تفریح اسلامی نقطہ نگاہ سے

اسلام نے جھاں تمام روحانی اور جسمانی تقاضوں كا حل پیش كیا ھے وھاں اس فطری ضرورت كوبھی نظر انداز نھیں كیا ھے ۔ حضرت امام علی رضا عليه السلام نے فرمایا: ” دنیا كی لذتوں سے اپنے لئے بھی ایك حصہ مخصوص ركھو ۔ اپنی جائز ضرورتوں كو پورا كرو تاكہ تمھاری شجاعت اور شخصیت متاثر نہ ھو۔ اسراف اور شدت پسندی سے دور رھو۔ ان چیزوں كے ذریعہ دنیاوی امور میں مدد حاصل كرو “۔ 1

تفریح كی فطری ضرورت اگر دوسری فطری ضرورتوں كی طرح كنٹرول نہ كی جائے تو اس كے اثرات یقینا خطر ناك ھوں گے اسی لئے حضرت نے فرمایا كہ: ”یہ وسائل ایسے نہ ھوں جو انسان كی واقعی شخصیت اور شجاعت پر اثر انداز ھوں ۔ انسان كو مفید اور مضر تفریحوں میں فرق كرنا چاھئیے ۔ “

حضرت امیر المومنین عليه السلام نے تفریح كو مومنین كے روز آنہ كے معمول میں قرار دیا ھے ،آپ نے فرمایا: ”مومنین كے دن كو تین حصوں میں تقسیم ھونا چاھئے ۔ ایك حصہ خدا وند عالم سے راز و نیاز عبادت كے لئے ، ایك حصہ معاشی امور كی اصلاح اور ضروریات زندگی كو پورا كرنے كے لئے اور ایك حصہ حلال اور نیك چیزوں سے لطف اندوز ھونے كے لئے“ ۔ 

تفریح

مقدمہ

سامراجی طاقتوں كی برابر یہ كوشش رھتی ھے كہ كس طرح سے فكری صلاحتیوں كو سلب كر كے ، ان كو ارادہ و اختیار سے محروم كر كے ان كی تقدیر كو اپنے ھاتھوں میں لے لیا جائے تاكہ وہ اپنے بارے میں خود كوئی فیصلہ نہ كر سكیں اور اپنے اچھے و بُرے كی تمیز نہ كر سكیں۔ ھم جس طرح سے چاھیں ان كو استعمال كریں، جس چیز كو ھم اچھا كھیں اسی كو وہ بھی اچھا سمجھیں اور جس كو ھم براكھیں اسی كو وہ بھی برا سمجھیں۔

معاشرے كو تباہ و بر باد كر نے كا ایك موثر ترین ذریعہ لوگوں كے” فاضل وقت “ پر قبضہ كر لینا ھے اور اس كو اپنے حسب منشا بسر كرانا ھے ۔ آج كی دنیا نے انسان كے ” فاضل وقت “ بسر كرنے كے سلسلے میں جو پروگرام پیش كئے ھیں اور جس طرح سے لوگوں كو اس میں منھمك كیا ھے وہ نھایت اھم ھے ۔ سامراجی طاقتوں نے ” فاضل وقت “ بسر كرنے كے لئے آزادی ، عیش و نوش ، شباب و شراب كے وسائل اتنے زیادہ عام كر دیئے ھیں جس سے جوانوں كی قوت ارادی سلب ھو كر رہ گئی ھے ۔ وہ حیوانیت كی راہ میں اتنا زیادہ آگے نكل گئے ھیں كہ دور دورتك انسانیت كے خد و خال نظر نھیں آتے ۔

تفریح كی ضرورت

تفریح كی ضرورت فطری ھے جس كو زندگی كے ھر دور میں پورا ھونا چاھئے ۔ اس ضرورت كے پورا ھونے سے انسان كو كیف اور خوشی محسوس ھوتی ھے ۔

