ملال کے دور دور تک نشاک نہيں ملتے، بس ”سرور و نشاط” ہے اور ”شوق و اشتياق”-