بادلوں میں چھپا سورج

بسم اللہ الرحمن الرحیم

علامہ  مجلسی(رہ) اپنی معروف کتاب “بحار الانوار الجامعة  لدُرر اخبار الائمة الاطهار” میں جناب جابر کے ذریعہ، رسول اکرم (صلی اللہ  علیہ و آلہ وسلم) سے ایک روایت نقل کرتے ہیں :

عَنْ جَابِرٍ الْأَنْصَارِيِ‏ أَنَّهُ سَأَلَ النَّبِيَّ (ص) هَلْ يَنْتَفِعُ الشِّيعَةُ بِالْقَائِمِ (ع) فِي غَيْبَتِهِ فَقَالَ (ص) إِي وَ الَّذِي بَعَثَنِي بِالنُّبُوَّةِ إِنَّهُمْ لَيَنْتَفِعُونَ بِهِ وَ يَسْتَضِيئُونَ بِنُورِ وَلَايَتِهِ فِي غَيْبَتِهِ كَانْتِفَاعِ النَّاسِ بِالشَّمْسِ وَ إِنْ جَلَّلَهَا السَّحَابُ.
جابر  الانصاری سے نقل ہوا ہے کہ انہوں نے نبی اکرم (صلی اللہ  علیہ و آلہ وسلم) سے سوال کیا : کیا شیعہ (امام) قائم (عج) سے انکی غیبت کے دوران فائدہ حاصل کرسکیں گے؟ آنحضرت(صلی اللہ  علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا: اْس ذات کی قسم کی جسنے مجھے مبعوث کیا ،ہاں شیعہ ان(قائم) سے فائدہ حاصل کریں گے اور انکی  غیبت میں  انکی ولایت کے نور سے منّور  ہوں گے،جس طرح سے لوگ  بادل کے پیچھے چھپے ہوئے  سورج سے فائدہ حاصل کرتے ہیں۔(۱)
اسی طرح کی کئی اور روایات ہیں کہ جس میں ائمہ (علیہ السلام) سے یہی سوال ہوا اور انہوں  نے اسی تشبیہ کے ساتھ جواب دیا (۲)حتی کہ جب خود  امام زمانہ (عج) سے سوال ہوا تو آپ نے خود کو اس سورج سے تشبیہ دی جو بادلوں کے پیچھے چھپا ہوتا ہے۔

علامہ مجلسی(رہ) فرماتے ہیں کہ امام  زمانہ (عج)سے اس طرح کی تشبیہ دینے کی چند وجہیں ہیں(۳)،ان وجوہات کو مختصرطور پر قارئین کی  خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے:

پہلی وجہ: یہ کہ وجود کا نور،علم و ھدایت سب حجت  خدا  کے ذریعہ مخلوقات خدا تک پہنچتے ہیں،کیونکہ  روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ان  ذوات مقدسہ (علیہم السلام) کی برکت سے اس عالم کو وجود عطا ہوا ہے اور اگر یہ  انوار مقدسہ (علیہم السلام) نہ ہوتے تو  لوگوں تک علوم اور معارف نہ پہنچتے۔ اگر یہ (ع) نہ ہوتے تو لوگ اپنے گناہوں کے باعث طرح طرح کی پریشانیوں اور عذاب  میں مبتلا رہتے۔ جیسا کہ خداوند عالم نے اپنے حبیب سے فرمایا [وَ ما كانَ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَ أَنْتَ فِيهِمْ] ’’اللہ ان پر عذاب نازل نہیں کرے گا  جب تک آپ انکے درمیان  ہیں‘‘ (۴)

دوسری وجہ: جس  طرح سے  بادلوں کے پیچھے چھپے ہوئے سورج سے لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں اور ہر آن منتظر رہتے ہیں کہ کب بادل ہٹیں اور سورج نظر آئے تاکہ زیادہ سے زیاد ہ فائدہ اٹھایا جا سکے، اسی طرح سے شیعہ دورانِ غیبت ہر وقت منتظر رہتے ہیں کہ کب غیبت ختم ہو اور امام (عج) کا ظہور ہو اور وہ  کبھی مایوس نہیں ہوتے۔

تیسری وجہ: اتنے زیادہ  آثار اور علامات کے باوجود،وہ لوگ جو آنحضرت کے وجودِ با برکت کا انکار کرتے ہیں ، وہ انکی مانند  ہیں کہ جو سورج  کے چھپ جانے پر اسکا    انکار کرتے ہیں۔

