محمد بن عبد الوھاب کے عقائد

جس زمانہ سے جب محمد بن عبد الوھاب نے اپنے عقائد کا اظہار کیا اور لوگوں کو ان کے قبول کرنے کی دعوت دی، اسی وقت سے بڑے بڑے علماء نے اس کے عقائد کی پر زور مخالفت کی، شدید مخالفت کرنے والوں میں سب سے پہلے خود جناب کے پدر محترم عبد الوھاب تھے اور اس کے بعد ان کے بھائی جناب شیخ سلیمان بن عبد الوھاب تھے اور یہ دونوں حنبلی علماء میں سے تھے، شیخ سلیمان نے تو محمد بن عبد الوھاب کی رد میں کتاب “الصواعق الآلھٰیة فی الرد علی الوھابیة”تالیف کی،اور اس کے عقائد کو باقاعدہ دلیلوں کے ذریعہ ردّ کیا ہے۔
زینی دحلان صاحب کہتے ہیں کہ شیخ محمد بن عبد الوھاب کے پدر گرامی ایک صالح عالم دین تھے، اور اس کے بھائی شیخ سلیمان نے شروع ہی سے یعنی جب سے وہ تحصیل علم میں مشغول تھے اس کی باتوں اور اس کے کاموں سے یہ اندازہ لگایا لیا تھا کہ یہ اس طرح کا خیال اورنظریہ رکھتا ہے اسی وقت سے اس پر لعن وملامت کیا کرتے تھے اور اس کو ہمیشہ اس کام سے روکتے رہتے تھے۔
شیخ محمد بن عبد الوھاب کا سب سے بڑا مخالف اس کا بھائی شیخ سلیمان صاحب کتاب “الصواعق الآلھٰیة فی الرد علی الوھابیة” تھا، چنانچہ شیخ سلیمان اپنے بھائی کی باتوں کو ردّ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:یہ کام (جن کو وھابی لوگ شرک اور کفر کا باعث سمجھتے ہیں) احمد ابن حنبل اور ائمہ اسلام کے زمانے سے پہلے موجود تھے، جبکہ بعض لوگ اس وقت بھی ان کے منکر تھے اور ان سب کو ائمہ اسلام نے سنا لیکن کسی ایک روایت میں یہ نہیں آیا ہے کہ انھوں نے ان اعمال کو بجالانے والوں کو مرتدّ یا کافر کہا ہو یا ان سے جھاد کرنے کا حکم دیا ہو، یا مسلمانوں کے ملک کو جس طرح تم کہتے ہو بلاد شرک یا دار ا لکفر کہا ہو، اسی طرح ائمہ(432) کے زمانے کو ۸۰۰ سال کی مدت گذر رہی ہے، کسی بھی عالم دین سے کوئی روایت نہیں ہے کہ ان کاموں کو کفر اور شرک جانا ہو، (433)
خدا کی قسم تمھاری باتوں کا نتیجہ یہ ہوگا کہ پیغمبر اکرم (ص) کی تمام امت احمد ابن حنبل کے زمانے سے چاہے عالم ہوں یا عوام الناس ، چاہے حاکم ہوں یا عام لوگ، سب کے سب کافر اور مرتدّ ہیں، اِنَّا لِلّٰہ وَاِنَّا اِلَیْہ رَاجِعُوْنَ، شیخ سلیمان بہت افسوس کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ: ” اللہ کی پناہ”،! کیا تم سے پہلے کسی نے دین اسلام کو نہیں سمجھا تھا، (434)
صواعق الآلٰھیہ کے علاوہ اور د وسری کتابیں محمد بن عبد الوھاب کے عقائد کی ردّ میں لکھی گئی ہیں جنھوں نے محمد بن عبد الوھاب کے عقائد کو ایک ایک کرکے نقل کیا اور ان کو باقاعدہ دلیلوں کے ساتھ ردّ کیاھے، ان میں سے صاحب اعیان الشیعہ علامہ سید محسن حسینی عامِلی کی کتاب “کشف الارتیاب فی اتباع محمد ابن عبد الوھاب” ہے، یہ کتاب اپنی صنف میں بہترین کتاب ھے۔