جس قدر اجتماعی خدمتیں ، تحصیل علوم كی زحمتیں اور فكری نششتیں زیادہ ھوں گی تفریح كی ضرورت اتنی ھی زیادہ شدید ھو گی كیونكہ اس طرح كے كام كرنے سے اعصاب تھك جاتے ھیں ۔ تفریح ان كو آرام دیتی ھے، قوت عطا كرتی ھے اور پھر سے محنت كرنے پر آمادہ كرتی ھے ۔

زندگی كے اس اھم مسئلہ كونظرانداز كرنے سے خطر ناك نتائج بر آمد ھوتے ھیں، كیونكہ اگر مفید تفریح كے وسائل مھیا نہ ھوں تو لوگ خطرناك تفریحوں كے عادی ھو جاتے ھیں ، پھرایك بری عادت دوسری خراب عادتوںكے لئے زمین ھموار كرتی ھے ۔

تفریح اسلام كی نظر میں

اسلام نے جھاں تمام روحانی اور جسمانی تقاضوں كا حل پیش كیا ھے وھاں اس فطری ضرورت كوبھی نظر انداز نھیں كیا ھے ۔ حضرت امام علی رضا عليه السلام نے فرمایا: ” دنیا كی لذتوں سے اپنے لئے بھی ایك حصہ مخصوص ركھو ۔ اپنی جائز ضرورتوں كو پورا كرو تاكہ تمھاری شجاعت اور شخصیت متاثر نہ ھو۔ اسراف اور شدت پسندی سے دور رھو۔ ان چیزوں كے ذریعہ دنیاوی امور میں مدد حاصل كرو “۔ 1

تفریح كی فطری ضرورت اگر دوسری فطری ضرورتوں كی طرح كنٹرول نہ كی جائے تو اس كے اثرات یقینا خطر ناك ھوں گے اسی لئے حضرت نے فرمایا كہ: ”یہ وسائل ایسے نہ ھوں جو انسان كی واقعی شخصیت اور شجاعت پر اثر انداز ھوں ۔ انسان كو مفید اور مضر تفریحوں میں فرق كرنا چاھئیے ۔ “

حضرت امیر المومنین عليه السلام نے تفریح كو مومنین كے روز آنہ كے معمول میں قرار دیا ھے ،آپ نے فرمایا: ”مومنین كے دن كو تین حصوں میں تقسیم ھونا چاھئے ۔ ایك حصہ خدا وند عالم سے راز و نیاز عبادت كے لئے ، ایك حصہ معاشی امور كی اصلاح اور ضروریات زندگی كو پورا كرنے كے لئے اور ایك حصہ حلال اور نیك چیزوں سے لطف اندوز ھونے كے لئے“ ۔ 2

مفید اور مضر تفریحیں

یہ بات بیان كی جاچكی ھے كہ تفریح انسان كی فطری ضرورت ھے ۔ اس كو جائز اور حلال ذرائع سے پورا ھونا چاھئے۔ اس كے لئے سب سے پھلے یہ ضروری ھے كہ ھم مفید اور مضر تفریحوں كو پھچانیں تاكہ تفریح كے لمحات گمراھی اور شخصیت كے منافی امور كی نذر نہ ھونے پائیں ۔

تفریح كو روحانی اور جسمانی قوتوں كی تقویت كا ذریعہ ھونا چاھئے جس كے ذریعہ انسان كو تازگی كا احساس ھو ، روح شاداب ھو اور انسان برائی كے راستوں پر چلنے سے محفوظ رھے ۔ جن تفریحوں میںاس احساس كے بجائے روح اور زیادہ مضطرب ھو جائے ،جسم كو اور زیادہ تھكن كا احساس ھونے لگے، انسان فحشاء اور برائیوں كے راستہ پر چلنے لگے بلكہ ان كو عام كرنے لگے تو ان اموركو درحقیقت تفریح كانام نھیں دیاجاسكتااور انسان كو ایسی تفریحوں سے اجتناب چاھئے كیونكہ تفریح صرف دل بھلانے كاوسیلہ نھیںھے بلكہ یہ انسان كی جسمانی ، روحانی، انفرادی اور اجتماعی صحت و سلامتی كاایك اھم ذریعہ ھے اور جس تفریح میںیہ اثر نہ پایا جاتا ھو اس كو تفریح نھیں كھا جا سكتا ھے ۔