چوتھی  وجہ:بعض اوقات  سورج کا بادلوں کے پیچھے چلا جانا، لوگوں کے لئیے فائدہ مند ہوتا ہے  اور اس میں  کوئی نہ کوئی مصلحت ہوتی ہے اسی طرح امام زمانہ (عج) کی غیبت کے دوران حضرت (عج) کا ہماری نظروں سے غائب رہنا ،اس میں بھی لوگوں کے لئیے کچھ فائدے اور مصلحت ہے۔

پانچویں وجہ:لوگ اس بات کی طاقت نہیں رکھتے کہ سورج کو براہ راست  دیکھ سکیں اور اگر کوشش کریں تو ہوسکتا ہے انکی آنکھیں چوندھیا جائیں یا اندھے ہو جائیں لیکن یہ ممکن ہے کہ بادلوں کے پیچھے سے سورج کو دیکھا جائے اور نقصان نہ ہو۔اسی طرح اگر بٖغیر تیاری کے،وجودِ مقدس امامِ زمانہ(عج) کا دیدار ہو جائے تو ممکن ہے  لوگ گمراہ ہوجائیں اور امام (عج) کو نہ پہچان سکیں ،اور نقصان دہ ثابت ہو۔

چھٹی وجہ: جس طرح بادلوں کے پیچھے سے یکا یک سورج نمودار ہو جاتا ہے اور کچھ اس بات سے با خبر ہوتے ہیں اور کچھ غافل رہتے ہیں ،اسی طرح غیبت کے ایام میں امام عالی مقام (عج) بھی کچھ کو اپنے دیدار کرواتے ہیں اور کچھ انکو دیکھ کر بھی متوجہ نہیں ہوتے۔

ساتویں وجہ:اصولا  اہلبیت (علیہم السلام) بھی  فائدہ پہونچانے کے لحاظ سے سورج کی مانند ہیں ، بس جو دل کے اندھے ہیں انہیں اس بات کا ادراک نہیں ہوتا۔خدا بھی اسی بات کی طرف اشارہ فرما رہا ہے[مَنْ كانَ فِي هذِهِ أَعْمى‏ فَهُوَ فِي الْآخِرَةِ أَعْمى‏ وَ أَضَلُّ سَبِيلًا]’’ اور جو اسی دنیا میں اندھا ہے وہ قیامت میں بھی اندھا اور بھٹکا ہوا رہے گا ‘‘(۵)
سورج کا نور تو سب کے لئیے برابر ہے اگر کوئی خود کو سورج کے نور سے چھپالے تو یہ اسکی بد قسمتی اسی طرح اہلبیت (علیہم السلام) کی تعلیمات عام ہیں جو چاہے حاصل کرے۔

آٹھویں وجہ:جس طرح سے کھڑکیوں اور روشندانوں سے سورج کی شعائیں گھروںمیں داخل ہوتی ہیں اور  گھر میں جتنے کم موانع اور رکاوٹیں ہوں گی اتنی ہی زیادہ سورج کی روشنی آئے گی، اسی  طرح جو لوگ دنیا سے وابستگی،نفسانی خواہشات کے ذریعہ موانع ایجاد کرلیتے ہیں  ان کےاو پر اہلبیت (علیہم السلام) کی ہدایات کا اثر نہیں ہوتا اور  جتنا جتنا موانع کم کرتے ہیں اتنا اہلبیت (علیہم السلام) کی تعلیمات سے بہرہ مند ہوتے ہیں۔

ان  وجوہات کو بیان کرنے کے بعد علامہ (رہ) فرماتے ہیں کہ میں نے روحانی جنت کے یہ  آٹھ  دروازے آپ پر کھولے ہیں اور خداوند عالم کے فضل و کرم سے آٹھ اور در مجھ پر کھلے کہ جنکو بیان کیا تو بات طولانی ہو جائے گی۔امید کرتا ہوں کہ خداوند متعال ہمارے اور آپ کے لئے معرفت اہلبیت (علیہم السلام) کے  ہزار در کھولے اور ان ہزار دروں سے مزید ہزار در کھولے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ جات:

(۱)  بحار الأنوار (بيروت) ؛ ج‏52 ؛ ص93
(۲)کمال الدین و تمام النعمۃ  ۔ج۱۔ص ۲۰۷
(۳)بحار الانوار ۔ج۵۲۔ص۹۳،۹۴،۹۵
(۴)سوره انفال آيه 33
(۵)سورہ الاسراء آیۃ  72 (ذیشان حیدر جوادی)

 

تبصرے
Loading...