وھابیت کے طرفداروں میں سے عبد اللہ قصِیمی مصری نے کتاب “کشف الارتیاب” کی ردّ “الصّراع بین الوثنیة والاسلام” لکھی ، اور اس کتاب کے جواب میں محمد خُنیزی نجفی نے “الدعوة الاسلامیہ” نامی کتاب لکھی جس کی چند جلدیں چھپ بھی چکی ھیں۔
اسی طرح وھابیوں کی ردّ میں لکھی جانے والی کتاب “منھج الرشاد” تالیف علامہ شیخ محمد حسین کاشف الغطاء ھے۔
وھابیوں کی ردّ میں لکھی جانے والی ایک اور کتاب “شواھد الحق فی الاستغاثة بسید الخلق” تالیف شیخ یوسف نبھانی ھے ، یہ کتاب ابن تیمیہ اور محمد بن عبد الوھاب دونوں کی ردّ میں لکھی گئی ھے۔
اسی طرح وھابیوں کی ردّ میں لکھی جانے والی کتابوں میں سے “مصباح الانام وجلاء الظلّام” تالیف سید علوی بن احمدبھی ھے، بنابر نقل ابی حامد بن مَرزوق کتاب”التوسل بالنبی وجھلة الوھابیین”ھے۔
اسی طرح علماء ازھر میں سے شیخ محمد نجیت مطیعی صاحب کی کتاب “تطھیر الفواد من دنس الاعتقاد” ھے۔
اسی طرح وھابیوں کی ردّ میں لکھی جانے والی کتابوں میں علامہ عراق جمیل افندی صِدقی زِھاوی کی کتاب “الفجر الصادق فی الردّ علیٰ منکری التوسل والکرامات والخوارق” بھی ھے۔
انھیں کتابوں میں “ضیاء الصدور لمنکر التوسل باھل القبور” تالیف ظاہر شاہ میاں بن عبد العظیم بھی ھے۔
کتاب “المنحة الوھبیة فی الردّ علی الوھابیة” تالیف داوٴد بن سلیمان نقشبندی بغدادی بھی وھابیوں کی ردّ میں لکھی گئی ھے۔
اسی طرح کتاب “اشد الجھاد فی ابطال دعویٰ الاجتھاد” تالیف شیخ داوٴد موسوی بغدادی بھی ہے جو کتاب “منحة الوھبیة” کے ساتھ چھپ چکی ہے۔
اسی طرح ایک رسالہ “کشف النور عن اصحاب القبور” تالیف عبد الغنی افندی نابُلِسی وھابیت کی ردّ میں چھپ چکا ھے۔
کتاب “الاصول الاربعة فی تردید الوھابیة ” تالیف خواجہ محمد حسن جان صاحب سرھندی (فارسی زبان میں)چھپ چکی ھے۔
اسی طرح کتاب “سیف الابرار علی الفجار” تالیف محمد عبد الرحمن حنفی (فارسی زبان میں چھپ چکی ھے) ، (جو وھابیوں کے طرفدار نذیر حسین کے فتووں کی ردّ ھے۔)
اسی طرح ایک رسالہ “سیف الجبار المسلول علی الاعداء الابرار” تالیف شاہ فضل رسول قادری ھے (جو عربی اور فارسی زبانوں میں ھے۔
کتاب “مدارج السنیة فی ردّ علی الوھابیة” بھی وھابیوں کی ردّ میں لکھی گئی ھے جس کو عامر قادری معلم دار العلوم کراچی ، نے تالیف کیا ھے ( یہ کتاب عربی زبان میں اردو ترجمہ کے ساتھ چھپ چکی ھے)