اگر ھمارا معاشرہ غور و فكر سے كام لیتا تو حیوانوں كی طرح خطرناك تفریحی مراكز یا اخلاقیات كے مقتل كی طرف اس طرح نہ ٹوٹتااور اپنی انسانیت كے گراں بھا گوھر كو اس طرح مفت ضائع نہ كرتا ۔

حضرت علی عليه السلام نے ارشاد فرمایا:

”وہ لذت جس سے شرمندگی حاصل ھواور وہ شھوت و خواھش جس سے درد میں اضافہ ھو اس میں كوئی خیر نھیں ھے“ 3

اگر معاشرہ نیكیوں كا طلب گا رھے تو اسے حضرت عليه السلامكے قول پر غور و فكر كرتے ھوئے دور اندیشی كے ساتہ اپنے كام كے نتائج كودیكھنا ھو گا ۔ اسے غور كرنا ھو گا كہ وقتی خواھشات كے نتائج كیا بر آمد ھو سكتے ھیں ۔ وہ تفریحیں جو اس وقت بھلی معلوم ھوتی ھیں وہ آئندہ كن كن خرابیوں اور تباھیوں كا پیش خیمہ بن سكتی ھیں ۔ اس طرح كی تمام تفریحوں سے اس كو حد درجہ پرھیز كرنا ھو گا ۔

حضرت علی نے ارشاد فرمایا:

”مجھے اس شخص پر تعجب ھے جو لذتوں كے خطرناك نتائج سے واقف ھوتے ھوئے بھی عفت و پاكدامنی كا راستہ اختیار نھیں كرتا ۔ “ 4

مناسب ھے كہ یھاں پر كچھ” مفید تفریحوں“ كا ذكر كیا جائے ۔

مفید تفریحیں

نفسیات كے عظیم ماھرین اس كے قائل ھیں كہ تفریح انسان كا فطری تقاضا ھے جس كا پورا كرنا نھایت ضروری ھے اور اس سلسلے میں انھوں نے چند یاد دھانیاں كی ھیں ۔

پاك و پاكیزہ دین، اسلام نے بھی اس مسئلہ كو خاص اھمیت دی ھے اور مفید تفریحوں كی سمت لوگوں كی رھنمائی كی ھے،ساتہ ھی ساتہ خطر ناك تفریحوں سے منع بھی كیاھے ۔ ذیل میں بعض مفید تفریحوں كا تذكرہ كیاجائے گا لیكن اس سے پھلے جو ان نسل سے یہ گذارش كرنا چاھتے ھیں كہ تفریحوں كے سلسلے میں ان تفریحوں كو اختیار كریں جن سے روحانی اور فكری صلاحیتوں میں اضافہ ھو اور جوانوں كے سر پرستوں سے یہ درخواست كرھے كہ ایسی تفریحوں سے اپنے بچوں كو دور ركھیں جن سے انكی فكری ترقی رك جاتی ھے اور اخلاقیات پر برا اثر پڑتاھے كیونكہ جس طرح مفید تفریحیں تھكاوٹ دور كرنے اور فكری ترقی كا ذریعہ ھیں اسی طرح غلط تفریحیں اعصاب كو اور زیادہ تھكا دیتی ھیںاور فكرو عقل كی ترقی كی راہ میں حائل ھو جاتی ھیں ۔

اگر تم اس كے عادی ھو جاؤ كہ اپنے كو ایسی مصنوعی تفریحوں میں مشغول كر لو جس كی جسم و روح كو ضرورت نہ ھو تو اس كا نتیجہ یہ ھو گا كہ رفتہ رفتہ تمھاری فكری صلاحیت ضعیف ھو جائے گی اور ذوق و شوق رخصت ھو جائے گا ۔ 5

