کل یوم عاشورا۔ کل ارض کربلا

ایک وہ قربانی جو حضرت ابراہیم نے اپنے بیٹے حضرت اسماعیل کی پیش کی لیکن پروردگار نے اس قربانی کو یوں قبول کیا کہ باپ نے جب بیٹے کے گلے پر چھری چلائی تو یہ بیٹا نہیں بلکہ اللہ کی طرف سے بھیجا ہوا دنبہ تھا اور دوسری قربانی نواسہ رسول اور انکے خانوادے اور اصحاب کی کہ کربلا کی تپتی ہوئی زمین پر جب باپ نے 18 سال کے جوان کا لاشہ خود اٹھایا.

بقلم: سید تصور حسین نقوی ایڈووکیٹ برطانیہ

روز عاشور جب خون تلوارپر غالب نظر آیا، جب کربلا کی تپتی زمین پر خانوادہء رسول نے اسلام کی حیات کے لئے اپنی زندگیوں کے چراغ ایسے گُل کیے کہ انکی روشنی ہر اندھیرے میں حق کی تلاش کرنے والوں کو آج بھی رستہ دکھاتی ہے۔ ھجری کیلنڈر کے حوالے سے اسلامی سال کا اختتام بھی قربانی کی یاد سے ہوتا ہے اور آغاز بھی قربانی کی یاد سے۔ ایک وہ قربانی جو حضرت ابراہیم نے اپنے بیٹے حضرت اسماعیل کی پیش کی لیکن پروردگار نے اس قربانی کو یوں قبول کیا کہ باپ نے جب بیٹے کے گلے پر چھری چلائی تو یہ بیٹا نہیں بلکہ اللہ کی طرف سے بھیجا ہوا دنبہ تھا اور دوسری قربانی نواسہ رسول اور انکے خانوادے اور اصحاب کی کہ کربلا کی تپتی ہوئی زمین پر جب باپ نے 18 سال کے جوان کا لاشہ خود اٹھایااور6ماہ کےمعصوم شیر خوار بیٹے کی قبر خود کھودی۔

غریب و سادہ و رنگیں ہے داستانِ حرم

نہایت اس کی حسین ابتدا ہے اسماعیل

یوں تو “کل یوم عاشورا۔ کل ارض کربلا” ہر روز عاشورا اور ہر زمین کربلا ہے۔ لیکن محرم ایک ایسا مہینہ ہے جس کا ذکر شروع ہوتے ہی مظلوم کی حمایت اور ظلم سے نفرت کرنے والے ہر باشعور انسان کے دل و دماغ پر محسن انسانیت سید الشہداءحضرت امام حسین  (ع) کی کربلا میں عظیم قربانی اور تاقیامت فتح و کامرانی نقش ہو جاتی ہے ۔امام علیہ السلام نے اپنے بے مثال مجاہدانہ کردار کے ذریعے دنیائے جبر میں ہر خطہِ زمین کو کربلا اور ہر دن کو یومِ عاشورہ بنا دیا۔ اب تاقیامت دو کردار ایک دوسرے کے آمنے سامنے رہیں گے۔ ایک کردار یزیدی جو جبر و ظلم کی نمائندگی کرتا ہے اور دوسرا کردار حسینی ہےجو صبر اور ایثار کی مثال بنا رہے گا ،ظاہر ہے اب ہر مسلمان خواہ کسی مسلک کا ہو اپنے لیے حسینی کردار کا انتخاب کرئے گا،یعنی جبر کے مقابلہ میں صبر ،جفا کے مقابلے میں وفا،استکبار کے مقابلہ میں ایثار،طاقت کے مقابلہ میں استقامت اور مطلق العنانی کے مقابلہ میں جرأت ایمانی کا مظاہرہ ہی دراصل اسوہ حسین (ع) اور درس کربلا ہے۔ امام حسین (ع) اور رسول پاک صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے خانوادے کا صرف اسلام پر نہیں پوری کائنات پر حشر تک کے لئے احسان ہے ورنہ غریب زندہ نہ رہتا اور ملوکیت ہر عہد میں اپنا خراج وصول کرتی رہتی۔

