صفات خدا کے بارے میں وہابیوں کا عقیدہ

اللہ تعالیٰ کے صفات کے بارے میں وہابی بالکل مجسِّمہ (جو لوگ خدا کے لئے جسم کے قائل ہیں) جیسا عقیدہ رکھتے ہیں کیونکہ یہ لوگ خدا کے لئے اعضاء و جوارح کے قائل ہیں جیسے ہاتھ، پیر، آنکھ یا چہرہ وغیرہ…. اس کے علاوہ اس کے لئے اٹھنے بیٹھنے، حرکت کرنے، ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے، نیچے یا اوپر آنے،جانے کے بالکل اسی طرح قائل ہیں جو ان الفاظ کے ظاہری معنی سے سمجھ میں آتا ہے!!
خداوند کریم ہمیں ان نادانوں کی گمراہ کن باتوں اور عقائد سے اپنی امان میں رکھے۔ ]ھٰذہ السنیة، رسالۂ چہارم :عبد اللطیف[
اس بارے میں وہابی فرقہ ابن تیمیہ کا پیرو ہے اور یہ درحقیقت ”حشویہ” کا عقیدہ ہے جو اہل حدیث ہیں اور ان کے پاس اسلامی عقائد اور فقہ و اصول کا کوئی خاص علم نہیں، اسی لئے ان لوگوں کو حدیث کے الفاظ سے جو کچھ سمجھ میں آجاتا ہے یہ اسی کو اپنا عقیدہ بنا لیتے ہیں’ ‘واضح رہے کہ حشویہ کا یہ عقیدہ ،یہودیوں کے مجسِّمہ فرقہ کے عقائد سے ماخوذ ہے”۔
اس سے یہ بخوبی ثابت ہو جاتا ہے کہ وہابی ایسے عقائد رکھتے ہیں جن کی تائید کے لئے وہ صحابہ یا تابعین (کے پہلے طبقہ) کے اقوال سے بطور دلیل ایک حرف بھی پیش نہیں کرسکتے پھر بھی ان لوگوں کا دعویٰ یہ ہے کہ ہمارے تمام اسلاف کا یہی عقیدہ تھا مگر اس کے ثبوت میں کوئی مستحکم اور متقن دلیل پیش کرنے کے بجائے اسے بے سر پیر کی لمبی چوڑی باتوں سے آراستہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ان تمام باتوں سے بڑھ کر، وہابیت کو اپنے اس عقیدہ کی دلیل کے لئے اس ایک بات کے علاوہ اور کچھ نہ مل سکا جو ابن تیمیہ کے منھ سے نکلی تھی اور وہ بھی ایسا جھوٹ ہے جو ان کے متعصب اور سادہ لوح پیرؤوں کے علاوہ کسی کے لئے قابل قبول نہیں ہے۔
ابن تیمیہ نے وہابیت کے اس عقیدہ کی سب سے اہم دلیل اور سند کے بارے میں یہ کہا ہے: ” صحابہ کے درمیان قرآن کی کسی آیتِ صفات کی تاویل کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔”
اس کے بعد تحریر کیا ہے:” میں نے ان تفسیروں اورحدیثوں کا مطالعہ کیا ہے جو صحابہ سے منقول ہیں اور چھوٹی، بڑی سو سے زائد کتابوں کے بارے میں معلومات حاصل کی ہیں جن کی صحیح تعداد خدا جانتا ہے لیکن اب تک مجھے کوئی ایسا صحابی نہیں ملا جس نے صفات (خدا) سے متعلق آیات و روایات کی تاویل، اس کے ظاہری معنی کے برخلاف بیان کی ہو۔ ]تفسیر سورۂ نور، ابن تیمیہ، ص١٧٩، ١٧٨[
اسی کتاب میں ابن تیمیہ نے تحریر کیا ہے… ”کہ میں نے اپنی نشستوں (محفلوں) میں یہ بات متعددباربیان کی ہے۔”
