قرآن کی راھنمائی

جن کے رتبے ھیں سوا ان کو سوا …… یہ طے ھے کہ اھم اور بڑی ذمہ داریوں کی انجام دھی کے لئے حالات و شرائط بھی سنگین ھوتے ھیں۔ذمہ داری جتنی بڑی اور جتنی سنگین ھوتی ھے ،شرائط بھی اسی لحاظ سے سنگین اور سخت ھوتے ھیں ۔ایک امام جماعت کے شرائط عدالت کے اس قاضی کے برابر نھیں ھیں جس کے اختیار میں لوگوں کی جان و مال ھوتے ھیں۔

نبوت اور امامت عظیم ترین منصب ھے جو خدا کی طرف سے انسانوں کو عطا ھوا ھے ، جو افراد اس منصب پر فائز ھوتے ھیں وہ خدا وند عالم کی طرف سے لوگوں کی جان و مال وناموس پر مکمل تسلط و اختیار رکھتے ھیں اور ان کاارادہ لوگوں کی زندگی کے تمام پھلوؤں پر نافذ ھوتا ھے۔قرآن مجید پیغمبر اکرم کے بارے میں فرماتا ھے :” النبی اولیٰ بالمونین من انفسھم” (1) یعنی پیغمبر باایمان لوگوں کی جانوں پر ان سے زیادہ حق رکھتا ھے۔

پیغمبر اسلام (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے حدیث غدیر کے خطبہ میں خود کو اور حضرت علی علیہ السلام کو لوگوں کی جانوں پر ان سے زیادہ اولیٰ اور صاحب اختیار بتایا ۔ کیا یہ ممکن ھے کہ حکمت و تدبیر ولا خدا ایسے عظیم اور اھم منصب کی باگڈور ایک غیر معصوم شخص کے ھاتہ میں دےدے “اللّٰہ اعلم حیث یجعل رسالتہ”

قرآن کی راھنمائی

پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)اور صاحبان امر (اولی الامر) (2) قرآن کے صاف حکم کے مطابق واجب الاطاعت ھیں اور جس طرح ھم خداکے فرمان کی اطاعت کرتے ھیں یوں ھی ان کے حکم کی اطاعت بھی ھم پر واجب ھے چنانچہ ارشاد ھوتا ھے : ” اطیعوا اللّٰہ و اطیعوا الرسول و اولی الامر منکم”یعنی خدا کی اطاعت کرو ،اس کے رسول کی اور صاحبان امر کی اطاعت کرو۔ (3)

یہ آیت باکل واضح طور سے صاحبان امر کی بلا قید و شرط اطاعت کا حکم دیتی ھے ۔ اگر یہ افراد سو فی صد ی گناہ و خطا سے محفوظ ھوں گے جب ھی خدا وند عالم کی طرف سے ان کی بلا قید و شرط اطاعت کا واجب کیا جانا صحیح ھوگا ۔ کیوں کہ اگر ھم ان کی عصمت کو تسلیم کرلیں تومعصوم کی بے قید و شرط اطاعت پر کوئی اعتراض نہ ھوگا ،لیکن اگر ھم یہ فرض کرلیں کھ(اولی الامر) یعنی صاحبان امر کا گروہ جن کی اطاعت ھم پر واجب کی گئی ھے معصوم نہ ھوں بلکہ گناہ گار و خطا کار افراد ھوں تو ایسی صورت میں خدا وند عالم یہ کیسے حکم دے گا کہ ھم ان لوگوں کی بلاقید و شرط پیروی کریں

لھٰذا اگرھم پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے جانشینوں کے لئے عصمت کو شرط نہ جانیں اور فرض کریں کہ کسی جانشین نے کسی مظلوم کے قتل یا کسی بے گناہ کا مال و جائداد ضبط کئے جانے کا حکم دے دیا اور ھم جانتے ھوں کہ وہ شخص مظلوم یا بے گناہ تھا تو ایسی صورت میں ھمیں قرآن کے حکم کے مطابق اس جانشین کے فرمان پر موبموعمل کرنا ھوگا یعنی اس مظلوم کو قتل یا بے گناہ کا مال ضبط کرنا ھوگا۔

