منافقين كي اجتماعي و معاشرتي خصائص

1) اھل ايمان و اصلاح ھونے كي تشھير

منافقين ھميشہ سماج اور معاشرہ ميں ظاھراً ايمان اور اصلاح كا نعرہ بلند كرتے ھوئے قد علم كرتے ھيں، دين اور اسلامي نظام سے و معركہ آرائي كي صريح گفتگو نھيں كرتے اسي طرح منافقين كبھي بھي فساد كا دعويٰ نھيں كرتے بلكہ شدت سے انكار كرتے ھوئے، بلكہ خود كو اصلاح كي دعوت دينے والا اور دينداري كا علمبردار پيش كرتے ھيں۔

اس سے قبل منافقين كي فردي رفتار كي خصوصيت كے ذيل ميں بعض آيات جو منافقين كے كردار كي عكاسي كرتي ھيں، پيش كي گئي ھيں، جس ميں عرض كيا گيا كہ منافقين اس طرح خوبصورت اور دلچسپ انداز ميں گفتگو كرتے ھيں كہ پيامبر اكرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كے لئے بھي تعجب خيز ھوتا ھے، پيامبر اسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم بعض منافقين كو پہچانتے بھي تھے، ليكن اس كے باوجود ديكھتے تھے كہ وہ اچھائي اور بھتري كا نعرہ لگاتے ھيں، دل موہ لينے والي گفتگو كرتے ھيں، ان كي گفتگو ميں خير و صلاح كي نمائش بھي ھوتي ھے، منافقين كي يہ فردي خصوصيات ان كي اجتماعى رفتار ميں بھي مشاھدہ كي جاسكتي ھے۔

(ويقولون آمنّا باللہ و بالرسول و اطعنا ثم يتولّيٰ فريق منھم من بعد ذلك وما اولئك بالمومنين) ۱

اور يہ لوگ كھتے ھيں كہ ھم اللہ اور رسول پر ايمان لے آئے اور ھم نے ان كي اطاعت كي اور اس كے بعد ان ميں سے ايك فريق منھ پھير ليتا ھے اور يہ واقعاً صاحبان ايمان نھيں ھيں۔

مسجد ضرار كي سازش ميں منافقين كا نعرہ مريض، بيمار افراد كي مساعدت اور ايك مقدس ھدف كا اظھار تھا، قرآن صريحي اعلان كررھا ھے كہ ان لوگوں نے مسجد، اسلام و مسلمانوں كو ضرر اور نقصان پھونچانے اور كفر كي تقويت دينے كے لئے بنائي تھى، مسجد كا ھدف صاحبان ايمان كے مابين تفرقہ و اختلاف كي ايجاد اور دشمنان اسلام كے لئے سازشي مركز تيار كرنا تھا حالانكہ وہ قسم كھاتے تھے كہ ھمارا ارادہ خدمت خلق اور نيكي كے علاوہ كچھ بھي نھيں ھے۔

(وليحلفن ان اراد الّا الحسني) ۲

اور يہ قسم كھاتے ھيں كے ھم نے صرف نيكي كے لئے مسجد بنائي ھے۔

ايك دوسرے مقام پر قرآن منافقين كو اس طرح بيان كررھا ھے كہ منافقين پيامبر اكرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كے حضور ميں ان كے دستور و آئين كي فرماں فرداري اور مطيع محض ھونے كا اظھار كرتے ھيں ليكن جب خصوصي جلسہ تشكيل ديتے ھيں تو پيامبر اسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كے خلاف سازش كا پروگرام بناتے ھيں۳

ظواھر كا آراستہ ھونا اور اچھے اچھے نعرے لگانا، منافقين كے دونوں گروہ، يعني منافق خوف، اور منافق طمع، كي اجتماعى خصوصيات ميں سے ھے، منافقين، اسلامي و ايماني معاشرے ميں پليد افعال انجام دينے كے لئے ايمان كے نعرے بلند كرتے ھيں اور دين داري و اصلاح طلبي كا اظھار كرتے ھيں۔

