رھبران الٰھی کے لئے عصمت کی دلیلیں

اب یہ دونوں دلیلیں ملاحظہ ھوں :

1۔تربیت عمل کے سایہ میں :

اس میں کوئی شک نھیں کہ انبیائے کرام کی بعثت کامقصد انسانوں کی تربیت اور ان کی راھنمائی ھے اور تربیت کے موٴثر اسباب میں سے ایک سبب یہ بھی ھے کہ مربی میں ایسے صفات پائے جائیں جن کی وجہ سے لوگ اس سے قریب ھوجائےں ۔مثال کی طور پر اگر کوئی مربی خوش گفتار ،فصیح اور نپی تلی بات کرنے والا ھو لیکن بعض ایسے نفرت انگیز صفات اس میں پائے جائیں جس کے سبب لوگ اس سے دور ھوجائےں تو ایسی صورت میں انبیاء کی بعثت کامقصد ھی پورا نھیں ھوگا۔

ایک مربی ورھبر سے لوگوں کی دوری اور نفرت کا سب سے بڑا سبب یہ ھے کہ اس کے قول وفعل میں تضاد اور دورنگی پائی جاتی ھو۔اس صورت میں نہ صرف اس کی راھنمائیاں بے قدر اور بیکار ھوجائےں گی بلکہ اس کی نبوت کی اساس وبنیاد ھی متزلزل ھوجائے گی ۔

شیعوں کے مشھور اور بزرگ عالم سید مرتضی علم الھدیٰ نے اس دلیل کو یوں بیان کیا ھے:اگر ھم کسی کے فعل کے بارہ میں اطمینان نھیں رکھتے یعنی اگر ھمیں یہ شبہ ھے کہ وہ کوئی گناہ انجام دیتاھے تو ھم اطمینان قلب کے ساتھ اس کی بات پر دھیان نھیں دیتے ۔اور ایسے شخص کی باتےں ھم پر اثر نھیں کرسکتیں جس کے بارے میں ھم جانتے ھیں کہ وہ خود اپنی بات پر عمل نھیں کرتا ۔جس طرح مربی یارھبرکا گناہ کرنالوگوںکی نظر میں اسے کم عقل ،بے حیا اور لاابالی ثابت کرتاھے اور لوگوں کو اس سے دور کردیتاھے اسی طرح مربی یا رھبر کے قول وفعل کی دو رنگی بھی لوگوں پر اس کے خلاف منفی اثر ڈالتی ھے ۔

اگر کوئی ڈاکٹر شراب کے نقصانات پر کتاب لکھے یاکوئی متاٴثر کرنے والی فلم دکھائے لیکن خود لوگوں کے مجمع میں اس قدر شراب پئے کہ اپنے پیروں پر کھڑا نہ ھوسکے ۔ایسی صورت میں شراب کے خلاف اس کی تمام تحریریں ،تقریریں اور زحمتیں خاک میں مل جائیں گی۔

فرض کیجئے کہ کسی گروہ کارھبر کرسی پر بیٹہ کر عدل وانصاف اور مساوات کی خوبیاں بیان کرنے کے لئے زبردست تقریرکرے لیکن خود عملی طور سے لوگوں کا مال ھڑپ کرتارھے تو اس کاعمل اس کی کھی ھوئی باتوں کو بے اثر بنادے گا۔

خداوند عالم اسی وجہ سے انبیاء کو ایسا علم وایمان اور صبر وحوصلہ عطا کرتاھے تاکہ وہ تمام گناھوں سے خود کو محفوظ رکھیں ۔

اس بیان کی روشنی میں انبیائے الٰھی کے لئے ضروری ھے کہ وہ بعثت کے بعد یا بعثت سے پھلے اپنی پوری زندگی میں گناھوں اور غلطیوں سے دور رھیں اور ان کا دامن کسی بھی طرح کی قول وفعل کی کمزوری سے پاک اور نیک صفات سے درخشاں رھنا چاھئے ۔کیونکہ اگر کسی شخص نے اپنی عمر کاتھوڑا سا حصہ بھی لوگوں کے درمیان گناہ اور معصیت کے ساتھ گزارا ھو اور اس کی زندگی کانامھٴ اعمال سیاہ اور کمزوریوں سے بھرا ھو تو ایسا شخص بعد میں لوگوں کے دلوں میں گھر نھیں کرسکتا اور لوگوں کو اپنے اقوال وکردار سے متاثر نھیں کرسکتا۔