آج تک دنیاکے باطل نظاموں کے ترجمان اس دستور کو رائج کرنے اور اس کے فلسفے کو منوانے پر تلے ہوئے ہیں کہ طاقت ہی حق ہے مگر امامِ حسین علیہ السلام نے اس روش کے خلاف چلتے ہوئے نعرہ انقلاب بلند کیا کہ طاقت حق نہیں دراصل حق طاقت ہے اور دنیا نے دیکھ لیا کہ تلواروں کی جنگ جیتنے والے مقدر کی بازی ہار گئے اور بنجر زمین پر گھر کا گھر لٹا دینے والے انسانیت کی آبرو بن گئے۔

محرم 61 ھجری کو کربلا ختم نہیں ہوئی بلکہ شروع ہوئی تھی اور آج بھی ہر وقت کے یزید کو شکست دینے کے لئے حوصلہ ہمیں کربلا سے ہی ملتا ہے۔کربلا جس نے حق و باطل کا معیار طے کر دیا اور جس نے بے زبان کو زبان دی ،ظالم اور جابر کے سامنے کلمہ حق کہنے کا حوصلہ دیا۔’’ امام حسین نے یزیدِ وقت کو بیعت کے سوال پر یہ جواب نہیں دیا تھا میں حسین (ع) تجھ یزید کی بیعت نہیں کرتا بلکہ تاریخ گواہ ہے کہ امام پاک کے الفاظ یہ تھے کہ مجھ جیسا تجھ جیسے کی بیعت نہیں کر سکتا‘‘. اگر امام یہ کہتے کہ حسین  (ع) یزید کی بیعت نہیں کرتا تو پھر یہ دو ذاتوں تک محدود رہتا لیکن انہوں نے جو الفاظ استعمال کیئے وہ رہتی دنیا تک ایک مینارہ نور و رشدو ہدایت بن گئےاور تاریخ،سمت،وقت،سوچ،ذہن اور جذبات کو پوری طرح قبضے میں لیکر خود کو مقام امر پر فائز کرلیا اورچودہ صدیاں بیت گئیں مگر آپ کا نمایاں نام اورکردار نکھرتا چلا جاتا ہے اور وقت کی رفتار بتاتی ہے کی مستقبل میں مزیدنکھرےگا۔

انسان کو بیدار تو ہو لینے دو!!

ہرقوم پکارےگی ہمارے ہیں حسین

یزید کسی فرد کا نام نہیں ایک رویے کا نام ہے اور اسی طرح حسین (ع) کسی ایک فرد کا نہیں ایک مشن، ایک مقصد اور ایک نظریے کا نام ہے .امام نے یہ فقرہ کہہ کر رہتی دنیا تک کے لئے راہ متعین کر دی کہ فکرِ حسین  (ع) کبھی بھی فکرِ یزید کے سامنے سر نگوں نہیں ہو گی۔ آج ہم اپنے چاروں طرف جو آگ اور خون کے سمندر دیکھ رہے ہیں اور مسلم امہ مجموعی طور پر جیسے تضحیک کا نشانہ بنی ہوئی ہے تو اس کی ایک وجہ تو قرآنی تعلیمات اور اسلام سے دوری ہے اور دوسری بڑی وجہ پیغام کربلا اور فکر حسین (ع) کو فراموش کرنا ہے۔ ہم روایات میں گم ہو چکے ہیں اور فکر ہماری معاشرت سے جیسے رخصت ہو چکی ہے اور علم سے جیسے ہمیں کوئی سروکار نہیں۔ آج پوری مسلم دنیا جس طرح کے یزیدی دور سے گذر رہی ہےوہ کربلا کا منظر پیش کررہی ہے اس دور ظلمت سے نجات حاصل کرنے کی واحد راہ فکرحسین (ع) وکربلا اور انکے جزبہ حریت کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالنا اور امام حسین علیہ السلام کے پاک واعلیٰ ترین مشن کی پیروی میں ہے۔

