گمراہی سے نجات اور اندھے پن سے بصیرت دینا

حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) خطبہ فدکیہ میں ارشاد فرماتی ہیں: “وَ قَامَ فِی النَّاسِ بِالْهِدَایَۀِ، فَاَنْقَذَهُمْ مِنَ الْغَوَایَةِ، وَ بَصَّرَهُمْ مِنَ الْعَمَایَةِ، وَهَدَاهُمْ اِلَی الدِّینِ الْقَوِیمِ، وَدَعَاهُمْ اِلَی الطَّرِیقِ الْمُسْتَقِیمِ”، اور (رسولؐ اللہ) لوگوں میں ہدایت کرنے کے لئے کھڑے ہوگئے، تو ان کو گمراہی سے نجات دی، اور انہیں اندھے پن سے (نکال کر) بینائی (کی طرف) لائے، اور انہیں مضبوط دین کی طرف ہدایت کی، اور انہیں راہِ مستقیم کی طرف پکارا”۔
وضاحت:”فَاَنْقَذَهُمْ مِنَ الْغَوَایَةِ”: پہلا مرحلہ “اِنْقاذ” اور نجات دینا ہے۔ اُس زمانے کے لوگ ایسی گمراہی میں ڈوبے ہوئے تھے کہ سورہ آل عمران کی آیت ۱۶۴ میں اسے “ضَلَالٍ مُّبِينٍ”، “کھلی ہوئی گمراہی” کہا گیا ہے۔ لہذا پہلے مرحلہ میں ضروری تھا کہ انہیں اس گمراہی سے نجات دی جائے، اس شخص کی طرح جو دریا میں غرق ہورہا ہے اور اس کے لئے کوئی بھی چیز اس مسئلہ سے زیادہ اہم نہیں ہے کہ ڈوبنے سے نجات پالے۔
“وَ بَصَّرَهُمْ مِنَ الْعَمَایَةِ”: انسانی حقیقت کی ہلاکت کے گڑھے سے اور انسان کی بصیرت کو اندھا کردینے والے اندھیروں سے نجات پانے کے بعد اس کام کا موقع تھا کہ رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) ان لوگوں کی آنکھوں کو ان حقائق کی طرف کھولیں جنہیں وہ نہیں دیکھتے تھے تا کہ دھوکہ دینے والی دنیا کا ظاہری چہرہ بھی ان کے لئے واضح کردیں اور خوبصورت حقائق بھی انہیں دکھائیں۔
* احتجاج، طبرسی، ج۱، ص۱۳۳۔* ماخوذ از: پیامبر شناسی، ص۵۹، محمد علی مجد فقیہی۔

تبصرے
Loading...