خداوند عالم کی حکمت کاتقاضا ھے کہ وہ اپنے نبی ورسول میں ایسے اسباب وصفات پیدا کرے کہ وہ ھر دل عزیز بن جائےں۔اور ایسے اسباب سے انھیں دور رکھے جن سے لوگوںکے نبی یارسول سے دور ھونے کا خدشہ ھو ۔ظاھر ھے کہ انسان کے گزشتہ برے اعمال اور اس کاتاریک ماضی لوگوں میں اس کے نفوذ اور اس کی ھر دلعزیزی کو انتھائی کم کردے گا اور لوگ یہ کھیں گے کہ کل تک تو وہ خود بد عمل تھا، آج ھمیں ھدایت کرنے چلاھے؟!

2۔اعتماد جذب کرنا:

تعلیم وتربیت کے شرائط میںسے ایک شرط ،جو انبیاء یاالٰھی رھبروں کے اھم مقاصد میں سے ھے ،یہ ھے کہ انسان اپنے مربی کی بات کی سچائی پر ایمان رکھتاھوکیونکہ کسی چیز کی طرف ایک انسان کی کشش اسی قدر ھوتی ھے جس قدر وہ اس چیز پر اعتماد وایمان رکھتاھے۔ایک اقتصادی یا صحی پروگرام کا پر جوش استقبال عوام اسی وقت کرتے ھیں جب کوئی اعلیٰ علمی کمیٹی اس کی تائید کردیتی ھے ۔کیونکہ بھت سے ماھروں کے اجتماعی نظریہ میں خطا یا غلطی کاامکان بھت کم پایا جاتا ھے ۔ اب اگر مذھبی پیشواوٴں کے بارے میں یہ امکان ھو کہ وہ گناہ کرتے ھوں گے تو قطعی طور سے جھوٹ یا حقائق کی تحریف کا امکان بھی پایا جاتا ھوگا ۔اس امکان کی وجہ سے ان کی باتوں سے ھماراا طمینان اٹہ جائے گا۔ اسی طرح انبیاء کا مقصد جو انسانوں کی تربیت اور ھدایت ھے ھاتہ نہ آئے گا۔

ممکن ھے یہ کھا جائے کہ اعتماد واطمینان حاصل کرنے کے لئے یہ کافی ھے کہ دینی پیشوا جھوٹ نہ بولیں اور اس گناہ کے قریب نہ جائےں تا کہ انھیں لوگوں کا اعتماد حاصل ھو ۔بقیہ سارے گناھوں سے ان کا پرھیز کرنا لازم نھیں ھے کیونکہ دوسرے گناھوں کے کرنے یا نہ کرنے سے مسئلہ اعتماد واطمینان پر کوئی اثر نھیں پڑتا۔

جواب یہ ھے کہ اس بات کی حقیقت ظاھر ھے ،کیونکہ یہ کیسے ممکن ھے کہ ایک شخص جھوٹ بولنے پر آمادہ نہ ھو لیکن دوسرے گناھوں مثلاً آدم کشی ،خیانت اور بے عفتی وبے حیائی کے اعمال کرنے میں اسے کوئی باک نہ ھو؟اصولاً جو شخص دنیا کی لمحاتی لذتوں کے حصول کے لئے ھر طرح کے گناہ انجام دینے پر آمادہ ھو وہ ان کے حصول کے لئے جھوٹ کیسے نھیں بول سکتا۔؟! (1)

اصولی طور سے انسان کو گناہ سے روکنے والی طاقت ایک باطنی قوت یعنی خوف خدا اور نفس پر قابو پاناھے ۔جس کے ذریعہ انسان گناھوں سے دور رھتا ھے ۔پھر یہ کیسے ممکن ھے کہ جھوٹ کے سلسلہ میں تو یہ قوت کام کرے لیکن دوسرے گناھوں کے سلسلہ میں جو عموماً بھت برے اور وجدان و ضمیر کی نظر میں جھوٹ سے بھی زیادہ قبیح ھوں ،یہ قوت کام نہ کرے ؟!