مطالعہ اور ارتقاء فكر

كتابوں كا مطالعہ كرنا ایسی تفریح ھے جس سے انسان كی فكری اور روحانی صلاحیتوں میں غیر معمولی ترقی ھوتی ھے اور اگر مطالعہ ذوق و شوق كے ھمراہ ھو تو بھت ھی زیادہ لذت بخش اور ترو تازگی كا سبب بنتاھے ۔

حضرت علی عليه السلام نے ارشاد فرمایا:

”حكمت كی نئی اور حیرت انگیز باتوں سے اپنی روح كو تر و تازہ كرو كیونكہ روح بھی بدن كی طرح تھك جاتی ھے“ 6

حكمت كی باتیں مطالعہ اور دانشوروں كے ساتہ اٹھنے بیٹھنے سے حاصل ھوتی ھیں جس سے روح كو تازگی حاصل ھوتی ھے اور فكری صلاحیتوں میں اضافہ ھوتا ھے ۔

جوانوں كو چاھئے كہ اپنے فاضل وقت كا كچہ حصہ مفید كتابوں كے مطالعہ میں گذاریں ۔ اگر ابتداء میں كوئی خاص انسیت محسوس نہ ھوتو بار بار كی تكرار اور مفید كتابوں كے انتخاب اور مطالعہ كے ذریعہ دلچسپی پیدا كی جا سكتی ھے ۔ اگر ھم جوان نسل كو مفید كتابوں كے مطالعہ كا عادی بنا سكیں تو جوانوں كی فكری اور عقلی ترقی كی راہ میں ایك اھم قدم ھو گا اور اس طرح جوانوں كو فساد كی طرف جانے سے كافی حد تك روك سكتے ھیں اور مفید كتابوں كے ذریعہ بر بادیوں كی راہ میں ركاوٹ ایجاد كر سكتے ھیں ۔ اگر مطالعہ كی عادت نہ ھو تو جوان اپنا فاضل وقت غلط تفریحوں میں بسر كرے گا ۔

وہ لوگ جو ایك طرح كا كام كرتے كرتے تھك جاتے ھیں وہ بھی مطالعہ كے ذریعہ تازگی حاصل كر سكتے ھیں، اس كے علاوہ اپنی فكری صلاحیتوں میں اضافہ بھی كر سكتے ھیں اور اس طرح اپنی دینی اور مذھبی معلومات میں بھی اضافہ كر سكتے ھیں ۔

سفر

مفید اور لذت بخش تفریحوں میں ایك تفریح سفر بھی ھے جو روح اور جسم كی صحت و سلامتی كے لئے بھت موثر ھے ۔ اس مفید اور نتیجہ خیز تفریح كی طرف اسلام نے مسلمانوں كو دعوت دی ھے اور اس كا شوق دلایا ھے ۔ البتہ یہ بات ذھن میں رھے كہ اسلام نے ھر طرح كے سیر و سفر كی اجازت نھیں دی ھے بلكہ اس سیر و سفر كو قبول كیا ھے جو انسانی مقاصد كے تحت ھواور فرد یا سماج كو اس سے فائدہ پھونچتا ھو ۔

پیغمبر اسلام(ص) نے ارشاد فرمایا:

”سفر كرو تاكہ صحت مند اور تندرست رھو “ ۔ 7

قرآن كریم نے تقریباً دس آیتوں میں سیر و سفر كی دعوت دی ھے تاكہ انسان گذشتہ قوموں كے حالات سے واقف ھو ان كے انحطاط اور انحراف كے اسباب پر غور كرے تاكہ وہ ایك بیدار دل اور حقیقت پسندروح كے ساتہ زندگی بسر كر سكے ۔

قرآن كا فرمان ھے:

”لوگ كیوں سیر و سفر پر نھیں نكلتے تاكہ وہ حقائق ھستی كو سمجھیں اور ادراك كریں“۔ 8

یعنی سیر و سفر بیداری كا ذریعہ ، روحی و معنوی تقویت كا سبب اور نصیحت آمیز و عبرت انگیز ھو ۔

