علمائے اہلسنت کی قلم فضائلِ مباہلہ پر رکنے سے عاجز

خلاصہ: واقعہ مباہلہ میں اہل بیت (علیہم السلام) کے فضائل اس قدر واضح ہیں کہ بعض مخالفوں نے جہاں بھی مخالفت کی ہو، یہاں مخالفت نہیں کی، بلکہ اہل بیت (علیہم السلام) کے فضائل کو مضبوط انداز میں بیان کردیا ہے۔

بسم اللہ الرحمن الرحیمواقعہ مباہلہ نے اہل بیتِ عصمت و طہارت (علیہم السلام) کے عظیم مقام کو لوگوں کے لئے خصوصاً مسلمان علماء کے لئے مزید ثابت اور واضح کردیا یہاں تک کہ ان میں سے مخالف بھی اس باعظمت واقعہ کو ذکر کرنے سے اپنے آپ کو نہیں روک سکے اور اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس ذریعے سے حق کو ان کی قلم اور زبان پر جاری کردیا ہے۔تفسیر مفاتیح الغیب کے مصنف، علامہ اہلسنت فخرالدین رازی جنہوں نے شیعہ کے موقف اور عقائد میں شکوک و شبہات پیدا کرنے میں دوسروں پر سبقت کی ہے اور امامت کے مسائل میں سے کسی مسئلہ سے مخالفت کیے بغیر نہیں گزرے، مگر جب آیت مباہلہ پر پہنچے ہیں تو حقیقت کا اس طرح اظہار کیا ہے:رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ) جب مباہلہ کے مقام پر آرہے تھے تو سیاہ بالوں سے بُنی ہوئی عبا پہنے ہوئے اور حسین کو اٹھائے ہوئے اور حسن کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے اور فاطمہ اور علی (علیہماالسلام) آپؐ کے پیچھے آرہے تھے تو اس وقت پیغمبر نے ان سے فرمایا: “جب میں نے بددعا کے لئے ہاتھ اٹھایا تو آپ آمین کہنا”۔ پھر پیغمبر نے مباہلہ کی اسی جگہ پر حسن اور حسین اور علی اور فاطمہ (علیم السلام) کو اپنی عبا کے نیچے اکٹھا کیا اور آیت تطہیر کی قرائت فرمائی اور اس طریقے سے اپنی اہل بیت کا بھی تعارف کرایا اور ان کی عظمت اور مقام پہچنوایا۔اس روایت کو نقل کرنے کے بعد فخررازی کا کہنا ہے کہ محدثین اور مفسرین کا اتفاق ہے کہ یہ روایت صحیح ہے اور اس کے نقل ہونے میں کسی قسم کا شک نہیں پایا جاتا۔فخررازی نے اس کے بعد کہا ہے: نیز یہ آیت نشاندہی کرتی ہے کہ حسن اور حسین، رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ) کے بیٹے ہیں۔ [ماخوذ از: مباہلہ روشن ترین دلیل باورہای شیعہ، ص56]اہلسنت کے بعض مفسرین جیسے آلوسی، زمخشری اور فخررازی نے متفق علیہ کا دعوی کیا ہے کہ ان چار افراد کے علاوہ پیغمبرؐ کے ساتھ کوئی نہیں تھا۔ [پژوهش های قرآنی، ص5]۔۔۔۔۔۔حوالہ جات:[ماخوذ از: مباہلہ روشن ترین دلیل باورہای شیعہ، عبدالکریم پاک نیا[[ماخوذ از: پژوهش های قرآنی، اهل بيت و اسباب نزول، حسن حکیم باشی، دفتر تبلیغات اسلامی حوزه علمیه قم]

تبصرے
Loading...