2) معروف كي نھي و منكر كا حكم

منافقين كي دوسري اجتماعى خصوصيت معروف كي نھي اور منكر كا حكم دينا ھے كلمہ (معروف و منكر) وسيع مفھوم كے حامل ھيں، تمام فردى، اجتماعى، سياسى، نظامي ثقافتي اور معاشرتي اقدار و ضد اقدار كو شامل ھوتے ھيں جماعت نفاق كا نشانہ اور ھدف انواع منكرات كي اشاعت اور اسلامي اقدار و شائستگي كو محو كرنا ھے، لھذا اپنے منافقانہ كردار و رفتار كے ذريعہ شوم مقاصد كو حاصل كرنا چاھتے ھيں۔

(المنافقون والمنافقات بعضھم من بعض يامرون باالمنكر وينھون عن المعروف) ۴

منافق مرد اور منافق عورتيں آپس ميں سب ايك دوسرے سے مربوط ھيں سب برائيوں كا حكم ديتے ھيں اور نيكيوں سے روكتے ھيں۔

مذكورہ آيت ميں جيسا كہ اس كے شان نزول سے استفادہ ھوتا ھے منكر كا مصداق سياسى اقدار كي خلاف ورزي ھے، منافقين افراد كو پيامبر اسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كي ھمراھي نہ كرنے كي دعوت ديتے تھے جو اسلامي نظام كي علامت اور باني تھے، صاحبان ايمان حضرات كو ولايت كے فرامين سے عدول اور نافرماني كي ترغيب دلاتے تھے، ظاھرا ھے كہ اس منكر سياسى كا خطرہ، فردي منكرات سے كھيں زيادہ ھے۔

ليكن كبھي خطا سرزد ھوجاتي ھے اور معروف كي جگہ منكر اور منكر كي جگہ معروف انجام ھوجاتا ھے قصد تخريب نھيں ھوتا ھے، لھذا اس قسم كے موراد قابل گذشت ھيں ليكن اس كے مقابل بعض افراد معروف كي شناخت ركھتے ھوئے اس كے برخلاف دعوت عمل دينے كے پابند ھيں منكر سے آگاہ ھوتے ھوئے بھي لوگوں كو اس كے انجام كے لئے ورغلاتے ھيں۔

ابو حنيفہ كي يہ كوشش رھتي تھي كہ وہ بعض موارد ميں حضرت امام صادق عليہ السلام كے خلاف فتويٰ دے، چنانچہ وہ سجدے كے مسئلہ ميں حضرت امام صادق عليہ السلام كے فتوے كو نھيں جانتا تھا كہ اس حالت ميں آپ كا فتويٰ آنكھ بند كرنے كا ھے يا كھلي ركھنے كا لھذا اس نے فتويٰ ديا كہ ايك آنكھ كھلي اور ايك بند ركھي جائے تاكہ ھر حال ميں حضرت امام صادق عليہ السلام كے فتوے كي مخالفت ھوسكے۔

منافقين، اسلامي معاشرے ميں معروف و منكر كي عميق شناخت ركھتے ھوئے منكر كا حكم اور معروف سے نھي كرتے تھے ليكن انتھائي زير كي اور فريب كاري كے ساتھ كہ كھيں ان كے راز فاش نہ ھوجائيں اور ان كے حربے ناكام ھوجائيں۔

3) بخل صفت ھونا

منافقين كي اجتماعى رفتاركي دوسري خصوصيت بخيل ھونا ھے وہ سماج و معاشرے كي تعمير اور اصلاح كے لئے مال صرف كرنے سے گريز كرتے ھيں۔

(يقبضون ايديھم) ۵

اور (منافقين وہ لوگ ھيں جو) اپنے ھاتھوں كو (نفاق و بخشش سے) روكے رھتے ھيں۔

سورہ احزاب ميں بھي منافقين كي توصيف كرتے ھوئے ان كي اس معاشرتي فكر كي طرف اشارہ كيا گيا ھے۔

(اشحۃ عليكم) ۶

وہ (منافقين) تمام چيزوں ميں، تمھارے حق ميں بخيل ھيں۔

منافقين نہ صرف يہ كہ خود بخيل، كوتاہ دست، نيز محرومين و فقراء كي مدد و مساعدت نھيں كرتے بلكہ دوسروں كو بھي اس صفت كا عادي بنانا چاھتے ھيں اور انفاق كرنے سے روكتے ھيں۔

