مستقیم راستے کی طرف دعوت دینے کے چند شرائط

خلاصہ: حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کے خطبہ فدکیہ کی روشنی میں مستقیم راستے کی طرف دعوت دینے کے چند شرائط بیان کیے جارہے ہیں۔

حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) خطبہ فدکیہ میں ارشاد فرماتی ہیں: “وَ قَامَ فِی النَّاسِ بِالْهِدَایَۀِ، فَاَنْقَذَهُمْ مِنَ الْغَوَایَةِ، وَ بَصَّرَهُمْ مِنَ الْعَمَایَةِ، وَهَدَاهُمْ اِلَی الدِّینِ الْقَوِیمِ، وَدَعَاهُمْ اِلَی الطَّرِیقِ الْمُسْتَقِیمِ”، اور (رسولؐ اللہ) لوگوں میں ہدایت کرنے کے لئے کھڑے ہوگئے، تو ان کو گمراہی سے نجات دی، اور انہیں اندھے پن سے (نکال کر) بینائی (کی طرف) لائے، اور انہیں مضبوط دین کی طرف ہدایت کی، اور انہیں راہِ مستقیم کی طرف پکارا”۔
وضاحت:مستقیم راستے کی طرف دعوت بھی مضبوط دلیل اور مضبوط طریقہ کار کے ذریعے انجام دی جاتی ہے، جیسا کہ سورہ نحل کی آیت ۱۲۵ میں رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) سے اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے: “ادْعُ إِلَىٰ سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُم بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ”، “آپ اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت کے ذریعہ دعوت دیں اور ان سے اس طریقہ سے بحث کریں جو بہترین طریقہ ہے”۔لہذا حکمت اور اچھی نصیحت کے ذریعے دعوت ہوسکتی ہے اور یہ مضبوط ترین طریقے کار ہیں اور انسان کی سوچ اور جذبات کے پہلو کو مخاطب قرار دیا جاتا ہے نہ کہ زبردستی اور جبری حربہ کے ذریعے دعوت دی جائے۔ نہج البلاغہ میں حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) فرماتے ہیں: “فَدَعَاهُمْ بِلِسَانِ الصِّدْقِ إِلَى سَبِيلِ الْحَقِّ”، “تو آپؐ نے سچی زبان کے ذریعے انہیں حق کے راستے کی طرف دعوت دی”۔ [نہج البلاغہ، خطبہ ۱۴۴]۔لہذا صداقت اور سچائی کے ساتھ حق کے راستے کی طرف دعوت دینی چاہیے، مضبوطی اور پائداری سچائی میں ہے نہ کہ جھوٹ میں۔ بعض لوگ حق بات کی طرف دعوت دیتے ہیں لیکن جھوٹ کے ذریعے، لیکن رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) کا طریقہ کار صداقت کی زبان کے ساتھ حق کے راستے کی طرف دعوت دینا تھا۔زیارت جامعہ کبیرہ میں حضرت امام علی النقی الہادی (علیہ السلام)، اہل بیت (علیہم السلام) کے بارے میں ارشاد فرماتے ہے: “شَأْنُكُمُ الْحَقُّ وَ الصِّدْقُ وَ الرِّفْقُ”، “آپؑ کی شان (کام)، حق اور صداقت اور نرمی ہے”، ان تین چیزوں کا ایک دوسرے سے مل جانا انتہائی خوبصورت ہے، لہذا “حق” کو صداقت کے ساتھ اور نرم انداز میں بیان کرنا چاہیے۔
*احتجاج، طبرسی، ج۱، ص۱۳۳۔* ترجمہ آیت از: علامہ ذیشان حیدر جوادی اعلی اللہ مقامہ۔* نہج البلاغہ، خطبہ ۱۴۴۔* زیارت جامعہ کبیرہ۔* ماخوذ از: پیامبر شناسی، ص۶۰، محمد علی مجد فقیہی۔

تبصرے
Loading...