اور اگر ھم اس جدائی کو ثبوت کے طور پر قبول کربھی لیں تو اثبات کے طور سے یعنی عملاً عوام اسے قبول نھیں کرےں گے۔کیونکہ لوگ اس طرح کی جدائی کو ھرگز تسلیم نھیں کرتے۔

اس کے علاوہ گناہ جس طرح گناہ گار کو لوگوں کی نظر میں قابل نفرت بنادیتے ھیں اسی طرح لوگ اس کی باتوں پر بھی اعتماد واطمینان نھیں رکھتے اور”انظر الیٰ ما قال ولاتنظر من الیٰ قال”یعنی یہ دکھو کیا کھہ رھاھے یہ نہ دیکھو کون کھہ رھاھے کا فلسفہ فقط ان لوگوں کے لئے موٴثر ھے جو شخصیت اور اس کی بات کے در میان فرق کرنا چاھتے ھیں لیکن ان لوگوں کے لئے جو بات کی قدرقیمت کو کھنے والے کی شخصیت اور اس کی طھارت وتقدس کے آئینہ میں دیکھتے ھیں یہ فلسفہ کارگر نھیں ھوتا۔

یہ بیان جس طرح رھبری وقیادت کے منصب پر آنے کے بعد صاحب منصب کے لئے عصمت کو ضروری جانتاھے،اسی طرح صاحب منصب ھونے سے پھلے اس کے لئے عصمت کو لازم وضروری سمجھتاھے ۔کیونکہ جو شخص ایک عرصہ تک گناہ گارو لاابالی رھاھواور اس نے ایک عمر جرائم وخیانت اور فحشا وفساد میں گزاری ھو، چاھے وہ بعد میں توبہ بھی کرلے ،اس کی روح میں روحی ومعنوی انقلاب بھی پیدا ھوجائے اور وہ متقی وپرھیزگاراور نیک انسان بھی ھوجائے لیکن چونکہ لوگوں کے ذھنوں میں اس کے برے اعمال کی یادیں محفوظ ھیں لھٰذا لوگ اس کی نیکی کی طرف دعوت کو بھی بد بینی کی نگاہ سے دیکھیںگے اور بسا اوقات یہ تصور بھی کرسکتے ھیں کہ یہ سب اس کی ریاکاریاں ھیں وہ اس راہ سے لوگوں کو فریب دینا اور شکار کرنا چاھتاھے۔اور یہ ذھنی کیفیت خاص طورسے تعبدی مسائل میں جھاں عقلی استدلال اور تجزیہ کی گنجائش نھیں ھوتی ،زیادہ شدت سے ظاھر ھوتی ھے۔

مختصر یہ کہ شریعت کے تمام اصول و فروع کی بنیاد استدلال و تجربہ پر نھیں ھوتی کہ الٰھی رھبر ایک فلسفی یا ایک معلم کی طرح سے اس راہ کو اختیار کرے اور اپنی بات استدلال کے ذریعہ ثابت کرے ،بلکہ شریعت کی بنیاد وحی الٰھی اور ایسی تعلیمات پر ھے کہ انسان صدیوں کے بعد اس کے اسرار و علل سے آگاہ ھوتا ھے اور اس طرح کی تعلیمات کو قبول کرنے کے لئے شرط یہ ھے کہ لوگ الٰھی رھبر کے اوپر سو فی صد ی اعتماد کرتے ھوں کہ جو کچھ وہ سن رھے ھیں اسے وحی الٰھی اور عین حقیقت تصور کریں ، اور ظاھر ھے کہ یہ حالت ایسے رھبر کے سلسلے میں لوگوں کے دلوں میں ھر گز پیدا نھیں ھو سکتی جس کی زندگی ابتدا سے انتھا تک روشن و درخشاں اور پاک و پاکیزہ نہ ھو۔ (2)

