توحید کا مفہوم

خلاصہ: اس مضمون میں توحید کا لغوی اور اصطلاحی مفہوم بیان ہوا ہے، اور اس کے بعد توحید کے بارے میں چند نکات پیش کیے گئے ہیں۔

توحید کا مفہوم

بسم اللہ الرحمن الرحیم

لغوی لحاظ سے: توحید “وحد” سے ماخوذ ہے جو ایک ہونے کی نشاندہی کرتا ہے، اور عربی زبان میں کم سے کم دو معانی میں استعمال ہوتا ہے:
۱۔ وحدت ایجاد کرنا (ایک کرنا): جیسے تکثیر جو کثرت ایجاد کرنے اور متعدد کرنے کے معنی میں ہے۔
۲۔ واحد سمجھنا (ایک سمجھنا): جیسے تعظیم اور تنزیہ جو عظیم سمجھنے اور منزہ سمجھنے کے معنی میں ہیں۔
یہ دو معانی صیغہ تفعیل کی خصوصیات میں سے ہیں جو کبھی متعدی کرنے کے لئے اور کبھی نسبت کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔
اصطلاحی لحاظ سے: توحید اسلام کے اعتقادی اصول میں سے سب سے بڑا بنیادی اصل ہے۔ دینی تعلیمات میں، مسلمانوں میں اور علماء کے عرف میں “اللہ کی وحدانیت” پر عقیدہ رکھنے کے معنی میں ہے۔
بعض گمراہ گروہوں نے اسلامی معارف میں اصطلاحی توحید کو “معاشرے میں وحدت ایجاد کرنے” کے معنی میں لیا ہے، جبکہ یہ باطل اور غلط نظریہ ہے اور ان کے پاس اسلامی مآخذ میں سے اس نظریہ پر کوئی دلیل نہیں ہے۔
اسلامی مآخذ میں توحید اسلامی اصول میں سے ایک ہے جو اللہ کو “ایک سمجھنے” کے معنی میں ہے، نہ کہ ہر چیز میں وحدت ایجاد کرنا یا کسی خاص کام میں وحدت پیدا کرنا، جیسے معاشرے میں وحدت ایجاد کرنا اور معاشرتی طبقات کو ختم کرنا، توحید سے یہ معانی مقصود نہیں ہیں۔
قرآن کریم میں “لاالہ الّا اللہ” کا جملہ جو توحید کا شعار ہے اور نیز “لاالہ الّا ھو” کا جملہ جو توحید کے معنی میں ہے، مختلف آیات میں ذکر ہوا ہے۔
توحید اور اس کے مشتق الفاظ، نہج البلاغہ میں حضرت امیرالمومنین علی (علیہ السلام) کے بیانات میں ملتے ہیں۔
پہلے خطبہ میں: “كمال التصديق به توحيده وكمال توحيده الاخلاص له”، تصدیق کا کمال توحید کا اقرار ہے اور توحید کا کمال اخلاص عقیدہ ہے۔
حکمت 470 میں: “التوحيد الاّ تتوهمه”، “توحید یہ ہے کہ اس کی وہمی تصویر نہ بناؤ”۔
۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[ماخوذ از: خدا‌شناسي (مجموعه کتب آموزشي معارف قرآن 1)، آیت اللہ مصباح یزدی]
[ترجمہ نہج البلاغہ علامہ ذیشان حیدر جوادی اعلی اللہ مقامہ سے، پہلے خطبہ کے فقرہ کا ترجمہ بعینہ نقل کیا گیا ہے اور حکمت میں کچھ حد تک استفادہ کیا گیا ہے]

تبصرے
Loading...