لیکن ابن تیمیہ کا یہ بیان بالکل غلط ہے جس کا ثبوت وہ تمام کتابیں ہیں جو صفات خدا سے متعلق آیات کی تفسیر میں لکھی گئی ہیں خاص طور سے وہ کتابیں جن میں صحابہ کی تفسیر نقل ہوئی ہے اس کے علاوہ خود وہ کتابیں بھی اس کی بہترین سند ہیں جن پر ابن تیمیہ نے زور دیاہے اور یہ کہا ہے: ”ان کتابوںنے صحابہ اور اسلاف کی تفسیروں کو صحیح سند کے ساتھ ذکر کیا ہے”اور انہیں کتابوں میں ان کی یہ من گڑھت اور جھوٹی باتیں موجود نہیں ہیں جن میں تفسیر طبری، تفسیر ابن عطیہ، تفسیر بغوی سب سے اہم کتابیں ہیں۔ ]مقدمہ فی اصول التفاسیر، از ابن تیمیہ، ص٥١[
ان تمام تفسیروں میں صحابہ سے آیات ِصفات کی تاویل ان کے ظاہری معنی کے برخلاف نقل ہوئی ہے اور تفسیر کا یہ انداز تمام آیات ِصفات میں یکساں طور پر نظر آتا ہے۔
مثال کے طور پر طبری ،ابن عطیہ اور بغوی کے نظریہ کے مطابق آیة الکرسی کی تفسیر ملاحظہ فرمایئے: ان تمام حضرات نے اس سلسلہ میںابن عباس کا یہ قول نقل کیا ہے کہ”کُرسِیُّہ” سے علم خدا مراد ہے۔
ابن عطیہ نے اسی تفسیر پر اکتفا کی ہے اور اس بارے میں ابن عباس کے علاوہ بقیہ لوگوں سے جو کچھ بھی نقل ہوا ہے اسے اسرائیلیات اور حشویہ کی روایات قرار دیا ہے جن کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ ]شوکانی نے فتح القدیر، ج١، ص٢٧٢، پر اسے ابن تیمیہ سے نقل کیا ہے[
اسی طرح وہ تمام روایتیں جن میں کلمۂ ”وجہ” آیا ہے جیسے ‘وجہ ربک’اور ‘وجہہ’یا ‘وجہ اللّٰہ ‘کے بارے میں صحابہ سے جو سب سے پہلی چیز نقل ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ انہوں نے ہر جگہ سیاق وسباق کے مطابق اس سے ارادہ یا ثواب وغیرہ مراد لیا ہے۔
لہٰذا خدا کے لئے جسم قرار دینے کے بارے میں وہابیوں کے عقیدہ کی صرف ایک دلیل ، وہی تہمت ہے جسے وہ صحابہ کے سر تھوپتے ہیں اور سراسر غلط بیانی سے کام لیتے ہیں ،مشہور کتب تفسیر کی طرف جھوٹی نسبت دیتے ہیں جب کہ اس بارے میں تحقیق کرنا نہایت آسان ہے کیونکہ ہر صاحب علم ان کتابوں کا مطالعہ کر کے صحیح صورتحال کا خود اندازہ کرسکتا ہے۔
مثال کے طور پر تفسیر بغوی ملاحظہ فرمایئے: جس کی تعریف و تمجید کرتے ہوئے ابن تیمیہ نے یہ کہا ہے: ”اس میں جعلی اور گڑھی ہوئی احادیث نقل نہیں ہوئی ہیں ”اب اس تفسیر میں صفات خدا سے متعلق ان آیات کی تفسیر ملاحظہ کیجئے: سورۂ بقرہ، آیت ١١٥ و ٢٢٥ (آیة الکرسی) و ٢٧٢، سورۂ رعد آیت ٢٢،سورۂ قصص آیت ٨٨، سورۂ روم، آیت ٣٨ و ٣٩، سورۂ دہر ، آیت٩ ۔
تفسیر بغوی کامطالعہ کرنے کے بعد آپ کو یہ بخوبی معلوم ہوجائے گا کہ وہابیوں نے بزرگانِ دین اور اسلاف صالح پر کتنا بڑا بہتان لگایا ہے۔

 

 

تبصرے
Loading...