مخلوقات کی خلقت سے پہلے بھی اللہ کا بصیر ہونا

خلاصہ: نہج البلاغہ کے پہلے خطبہ کی تشریح کرتے ہوئے اس فقرے پر گفتگو کی جارہی ہے جو اللہ کے بصیر ہونے اور دیکھنے کے بارے میں ہے۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم     انسان یہ نہ سمجھے کہ جب مخلوقات کو اللہ نے خلق نہیں کیا تھا تو کیا اللہ بصیر تھا؟ واضح ہے کہ مخلوقات کا اللہ تعالیٰ پر کوئی اثر نہیں پڑتا اور اللہ تعالیٰ عینِ کمال ہے، اس میں کسی قسم کی تبدیلی ممکن نہیں ہے، لہذا مخلوقات کے خلق ہونے یا نہ ہونے کا تعلق اللہ کے بصیر ہونے سے نہیں ہے، بلکہ وہ پاک ذات بصیرتھی اور بصیر ہے۔     نہج البلاغہ کے پہلے خطبہ میں حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) فرماتے ہیں: “بَصِيرٌ إذْ لاَ مَنْظُورَ إلَيْهِ مِنْ خَلْقِهِ”، “وہ اس وقت بھی دیکھنے والا تھا جب اس کی مخلوقات میں کوئی چیز دکھائی دینے والی نہیں تھی”۔     صحیح ہے کہ “بصیر” بینا اور دیکھنے والے کے معنی میں “بصر” کے لفظ یعنی آنکھ سے ماخوذ کیا گیا ہے، لیکن اللہ تعالیٰ کے بارے میں حقیقی معنی میں ہرگز استعمال نہیں ہوتا۔ یا دوسرے لفظوں میں: ایسا مجاز ہے جو حقیقت سے بالاتر ہے۔اللہ تعالیٰ کے بصیر ہونے کے معنی یہ ہیں کہ جتنی دکھائی دینے والی چیزیں ہیں، اللہ ان سب سے آگاہ ہے اور حتی دکھائی دینے والی چیزوں کی خلقت سے پہلے بھی اللہ بصیر تھا۔ لہذا اللہ کا بصیر ہونا اس کے لامحدود علم سے متعلق ہے اور اللہ کا علم ازلی ہے، یعنی ہمیشہ سے ہے۔ [ماخوذ از: پیام امام، ج۱، ص۱۰۰]     حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے جب اللہ کے سمیع اور بصیر ہونے کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپؑ نے ارشاد فرمایا: “هُوَ سَميعٌ بَصيرٌ، سَميعٌ بِغَيرِ جارِحَةٍ، و بَصيرٌ بِغَيرِ آلَةٍ، بَل يَسمَعُ بِنَفسِهِ و يُبصِرُ بِنَفسِهِ، و لَيسَ قَولي: إنَّهُ يَسمَعُ بِنَفسِهِ أنَّهُ شَيءٌ و النَّفسُ شَيءٌ آخَرُ، و لكِنّي أرَدتُ عِبارَةً عَن نَفسي إذ كُنتُ مَسؤولاً، و إفهاما لَكَ إذ كُنتَ سائلاً، فأقولُ : يَسمَعُ بِكُلِّهِ، لا أنّ كُلَّهُ لَهُ بَعضٌ، وَ لَكِنِّي أَرَدْتُ إِفْهَامَكَ وَ اَلتَّعْبِيرُ عَنْ نَفْسِي وَ لَيْسَ مَرْجِعِي فِي ذَلِكَ إِلاَّ إِلَى أَنَّهُ اَلسَّمِيعُ اَلْبَصِيرُ اَلْعَالِمُ اَلْخَبِيرُ بِلاَ اِخْتِلاَفِ اَلذَّاتِ وَ لاَ اِخْتِلاَفِ اَلْمَعْنَى”، “وہ سمیع (اور) بصیر ہے، سمیع (سننے والا) ہے عضو کے بغیر، اور بصیر (دیکھنے والا) ہے آلہ کے بغیر، بلکہ اپنی ذات سے سنتا ہے اور اپنی ذات سے دیکھتا ہے، اور میری یہ بات کہ وہ اپنی ذات سے سنتا ہے (اس کا مطلب) یہ نہیں ہے کہ وہ کوئی چیز ہے اور اس کی ذات کوئی دوسری چیز ہے (اس کے علاوہ)، بلکہ میں نے اپنی طرف سے ایک عبارت (کہنا) چاہی کیونکہ مجھ سے سوال کیا گیا، اور تمہیں سمجھانا چاہا کیونکہ تم نے سوال کیا، لہذا میں کہتا ہوں: وہ اپنے کل (وجود) سے سنتا ہے، (لیکن) نہ کہ اس کا کل جس کا بعض (یعنی کوئی حصہ) ہو، بلکہ میں نے تمہیں سمجھانا چاہا، اور یہ تعبیر میری اپنی طرف سے ہے، اور اس (بات) میں میرے (مقصود کا) پلٹاؤ صرف اسی پر ہے کہ وہ سننے والا دیکھنے والا علم والا خبر رکھنے والا ہے بغیر اس کے کہ(ان صفات کا اس کی)  ذات سے فرق ہو  اور بغیر اس کے کہ معنی سے فرق ہو”۔ [التوحید، ص۲۴۵]     بنابریں اللہ کا بصیر ہونا اس کا عینِ ذات ہے، اور مخلوقات اس پر اثرانداز نہیں ہوسکتیں۔ ایسا نہیں سوچا جاسکتا ہے جب کوئی دیکھے جانے والی چیز نہ ہو تو اللہ کیسے بصیر ہوگا، بلکہ وہ مخلوقات کو خلق کرنے سے پہلے ہی بصیر اور دیکھنے والا تھا۔*اصل مطالب ماخوذ از: پیام.امام، آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی، ناشر: دار الكتب الاسلاميه‌، تہران، ۱۳۸۶ھ ۔ ش، پہلی چاپ.*التوحید، شیخ صدوق علیہ الرحمہ، الناشر: جماعة المدرّسين في الحوزة العلمي.

تبصرے
Loading...