لیکن اگر ھم یہ کھیں کہ قرآن کریم نے “اولی الامر ” کی پیروی کو خدا اور رسول کی اطاعت کے ساتھ قرار دیا ھے اور ان تینوں اطاعتوں کو بلا قید و شرط شمار کیا ھے تو اس سے یہ بات سمجھ میں آتی ھے کہ ” اولی الامر ” رسول خدا (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی ھی طرح گناہ و خطا سے معصوم ھیں ۔ لھٰذا اب ھم یہ کھیں گے کہ کبھی کوئی معصوم ” اولی الامر ” کسی مظلوم کے قتل یا کسی بے گناہ کا مال ضبط کرنے کا حکم نھیں دیتا۔

ایک سوال کا جواب:

ممکن ھے یہ کھا جائے کہ اولی الامر کی اطاعت اسی صورت میں واجب ھے جب وہ شریعت اور خدا و رسول کے صاف حکم کے مطابق عمل کرے ۔ور نہ دوسری صورت میں نہ صرف ان کی اطاعت واجب نھیں ھے بلکہ ان کی مخالفت کرنی چاھئے۔

اس سوال کا جواب واضح ھے ۔کیوں کہ یہ بات اسی وقت عملی ھے جب اول یہ کہ تمام لوگ الٰھی احکام اور فروع دین سے مکمل آگاھی رکھتے ھوں اور حرام و حلال کی تشخیص دے سکتے ھوں ۔ دوسرے یہ کہ اس قدر جراٴت و شجاعت رکھتے ھوں کہ حاکم کے قھر و غضب سے خوف زدہ نہ ھوں جب ھی یہ ممکن ھے کہ وہ حاکم کا حکم شریعت سے مطابق ھونے کی صورت میں بجالائیں ورنہ دوسری صورت میں اس سے مقابلہ کے لئے اٹہ کھڑے ھوں ۔ لیکن افسوس کہ عام طور سے لوگ الٰھی احکام سے پوری آگاھی نھیں رکھتے کہ “اولی الامر ” کے فرمان کو تشخیص دے سکیں بلکہ لوگوں کی اکثریت اس بات کی توقع رکھتی ھے کہ” اولی الامر”کے ذریعہ الٰھی احکام سے آگاہ ھوں اسی طرح جو طاقت سب پر مسلط ھے اس کی مخالفت بھی کوئی آسان بات نھیں ھے اور ھر ایک اس کے انجام کو برداشت نھیں کرسکتا ۔

اس کے علاوہ اگر قوم کو ایسے اختیارات حاصل ھو جائیں تو لوگوں کے دلوں میں سر کشی کا جذبہ پیدا ھو گا اور نظام درھم و برھم ھو جائے گا اور ھر شخص کسی نہ کسی بھانہ سے ” اولی الامر ” کی اطاعت سے انکار کرے گا اور قیادت کی مشینری میں خلل پیدا ھو جائے گا ،

یھی وجہ ھے کہ اس آیت کریمہ کی روشنی میں یہ یقین کیا جا سکتا ھے کہ “اولی الامر ” کا منصب ان لوگوں کے لئے ھے جن کی اطاعت بلا قید و شرط واجب کی گئی ھے اور یہ افراد معصوم شخصیتوں کے علاوہ کوئی اور نھیں ھیں جن کا دامن ھر طرح کے گناہ ،خطا ، یا لغزش سے پاک ھے۔

قرآن کی دوسری راھنمائی

قرآن کریم میں ایک دوسری آیت جو امامت سے متعلق گفتگو کرتی ھے پوری بلاغت کے ساتھ ظلم وستم سے پرھیز کو امامت کے لئے شرط قرار دیتی ھے۔ چنانچہ ارشاد ھوتا ھے:

” اذ ابتلیٰ ابراھیم ربہ بکلمات فاتمھن قال انی جاعلک للناس اماماً قال و من ذریتی قال لا ینال عھد ی الظالمین”