وہ لوگ جو تھكاوٹ دور كرنے اور نئی طاقت حاصل كرنے كے لئے سفر كرتے ھیں انھیں لذت بخش تفریح كا بھی لطف آتا ھے اور ان كی صحت و تندرستی بھی بر قرار رھتی ھے كیونكہ ” آج كی طب میں یہ بات ثابت ھو چكی ھے كہ ایك طرح كا كام اورایك طرح كی غذا انسانی زندگی كے لئے نقصان دہ ھے اس سے اعضاء ِجلد فرسودہ اور كمزور ھو جاتے ھیں ۔ لھذا تغیر اور تبدل انسانی صحت كے لئے ضروری ھے اس طرح كے پروگرام كو زندگی كا جزء ھونا چاھئے ۔ 9

لیكن وہ سفر جو ھوا و ھوس اور عیش و عشرت كےلئے ھو وہ دل و دماغ كی بیداری كے بجائے اعصاب كی تھكن اورجسمانی و فكری جمود كا سبب بنتا ھے۔ اس طرح كے سفر كو مفید تفریح نھیں كھا جا سكتا۔ اسلام نے اس طرح كی تفریحوں سے سختی سے منع كیا ھے ۔

كھیل

كھیل بھی ایك مفید تفریح ھے اور سفر كی طرح تر و تازگی كا سبب بنتاھے ۔ صحت و تندرستی میں كافی موثر ھے ۔ چونكہ اس سے بدن تندرست رھتا ھے لھذا روح كی سلامتی كے لئے بھی معین و مددگار ھے ۔ظاھر ھے كہ انسان كی سعادت اس كے جسم اور روح كی سلامتی سے براہ راست متعلق ھے ۔ كھیل كی اھمیت اس بنا پر ھے كہ اس سے جسم صحیح و سالم رھتا ھے اور روح كی ارادی قوت میں اضافہ ھوتا ھے ۔

یہ بات واضح ھے كہ میدان جنگ میں وھی جوان مردانہ ھمتوں كے ساتہ ثابت قدم رہ سكتا ھے جس كے ایمان كے ساتہ ساتہ اس كا جسم بھی طاقتور ھو ۔ ضعیف اور كمزور افراد نہ صرف میدان جنگ میں ثابت قدم نھیں رہ سكتے بلكہ وہ زندگی كے میدان میں بھی شكست كھا جاتے ھیں، البتہ انسان كوایسے كھیلوں میں مصروف ھونا چاھئے جھاں اخلاقی اور انسانی اقدار مجروح نہ ھوتے ھوں ۔

تیر اندازی

دشمنوں سے مقابلے اور قرآن و انسانیت كے دفاع كے لئے تیر اندازی كی خاص اھمیت ھے اس آیت (دشمنوں كے مقابلے كے لئے جو كچہ قوت فراھم كر سكتے ھو فراھم كرو) كے ذیل میں حضرت پیغمبر اسلام (ص) نے تیر اندازی كو ان چیزوں میں شمار كیا ھے ۔ 10

حضرت امام جعفر صادق عليه السلام خود بنفس نفیس تیر اندازی كے مقابلے میں شركت فرماتے تھے ۔ 11

حضرت امام محمد باقر عليه السلام نے ” ھشام بن عبد الملك سے فرمایا: میں جوانی میں تیر اندازی كرتا تھا، جوانی كے بعد اس كو ترك كر دیا “ ۔ 12

گھوڑسواری

اسلام نے گھوڑ سواری كو بھی اھمیت دی ھے ،پیغمبر اسلام (ص) خود گھوڑ سواری كے مقابلے میں شركت فرماتے تھے اور مسلمانوں كو اس ورزش كا شوق دلاتے تھے اور سبقت لیجانے والوں كوانعام بھی دیتے تھے ۔ 13

