علامہ زرکشی کے نقطۂ نظر سے دنیا کی بہترین اور افضل خاتون

وہابی اور سلفی تحریکیں اگر ماننے پر آتی ہیں تو جہل مرکب کے شکار شخص کو شیخ السلام بنادیتی ہیں اور نہ ماننے پر آئیں تو آفتاب کی روشنی کا بھی انکار کرسکتی ہیں انکا یہی حال اهل بیت(ع) سے مربوط فضائل کی احادیث سے ہے جسکا بڑی صفائی سے انکار کرجانتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ شیعہ سنی بیوقوف ہیں، اور انکی فتنہ انگیزیوں کو سمجھ نہیں پائیں گے۔

مختلف سیٹیلائٹ چینلز پر وہابی ماہرین بڑے طمطراق کے ساتھ دعویٰ کرتے نظر آتے ہیں کہ بس شیعہ ہی وہ واحد گروہ ہے کہ جو فاطمہ سلام اللہ علیہا کو دنیا کی سب سے نیک  اور افضل و برتر خاتون سمجھتا ہے، جبکہ  وہابی چینلز پر بولنے والے ان افراد کی یہ بات حقیقت کے بالکل برخلاف ہے کیونکہ صرف شیعہ ہی نہیں بلکہ اہل سنت کےعلماء و دانشور اور اسکالرز کی ایک قابل ذکر تعداد بھی شیعوں سے اتفاق نظر  رکھتی ہے ، جنھوں نے فاطمہ زھرا سلام اللہ علیہا کو دنیا کی سب سے نیک اور افضل و برتر  خاتون کے طور پر متعارف کرایا ہے، مثال کے طور پر ، امام محمد ابن یوسف صالحی شامی نے اپنی  کتاب ’’سبل الہدیٰ و الرشاد‘‘ میں لکھا ہے:«قال الزرکشی فی ” الخادم” عند قول الرافعی و النووی: ” و تفضیل زوجاته صلی الله علیه (و آله) و سلم علی سائر النساء” ما نصه: هل المراد نساء هذه الامة او النساء کلهن؟ فیه خلاف، حکاه الرویانی، و یستثنی من الخلاف سیدتنا فاطمة، فهی افضل نساء العالم، لقوله صلی الله علیه (و آله) و سلم: ” فاطمة بضعة منی” و لا یعدل ببضعة من رسول الله صلی الله علیه (و آله) و سلم احد».[سبل الهدی و الرشادج 12، ص 52]« زرکشی  نے کتاب ’’الخادم‘‘ میں ، رافعی اور نووی  کی گفتگو کے اس حاشیہ پر کہ ’’پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ(وآلہ)وسلم کی بیویاں دوسری خواتین کے مقابلے میں فضیلت کے کس درجے پر ہیں‘‘  ایک بات بیان کی ہے جسکی عبارت عیناً یہ ہے کہ: کیا اس سے مراد امت اسلام کی خواتین ہیں یا تمام خواتین؟ اس مسئلے میں اختلاف ہے اور  رویانی نے ان اختلافات کو ذکر بھی کیا ہے ۔(لیکن وہ بات کہ جو نوٹ کیے جانے کے قابل ہے اورجس پر توجہ دینا چاہئے وہ یہ ہے کہ) ہماری مخدومہ سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا اس اختلاف سے بالا و برتر اور مستثنیٰ ہیں اور  آپ  دنیا کی سب سے بافضیلت خاتون ہیں کیونکہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ (وآلہ)وسلم نے فرمایا ہے: ’’فاطمہ میرا ٹکڑا [میرا جزء ،میراحصہ] ہے‘‘اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ (وآلہ)وسلم کے پارۂ تن  کی جگہ، انکے ٹکڑے ، انکے حصے کی جگہ کوئی نہیں لے سکتا ہے»۔منبع[۱] صالحی شامی، محمد بن یوسف، سبل الهدی و الرشاد فی سیرة خیر العباد، تحقیق: عبدالمعز عبدالحمید الجزار، قاهره: احیاء التراث الاسلامی، 1418ق _ 1997م، ج 12، ص 52 _ 53.

تبصرے
Loading...