اسی طرح وھابیوں کی ردّ میں لکھی گئی کتابوں میں ایک کتاب “تھَکُّم المقلدین بمن ادّعی تجدید الدین” تالیف محمد بن عبد الرحمن بن عفالق ھے جس میں وھابیوں کی تمام باتوں کا جواب دیا گیا ھے اور اس میں علوم شرعی اور ادبی سوال کئے گئے ھیں۔ (زینی دحلان کے قول کے مطابق)
اسی طرح کتاب “البراھین الجلیة” تالیف سید محمد حسن قزوینی ھے جو وھابیوں کی ردّ میں لکھی گئی ھے۔
وھابیوں کی ردّ میں لکھی جانے والی کتابو(ع)میں ایک “کشف النقاب عن عقائد محمد ابن عبد الوھاب” تالیف سید علی نقی(نقّن صاحب) ھندی بھی ھے ۔
اسی طرح کتاب “ازھاق الباطل فی ردّ الفرقة الوھابیة” تالیف امام الحرمین محمد بن داوٴد ھمدانی تیرھویں صدی کے علماء میں سے۔(435)
اسی طرح “لمعات الفریدة فی المسائل المفیدة” نامی کتاب تالیف سید ابراھیم رفاعی ھے۔
“ھذی ھی الوھابیة” نامی کتاب تالیف شیخ جواد مغنیہ بھی ان کتابوں میں سے ایک بہترین کتاب ھے۔
اسی فھرست میں “الدولة المکیة بالمادة الغیبة” تالیف احمد رضا خانصاحب قادری بھی ھے۔
رسالہ “الاوراق البغدادیة فی الحوادث النجدیة” تالیف سید ابراھیم راوی رفاعی ھے۔
انھیں کتابوں میں مشھور ومعروف کتاب “الغدیر” تالیف مرحوم علامہ شیخ امینی کی کتاب کا ایک حصہ وھابیوں کی ردّ میں لکھا گیا ھے۔
محمد بن عبد الوھاب کے عقائد کو ردّ کرنے والی کتابوں میں سید احمد زینی دحلان مفتی مکّہ معظمہ کی کتاب “الفتوحات الاسلامیہ” بھی ھے جس میں محمد بن عبد الوھاب پر شدید حملہ کیا ھے۔
اس مذکورہ کتاب میں زینی دحلان نے محمد بن سلیمان کردی کی بعض ان باتوں کا بھی ذکر کیا ہے جن کو موصوف نے محمد بن عبد الوھاب کی ردّ میں بیان کیا ھے۔ (436)
زینی دحلان کے وھابیت کی ردّ میں لکھے گئے چندمستقل کتابیں اب بھی باقی ہیں جن میں سے “فتنة الوھابیة” اور “الدرر السنیة لی الردّ علی الوھابیة” ھیں۔
یہاں پر یہ بات قابل توجہ ھے کہ آخری سالوں میں جو کتابیں وھابیوں کی ردّمیں لکھی گئی ھیں ان میں سے اکثر حنفی علماء ترکی ، ھندوستان اور پاکستان سے ھیں،اور اس سلسلہ میں آج کل ترکی(استامبول) سے بہت زیادہ کتابیں اور رسالے چھپے ھیں، اور شاید اس کی وجہ یہ رہی ہو کہ وھابیوں کے سب سے زیادہ حملے ابوحنیفہ کے عقائد اور ان کے نظریات پر ہوئے ہیں۔ البتہ یہ مستقل ایک موضوع ہے جس پر الگ گفتگو کی گٔی ہے ۔
(432)ائمہ سے اس کی مراد اھل سنت کے چار امام ، اور وہ لوگ ھیں جن کی باتوں کو اھل سنت حجت سمجھتے ھیں اور ۸۰۰ سال سے اس کی مراد تیسری صدی کا آخر اور شیخ سلیمان کا زمانہ یعنی بارھویں صدی ہجری ھے.
(433,434) “الصواعق الآلھٰیة فی الرد علی الوھابیة” ص ۳۸.
(435) جس کا موٴلف کے ہاتھ کا لکھا ھوا قلمی نسخہ ، کتابخانہ جناب آقای سید مھدی لاجوری ، قم میں موجود ھے.
(436)الفتوحات الاسلامیہ ج ۲ ص ۲۶۰.

 

 

تبصرے
Loading...