ایك مرتبہ دشمنوں نے مدینہ میں مسلمانوں كے مال پر حملہ كیا ۔ پیغمبر اسلام (ص) چند اصحاب كے ھمراہ گھوڑوں پر سوار ھوئے اور دشمنوں كا تعاقب كیا لیكن دشمنوں تك نہ پھونچ سكے ۔ ابو قتادہ نے پیغمبر اسلام (ص) كی خدمت میں عرض كیا: اب جبكہ دشمن فرار ھو چكا ھے كیوں نہ ھم آپس میں ایك دوسرے سے مقابلہ كریں۔ پیغمبر اسلام(ص) نے بھی شركت كی اور سب سے آگے نكل گئے ۔ 14

تیراكی

تیرنا ایك عمدہ اور مفید تفریح ھے اور اعضاء كی تقویت میں كافی موثر ھے ۔

پیغمبر اسلام (ص) نے ارشاد فرمایا:

” اپنے فرزندوں كو تیرنا اور تیر اندازی سكھاؤ “ ۔ 15

جس وقت دریا عبور كرنا ھویا كسی ڈوبتے ھوئے كو نجات دینا ھو یاجنگ اور اس طرح كے دوسرے خطرناك مواقع پر تیراكی خاص اھمیت كی حامل ھے اور اس سے بڑے فوائد حاصل ھو سكتے ھیں ۔

یاد دھانی

والدین اور بچوں كے سر پرستوں كو اس امر كی طرف خاص توجہ دینا چاھئے كہ انكی اولاد ناجائز تفریحوں میں ملوث نہ ھونے پائے ۔ تفریح كے لئے ایسی جگھوں پر جائیں جو ان كے اخلاق اور تربیت كے لئے مفید ھوں ۔

حضرت رسول خدا (ص) نے ارشاد فرمایا:

” خدا ان والدین پر رحمت كرے جو نیكی اور اخلاق میں اپنے بچوں كی مدد كرتے ھیں “ ۔ 16

اگر تفریح كے لئے معقول اور مناسب مراكز موجود نہ ھوں تو والدین كو چاھئے كہ اپنے امكان بھر گھر ھی میں معقول اور مفید تفریح كے وسائل فراھم كریں تاكہ ان كے بچے فساد اور بر بادیوں میں ملوث نہ ھونے پائیں ۔

كتنا مناسب ھے كہ نیكو كار اور مخیر افراد اپنے جوانوں كے لئے تفریح كے معقول اور مناسب مراكز ایجاد كریں جو ان كی فطری ضرورتوں كو پورا كرنے كے ساتہ ساتہ انھیں اخلاق اور انسانی اقدار كی بھی تعلیم دے تاكہ وہ صحیح بنیادوں پر اپنی زندگی تعمیر كر سكیں ۔انھیں نیكیوں كی تعلیم دی جائے تاكہ وہ ھر طرح كے فساد اور گمراھی سے محفوظ رہ سكیں اور تفریح كے بھانے ان كے اخلاقیات برباد نہ ھونے پائیں ۔

حاشیہ جات

1. بحار، طبع جدید ج۷۸، ص ۳۴۶

2. نھج البلاغہ، كلمات قصار ۳۸۲

3. غرر الحكم، ص۳۵۴

4. غرر الحكم، ص ۲۱۸

5. رشد و زندگی، ص ۲۷۲

6. كافی، ج ۱، ص ۴۸

7. مستدرك الوسائل، ص ۲۲

8. سورہ حج، ۴۶

9. مجلھٴ تندرست شمارہ ۶ ص ۲۲

10. سورہ انفال، ۶۰ ؛ وسائل، ج۱۳ ص ۳۴۸

11. وسائل الشيعة، ج ۱۳، ص ۳۴۸

12. مستدرك الوسائل ج۲ ، ص ۵۱۶

13. وسائل الشيعة، ج ۱۳، ص ۳۵۱

14. وسائل الشيعة، ج۱۳، ص۳۴۶

15. وسائل الشيعة، ج ۱۵، ص ۱۹۴

16. وسائل الشيعة، ج ۱۵، ص ۱۹۹ 

تبصرے
Loading...