(ھم الذين يقولون لا تنفقوا علي من عند رسول اللہ حتي ينفضّوا وللہ خزائن السماوات والارض ولكن المنافقين لا يفقھون) ۷

يھي وہ لوگ ھيں جو كھتے ھيں كہ رسول اللہ كے ساتھيوں پر كچھ خرچ نہ كرو تاكہ يہ لوگ منتشر ھوجائيں حالانكہ آسمان و زمين كے سارے خزانے اللہ ھي كے ھيں اور يہ منافقين اس بات كو نھيں سمجھ رھے ھيں۔

مذكورہ آيت كي شان نزول كے بارے ميں كھا جاتا ھے كہ غزوہ بني المصطلق كے بعد مسلمانوں كے دو فرد كا كنويں سے پاني لينے كے سلسلہ ميں جھگڑا ھوگيا ان ميں ايك انصار اور دوسرا مھاجرين كے گروہ سے تعلق ركھتے تھے دونوں نے اپنے اپنے گروھوں كو مدد كے لئے آوازدى، عبداللہ ابن ابي جو منافقين كے اركان ميں سے تھا، گروہ انصار كي طرف داري كرتے ھوئے ميدان ميں اتر آيا دونوں گروہ ميں لفظي جنگ شروع ھوگئي۔

عبد اللہ ابن ابي نے كھا: ھم نے مھاجرين جماعت كو پناہ دى، اور ان كي مدد كي ليكن ھماري مدد و مساعدت اس معروف مثل كے مانند ھوگئي جس ميں كھا جاتا ھے “ثمن كلبك يأكلك” اپنے كتے كو كھلا پلا كر فربہ كرو تاكہ وہ تم كو كھا جائے يہ ھم انصار كي مدد و نصرت كا نتيجہ ھے جو ھم نے مھاجرين ھمارے ساتھ كررھے ھيں ھم نے اس گروہ (مھاجر) كو اپنے شھر ميں جگہ دي اپنے اموال كو ان كے درميان تقسيم كئے، اگر اپني باقي ماندہ غذا كو ان مھاجرين كو نہ ديتے تو آج ھم انصار كي يہ نوبت نہ آتي كہ مھاجر ھماري گردنوں پر سوار ھوتے بلكہ ھماري مدد نہ كرنے كي صورت ميں اس شھر سے چلے جاتے اور اپنے قبائل سے ملحق ھوجاتے۔

قرآن عبداللہ ابن ابي كي توھين آميز گفتگو اور اس كي تاكيد كہ انصار مھاجرين كي مدد كرنا ترك كرديں، كا ذكر كرتے ھوئے اضافہ كررھا ھے كہ آسمان و زمين كے خزائن خدا كے ھاتھوں ميں ھے منافقين كے بخل كرنے اور انفاق سے ھاتھ روك لينے سے، كچھ بدلنے والا نھيں ھے۔

4) صاحبان ايمان كي عيب جوئي اور استھزا

منافقين كي اجتماعى خصائص ميں سے ايك خصوصيت صاحب ايمان كا استھزا، عيب جوئي اور تمسخر ھے، منافقين سے ايسے افعال كا صدور ان كي ناسالم طبيعت اور روحاني مريض ھونے كي غمازي كررھا ھے، تمسخر اور عيب جوئي ايك قسم كا ظلم شخصيت پر دست درازي اور انساني حيثيت كي بے حرمتي ھے، حالانكہ انسان كے لئے اس كي شخصيت و حرمت اور آبرو ھرشي سے عزيز تر ھوتي ھے۔

اشخاص كي تمسخر و عيب جوئي كے ذريعہ رسوائي اور بے حرمتي كرنا، فرد مقابل كے مريض، كينہ پرستي سے لبريز قلب اور پست فطرتي كي علامت ھے، منافقين بھي اس مرض ميں مبتلا ھيں۔

(واذا لقوا الذين آمنوا قالوا آمنا واذا خلوا الي شياطينھم قالوا انا معكم انما نحن مستھزون) ۸