” یعنی جب ابراھیم (ع) کو ان کے پروردگار نے بعض امور کے لئے آزمایا اور وہ تمام امتحانوں میں کامیاب ھوئے تو ان سے ارشاد ھوا کہ میں نے تم کو لوگوں کا پیشوا و امام قرار دیا ۔(جناب ابراھیم (ع)نے) عرض کیا: میری ذریت اور میری اولاد کو بھی یہ منصب نصیب ھوگا تو جواب ملا کہ میراعھد ستم گاروں تک نھیں پھنچے گا”(4)

امامت ،نبوت کے مانند الٰھی منصب ھے جو صرف صالح اور شائستہ افراد کو ھی ملتاھے اس آیت میں جناب ابراھیم (ع)نے خدا سے یہ تقاضا کیا کہ میری اولاد کے حصہ میں بھی یہ منصب آئے لیکن فوراً خدا وند عالم کا خطاب ھوا کہ ظالم و ستمگر افراد تک یہ منصب نھیں پھنچے گا۔

مسلّم طور سے اس آیت میں ظالم سے مراد وہ افراد ھیں جو گناھوں سے آلودہ ھیں ، کیوں کہ ھر طرح کا گناہ اپنے آپ پر ایک ظلم اور خدا کی بارگاہ میں نافرمانی کی جسارت ھے ۔ اب یہ دیکھنا چاھئے کہ کون سے ظالم لوگ اس آیت کے حکم کے مطابق منصب قیادت و امامت سے محروم ھیں۔ اصولی طور سے جو شخصیتیں لوگوں کی پیشوائی اور حاکمیت کی باگڈور سنبھالتی ھیں وہ چار ھی طرح کی ھوتی ھیں :

1۔یا وہ زندگی بھر ظالم رھے ھیں چاھے منصب حاصل کرنے سے پھلے یا اس کے بعد ۔

2۔یاانھوں نے پوری عمر میں کبھی گناہ نھیں کیا۔

3۔حاکم ھونے سے پھلے ظالم وستمگر تھے لیکن قیادت وپیشوائی حاصل کرنے کے بعد پاک صاف ھوگئے۔

4۔ یہ تیسری قسم کے برعکس ھے یعنی حکومت ملتے ھی ظلم وستم شروع کردیا اس سے پھلے گناہ نھیں کرتے تھے۔

اب دیکھنا یہ ھے کہ جناب ابراھیم (ع)نے ان چار گروھوں میں سے کس کے لئے اس منصب کی آرزو کی تھی؟یہ تو ھرگز سو چا نھیں جاسکتا کہ جناب ابراھیم (ع) نے پھلے اور جو تھے گروہ کے لئے اس عظیم منصب کی آرزو کی ھوگی ۔کیونکہ جو لوگ حاکمیت کے دوران ظالم وستمگر میں کسی بھی صاحب عقل اور صائب رائے رکھنے والے کی نظر میں اس منصب کے لائق نھیں ھوتے ھیں ،چہ جائیکہ ابراھیم (ع)خلیل کی نگاہ میں۔ جنھوں نے خود کتنے سنگیں امتحانات دینے،ساری زندگی پاکیزگی کے ساتھ بسر کرنے اور گناہ وظلم سے مسلسل لڑنے کے بعد یہ عظیم منصب حاصل کیا ھے وہ ھرگز مذکورہ دوگروھوں کے لئے تمام انسانوں پر امامت کی آرزو نھیں کرسکتے ۔ظاھر ھے کہ جناب ابراھیم (ع)کا مقصود دوسری دو قسم کی شخصیتیں تھیں ۔اس صورت میں جملھٴ “لاینال “کی شرط کے ذریعہ تیسرا گروہ بھی نکل جاتاھے اور منصب امامت کے لئے صرف وھی گروہ رہ جاتا ھے جس نے اپنی پوری زندگی میں کبھی کوئی گناہ نھیں کیاھے۔

حوالہ

1۔ احزاب /32

2۔ یہ وھی صاحبان امر ھیں جو پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے بعد مسلمانوں کے امور کے ذمہ دار ھیں ۔یا کم از کم مصداق “اولی الامر”ھیں۔

3۔ نساء /59

4۔ بقرہ /124

 

تبصرے
Loading...