قبضِ روح سے نبی اکرمؐ کی رغبت اور اشتیاق

خلاصہ: حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کے خطبہ فدکیہ کی روشنی میں نبی اکرم (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) کا قبضِ روح سے رغبت اور اشتیاق بیان کیا جارہا ہے۔

حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) خطبہ فدکیہ میں ارشاد فرماتی ہیں: “ثُمَّ قَبَضَهُ اللّهُ إلَيْهِ قَبْضَ رَأْفَةٍ وَ اخْتِيارٍ وَ رَغْبَةٍ وَ إيْثارٍ فَمُحَمَّد ٌ  صَلّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ مِنْ تَعَبِ ھَذِهِ الدّارِ فی راحَةٍ”، “پھر اللہ نے آپؐ کی روح مہربانی اور اختیار اور رغبت اور (آخرت کو) ترجیح دینے کے ساتھ اپنی طرف قبض کی تو (اب) محمدؐ اس دنیا کی تکلیف سے سکون میں ہیں”۔ [احتجاج، طبرسی، ج۱، ص۱۳۳]
وضاحت:رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) کا قبضِ روح رغبت اور اشتیاق سے تھا۔ حضرت امیرالمومنین علی (علیہ السلام) نہج البلاغہ میں موت سے اپنے انس کی شدت یوں بیان فرماتے ہیں: “وَاللهِ لاَبْنُ أَبِي طَالِب آنَسُ بالْمَوْتِ مِنَ الطِّفْلِ بِثَدْيِ أُمِّهِ”، “اللہ کی قسم، بچہ کا اپنی ماں کے سینہ سے مانوس ہونے سے زیادہ یقیناً فرزند ابوطالب موت سے مانوس ہے”۔ [نہج البلاغہ، خطبہ ۵]۔حضرت علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) کے اس بیان کا مطلب یہ ہے کہ آپؑ کا زندہ رہنا آپؑ کے لئے ایسی ریاضت ہے جسے آپؑ برداشت کررہے تھے اور کیونکہ صرف حقیقی محبوب یہ چاہتا ہے تو آپؑ نے دنیا کی اس زندگی کو قبول کیا ہے ورنہ آپؑ کا وجود اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ آپؑ عالَم آخرت میں پہنچ کر اپنے حقیقی محبوب سے مزید مانوس ہوجائیں۔اولیاء اللہ کو موت سے کوئی خوف نہیں ہوتا، بلکہ وہ موت کے مشتاق ہوتے ہیں، کیونکہ پرورش یافتہ روحوں کی آرزو، اللہ تعالیٰ کی ملاقات ہوتی ہے اور دنیا اور یہاں کی زندگی ان کے لئے تکلیف کی جگہ ہوتی ہے۔
* احتجاج، طبرسی، ج۱، ص۱۳۳۔* ماخوذ از: پیامبر شناسی، ص۶۷، محمد علی مجد فقیہی۔

تبصرے
Loading...