جب صاحبان ايمان سے ملتے ھيں تو كھتے ھيں كہ ھم اھل ايمان ھيں، اور جب اپنے شياطين كے ساتھ خلوت اختيار كرتے ھيں تو كھتے ھيں كہ ھم تمھارے ساتھ ھيں، ھم تو صرف صاحبان ايمان كا مذاق اڑاتے ھيں۔

منافقين جنگوں ميں ھر زاويہ سے مومنين پر اعتراض كرتے تھے جو جنگ ميں زيادہ حصہ ليتے تھے اور اچھي كاركردگي كا مظاھرہ كرتے تھے ان كو ريا كاري كا عنوان ديديتے تھے اور جن كي بضاعت كم تھي اور مختصر مساعدت كرتے تھے، تو ان كا استھزا كرتے ھوئے كھتے تھے لشكر اسلام كو اس كي كيا ضرورت ھے؟!

نقل كيا جاتا ھے ابو عقيل انصاري نے شب و روز كام كركے دومن خرمے حاصل كئے ايك من اپنے اھل و عيال كے لئے ركھے اور ايك من پيامبر اسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كي خدمت ميں پيش كيا، منافقين ابو عقيل انصاري كے اس عمل پر تمسخر و استھزا ميں مشغول ھوگئے، اس وقت ذيل كي آيت كا نزول ھوا۔

(الذين يلمزون المطوعين من المؤمنين في الصدقات والذين لا يجدون الا جھدھم فيسخرون منھم سخر اللہ منھم ولھم عذاب اليم) ۹

جو لوگ صدقات ميں فراخ دلي سے حصہ لينے والے مومنين اور ان غريبوں پر جن كے پاس ان كي محنت كے علاوہ كچھ نھيں ھے الزام لگاتے ھيں اور پھر ان كا مذاق اڑاتے ھيں خدا ان كا بھي مذاق بنادے گا اور اس كے پاس بڑا درد ناك عذاب ھے۔

آيت فوق سے استفادہ ھوتا ھے كہ منافقين ايك گروہ كي عيب جوئي كرتے تھے اور ايك گروہ كا استھزا و مسخرہ كرتے تھے ان كا استھزا ان افراد كے لئے تھا جو لشكر اسلام كے لئے مختصر اور ناچيز مساعدت كرتے تھے اور عيب جوئي ان اشخاص كے لئے تھي جو وافر مقدار ميں نصرت و مدد كرتے تھے پہلي قسم كے افراد كو استھزا كرتے ھوئے بے مقدار و ناچيز مدد كرنے والے القاب سے نوازتے تھے اور دوسري قسم كے اشخاص كو ريا كار سے تعارف كراتے تھے۔

5) تضحيك و خندہ زنى

منافقين كي ايك دوسري اجتماعى رفتار كي خصوصيت تضحيك اور خندہ زني ھے يعني جب بھي صاحب ايمان سختي و عسرت ميں ھوتے تھے تو منافقين خوشحال ھوتے اور ھنستے تھے اور مومنين كي سرزنش كيا كرتے تھے ليكن جب صاحبان ايمان كو آرام اور آسائش ميں ديكھتے تھے تو ناراض اور غمزدہ ھوتے تھے، قرآن مجيد چند آيات كے ذريعہ منافقين كي اس كيفيت كو بيان كر رھا ھے۔

(ان تمسسكم حسنۃ تسؤھم وان تصبكم سيئۃ يفرحوا بھا) ۱۰

تمھيں ذرا بھي نيكي پہنچتي ھے تو وہ ناراض ھوتے ھيں اور تمھيں تكليف پھنچتي ھے تو وہ خوش ھوتے ھيں۔

(وان اصابتكم مصيبۃ قال قد انعم اللہ علي اذالم اكن معھم شھيداً) ۱۱

اور اگر تم پر كوئي مصيبت آگئي تو كھيں گے خدا نے ھم پر احسان كيا كہ ھم ان كے ساتھ حاضر نھيں تھے۔

(ان تصبك حسنۃ تسؤھم وان تصبك مصيبۃ يقولوا قد اخذنا امرنا من قبل ويتولوا وھم فرحون) ۱۲