یہ دشت ”کربلا” کی آواز ہے جو کسی قوم اور مذہب سے مخصوص نہیں بلکہ ہر ایک کے دل کی آرزو ہے ،ہر انسان کے پہلو میں دھڑکتے دل کی صدا ہے ۔ اور کیوں نہ ہوکربلاایک ایسا مکتب فکر ہے جسکا آغاز بھی شکست باطل ہے اور انجام بھی باطل کی ہار ۔کربلا کرۂ خاکی پرکھنچے کسی ایک نقشے کانام نہیں،بلکہ پوری کائنات پر محیط ایک ایسی درسگاہ کا نام ہے جسکی پیمائش نہ جغرافیائی حدود کر سکتے ہیں نہ ملکی و لسانی ضوابط و قیود ۔ہر مومن کا دل نینوا کے ساتھ دھڑک رہا ہے ،ہر درد کے مارے انسان کا ترانہ غم جاں ”کربلا ” ہے ،ہر درد کے مارے انسان کی آواز”کربلا ” ہے، ہر ستائے ہوئے انسان کا ورد زباں کربلا ہے ۔ داستان حرم کی سادگی و رنگینی کربلا کے تصور کے بغیر سمجھ میں ہی نہیں آ سکتی ۔

امام حسین (ع) نے ظلم کو اپنے لہو کے ذریعہ بے نقاب کرنے اور اقدار انسانی کے تحفظ کی خاطر انسانیت کو شعور ذات دینے کے لئے جو قربانی کربلا میں دی اسکا تسلسل آج بھی قائم ہے۔ جہاں بھی ظالم اور غاصب قوتیں انسانیت کو اپنے پنجے میں جکڑ کر اسے نابود کرنا چاہیں گی کربلا کی صدائے بازگشت ضرور سنائی دے گی۔ اس لئے کہ کربلا ایک ایسی فکر کا نام ہے جو ہر خطے ، جغرافیا ، قوم و قبیلہ اور رنگ و نسل سے ماوراء ہو کر مظلوموں اور بے سہاروں کا سہارا بن کر انکے پہلو میں دھڑک رہی ہے ۔

آج ہم خاموش رہیں یا بولیں لیکن کربلا کے تپتے ہوئے ریگزاروں سے ہر مظلوم کی حمایت کی آواز آج بھی آ رہی ہے۔ صدیاں گزر جانے کے بعد آج بھی کربلا کے خون آشام ذرات کوہاتھوں میں لیکر نچوڑا جائے تو شہدا کے مقدس خون کے قطرے یہی آواز دیں گے کہ ظلم جہاں بھی جس انداز سے بھی جس شکل میں بھی ہو ہم ظلم کے لئے دہکتے ہوئے انگارے ہیں جنکی حرارت ہر ظلم اور ظالم و جابر کے لئے پیغام اجل ہے ۔ ظلم کے خلاف اور انسانیت کی قدروں کو بچانے کے لئے جو آواز صحرائے کربلا میں بلند ہوئی تھی وہ صدیاں گزر جانے کے بعد بھی اسی زور و شور سے سنائی دے رہی ہے جس طرح ٦١ھ میں سنائی دی تھی اور جب تک دنیا میں غلامی کے دیوتاؤں کے چرنوں میں پھول چڑھائے جاتے رہیں گے یہ آواز سنائی دیتی رہے گی، جب تک خواہشات کے طوق و سلاسل میں جکڑے قیدی حریت و آزادی کے پرچم دار بنے محکوم قوموں کا استحصال کرتے رہیں گے ،جب تک غریبوں اور ناداروں کو ستایا جاتا رہے گا، جب تک حقداروں کو ان کے حق سے محروم کیا جاتا رہے گا تب تک یہ آواز سنائی دیتی رہے گی۔

حسین (ع) آؤ کہ وقت انساں کو اپنے ہاتھوں مسل رہا ہے

حسین (ع) آؤ کہ اب تو آنکھوں کی بینائی پانی میں ڈھل گئی ہے

حسین (ع) آؤ کہ آج کے آدمی کی ہیئت بدل گئی ہے

حسین (ع) میرے نحیف سانسوں کو پھر ضرورت ہے انبیا کی

قسم خدا کی حسین (ع) آؤ کہ آج دنیا کو پھر ضرورت ہے کربلا کی

تبصرے
Loading...