یہ دو دلیلیں نہ صرف انبیائے کرام کے لئے عصمت کی ضرورت کو ثابت کرتی ھیں ،بلکہ یہ بھی ثابت کرتی ھیں کہ انبیاء کے جانشینوں کو بھی انبیاء کی طرح معصوم ھونا چاھئے ، کیوں کہ امامت کا منصب اھل سنت کے نظر یہ کے برخلاف کوئی حکومتی اور معمولی منصب نھیں ھے بلکہ جیسا کہ ھم پھلے بیان کر چکے ھیں امامت کا منصب ایک الٰھی منصب ھے اور امام پیغمبر کے ساتھ (نبوت اور وحی کے علاوہ ) تمام منصبوں میں شریک ھے ۔ امام ،دین کا محافظ و نگھبان اور قرآن کے مجمل مطالب کی تشریح کرنے والا ھے نیز ایسے بھت سے احکام کو بیان کرنے والا ھے جنھیں پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) بیان کرنے میں کامیاب نھیں ھوئے تھے ۔

اس لئے امام مسلمانوں کا حاکم اور ان کی جان و مال و ناموس کا نگھبان بھی ھے اور شریعت کو بیان کرنے والا اور الٰھی معلم و مربی بھی ھے اور ایک مربی کو معصوم ھونا چاھئے ، کیوں کہ اگر اس سے کوئی بھی چھوٹا یا بڑا گناہ سرزد ھوا تو اس کی تربیت بے اثر ھو جائے گی ۔ اور اس کی گفتار و کردار کی صحت و درستگی پر سے لوگوں کا اعتماد اٹہ جائے گا۔

_____________________

1۔اس کے علاوہ گناہ کرنے والے اگر جھوٹ نہ بولیں گے تو اس کالازمہ یہ ھوگا کہ وہ سچائی کے ساتھ اپنے گناھوں کا اعتراف کریں اور جب لوگ ان کی برائیوں سے آگاہ ھوجائےں گے تو فطری طور سے ان کا وقار اور ان کی عزت خاک میں مل جائے گی اور لوگ ان سے نفرت کرنے لگیں گے۔نتیجہ میں دوبارہ وھی مشکل پیش آئے گی کہ مربی اپنے عملی گناہ کے سبب لوگوں میں اپنی عزت گنوادے گا۔

2۔ لوگوں کا اعتماد جزب کرنے کا لازمہ یہ ھے کہ پیغمبر اپنی زندگی کے تمام ادوار میں چاھے وہ رھبری سے پھلے کی زندگی ھو یا اس کے بعد والی زندگی ھر طرح کے گناہ لغزش اور الودگی سے پاک و پاکیزہ ھو ۔ کیوں کہ یہ بے دھڑک اور سو فی صدی اعتماد اسی وقت ممکن ھے جب اس شخص سے کبھی کوئی گناہ ھوتے ھوئے نہ دیکھا جائے ۔ جو لوگ اپنی زندگی کا کچھ حصہ گناہ اور آلودگی میں بسر کرتے ھیں ،اسکے بعد توبہ کرتے ھیں ،ممکن ھے کہ ایک حد تک لوگوں کا اعتماد جذب کرلیں لیکن سو فی صد ی اعتماد تو بھر حال جذب نھیں کر سکتے ۔

ساتھ ھی اس بات سے یہ نتیجہ بھی حاصل کیا جاسکتا ھے کہ رھبروں کو عمدی گناہ کے ساتھ ساتھ سھو اور بھو ل سے کئے گئے گناہ سے بھی محفوظ ھونا چاھئے ،کیوں کہ عمدی گناہ اعتماد کو سلب کر لیتا ھے اور سھوی گناہ اگر چہ بعض موارد میں اعتماد سلب کرنے کاباعث نھیں ھوتا لیکن انسان کی شخصیت کو نا قابل تلافی نقصان پھنچاتا اور اس کی شخصیت کو بری طرح مجروح کر دیتا ھے اگر چہ سھوی گناہ کی سزا نھیں ھے اور انسان ،دین و عقل کی نگاہ سے معذور سمجھا جاتا ھے لیکن رائے عامہ پر اس کابرا اثر پڑتا ھے اور لوگ ایسے شخص سے دور ھو جاتے یا میں خاص طور سے اگر گناہ بھول سے کسی کو قتل کرنے کا یا اسی جیسا ھو ۔

 

 

تبصرے
Loading...