ان كا حال يہ ھے كہ جب آپ تك نيكي آتي ھے تو انھين بري لگتي اور جب كوئي مصيبت آجاتي ھے تو كھتے ھيں كہ ھم نے اپنا كام پھلے ھي ٹھيك كرليا تھا اور خوش و خرم واپس چلے جاتے ھيں۔

منافقين عداوت و دشمني كي بنا پر جو مسلمانوں كے لئے ركھتے ھيں ان كي خوش حالي اور آسائش كو ديكھنا پسند نہيں كرتے ھيں ليكن جب صاحب ايمان مصيبت يا جنگ ميں گرفتار ھوتے ھيں تو بھت شادمان اور خوش نظر آتے ھيں۔

جب مسلمان سختي و عسرت ميں ھوتے ھيں تو ان كي سرزنش كرتے ھيں اور اپنے موقف كو ان سے جدا كر ليتے ھے، اور شكر خدا بھي كرتے ھيں كہ ھم مومنين كے ساتھ (گرفتار) نھيں ھوئے۔

6) كينہ توزى

منافقين، مومنين و اسلامي نظام كي نسبت شديد عداوت و كينہ ركھتے ھيں، كينہ و عداوت كے شعلے ھميشہ ان كے دل و قلب ميں افروختہ ھيں جو كچھ بھي دل ميں ھوتا ھے وہ ان كي زبان و عمل سے ظاھر ھو ھي جاتا ھے خواہ وہ اظھار خفيف ھي كيوں نہ ھو۔

امير المومنين حضرت امام علي عليہ السلام اپني گران قدر گفتگو ميں صراحت كے ساتھ اس باريكي كو انسانوں كے لئے بيان فرماتے ھيں۔

((ما اضمر احد شيئا الا ظھر في قلتات لسانہ و صفحات وجھہ)) ۱۳

انسان جس بات كو دل ميں چھپانا چاھتا ھے وہ اس كي زبان كے بے ساختہ كلمات اور چھرہ كے آثار سے نماياں ھوجاتي ھے۔

مذكورہ كلام كي بنياد پر منافقين جو شديد كينہ و عداوت صاحب ايمان سے ركھتے ھيں اس كا مختصر حصہ ھي منافقين كي رفتار و گفتار ميں جلوہ گر ھوتا ھے۔

قرآن مجيد نے اس باريك مطلب كي طرف اشارہ كرتے ھوئے وضاحت كي ھے كہ منافقين نے اپنے دلوں ميں جو مخفي كر ركھا ھے وہ اس سے كھيں زيادہ ھے جو ان كي رفتار و گفتار ميں ديكھا جاتا ھے۔

(قد بدت البغضاء من افواھھم وما تخفي صدورھم اكبر) ۱۴

ان كي عداوت زبان سے بھي ظاھر ھے اور جو دل ميں چھپا ركھا ھے وہ تو اس سے بھي زيادہ ھے۔

لھذا منافقين كي رفتار و گفتار كے ظواھر سے اسلامي نظام اور صاحبان ايمان سے عداوت و كينہ كے كچھ بخش و حصہ كي شناخت كي جاسكتي ھے اور يہ آگاھي و شناخت مقدمہ ھے كہ ان سے مبارزہ كيا جاسكے اور اس نوعيت كے دشمنوں كو اسلامي معاشرے سے جدا اور اخراج كيا جاسكے۔

حوالہ جات

۱۔ سورہ نور/47۔

۲۔سورہ توبہ/107۔

۳۔سورہ نساء/ 81۔

۴۔سورہ توبہ/67۔

۵۔سورہ توبہ /67۔

۶۔ سورہ احزاب 19، اشحۃ، شيح كي جمع ھے اس كے معني شديد بخل حرص كے ساتھ، كرنا ھے۔

۷۔سورہ منافقون/7۔

۸۔سورہ بقرہ/14۔

۹۔سورہ توبہ/79۔

۱۰۔سورہ آل عمران/120۔

۱۱۔سورہ نساء/72۔

۱۲۔سورہ توبہ/50۔

۱۳۔نھج البلاغہ، حكمت26۔

۱۴۔سورہ آل عمران/118۔

تبصرے
Loading...